الف: جب وحی کی نسبت نبی کی طر ف ہوگی تو ا سکے معنی ہوں گے رب تعالیٰ کابذریعہ فرشتہ پیغمبر سے کلام فرمانا یعنی وحی الٰہی عرفی ۔
ب:جب وحی کی نسبت غیرنبی کی طر ف ہو تواس سے مرادہوگادل میں ڈالنا، خیال پیدا کردینا ۔ الف کی مثال ان آیا ت میں ہے :
(1) اِنَّاۤ اَوْحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوْحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعْدِہٖ
بے شک ہم نے وحی کی تمہاری طر ف جیسے وحی کی تھی نوح اور ان کے بعد والے پیغمبر وں کی طر ف ۔(پ6،النسآء:163)
(2) وَ اُوۡحِیَ اِلٰی نُوۡحٍ اَنَّہٗ لَنۡ یُّؤْمِنَ مِنۡ قَوْمِکَ اِلَّا مَنۡ قَدْ اٰمَنَ
اور وحی کی گئی نوح کی طر ف کہ اب ایمان نہ لا ئیگا مگر وہ جو ایمان لاچکے ۔(پ12،ھود:36)
ان جیسی صدہا آیتوں میں وحی سے مراد ہے وحی ربانی جو پیغمبر وں پر آتی ہے۔ ”ب ” کی مثال یہ آیات ہیں:
(1) وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوۡنَ ﴿ۙ۶۸﴾
اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں ڈالا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتو ں میں ۔(پ14،النحل:68)
(2) وَ اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلٰۤی اَوْلِیٰٓـِٕہِمْ
اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتا ہے ۔(پ8،الانعام:121)
(3) وَاَوْحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنْ اَرْضِعِیۡہِ
اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے دل میں ڈال دیا کہ انہیں دودھ پلاؤ ۔(پ20،القصص:7)
ان آیتو ں میں چونکہ وحی کی نسبت شہد کی مکھی یا موسیٰ علیہ السلام کی ماں یا شیطان کی طر ف ہے اور یہ سب نبی نہیں اس لئے یہاں وحی نبوت مراد نہ ہوگی بلکہ فقط دل میں ڈال دینا مراد ہوگا کبھی وحی اس کلام کو بھی کہا جاتا ہے جو نبی سے بلا واسطہ فرشتہ ہو ۔ جیسے اس آیت میں ہے ۔
فَکَانَ قَابَ قَوْسَیۡنِ اَوْ اَدْنٰی ۚ﴿۹﴾فَاَوْحٰۤی اِلٰی عَبْدِہٖ مَاۤ اَوْحٰی ﴿ؕ۱۰﴾
پس ہوگئے وہ محبوب دوکمانوں کے فاصلہ پر اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی کی ۔(پ27،النجم:9۔10)
معراج کی رات قرب خاص کے موقعہ پر جب فرشتہ کا واسطہ نہ رہا تھا جو رب تعالیٰ سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہم کلامی ہوئی اسے وحی فرمایاگیا۔