ہر ماں باپ کو یہ جان لینا چاہے کہ بچپن میں جو اچھی بری عادتیں بچوں میں پختہ ہو جاتی ہیں وہ عمر بھر نہیں چھوٹتی ہیں۔اس لئے
ماں باپ کو لازم ہے کہ بچوں کو بچپن ہی میں اچھی عادتیں سکھائیں اور بری عادتوں سے بچائیں بعض لوگ یہ کہہ کر ابھی بچہ ہے۔ بڑ ا ہوگا تو ٹھیک ہو جائے گا۔ بچوں کو شرارتوں اور غلط عادتوں سے نہیں روکتے۔ وہ لوگ در حقیقت بچوں کے مستقبل کو خراب کرتے ہیں اور بڑے ہونے کے بعد بچوں کے برے اخلاق اور گندی عادتوں پر روتے اور ماتم کرتے ہیں اس لئے نہایت ضروری ہے کہ بچپن ہی میں بچوں کی کوئی شرارت یا بری عادت دیکھیں تو اس پر روک ٹوک کرتے رہیں بلکہ سختی کے ساتھ ڈانٹتے پھٹکارتے رہیں۔اورطرح طرح سے بری عادتوں کی برائیوں کو بچوں کے سامنے ظاہر کر کے بچوں کو ان خراب عادتوں سے نفرت دلاتے رہیں اور بچوں کی خوبیوں اور اچھی اچھی عادتوں پر خوب خوب شاباش کہہ کر ان کا من بڑھائیں بلکہ کچھ انعام دے کر ان کا حوصلہ بلند کریں۔اس سے قبل بچوں کے حقوق کے بیان میں بچوں کے لئے بہت سی مفید باتیں ہم لکھ چکے ہیں اب اس سے کچھ زائد باتیں بھی ہم لکھتے ہیں۔ ماں باپ پر لازم ہے کہ ان باتوں کا خاص طور پر دھیان رکھیں۔ تاکہ بچوں اور بچیوں کا مستقبل روشن اور شاندار بن جائے۔
(۱)بچوں کو دودھ پلانے اور کھانا کھلانے کے لئے وقت مقرر کرلو۔ جو عورتیں ہر وقت بچوں کو دودھ پلاتی یا جلدی جلدی بچوں کو دن رات میں بار بار کھانا کھلاتی رہتی ہیں ان کے بچوں کا ہاضمہ خراب اور معدہ کمزور ہو جایا کرتا ہے اور بچے قے دست کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر کمزور ہو جایا کرتے ہیں۔
(۲)بچوں کو صاف ستھرا رکھو مگر بہت زیادہ بناؤ سنگھار مت کرو۔ کہ اس سے اکثر نظر لگ جایاکرتی ہے۔
(۳)بچوں کو ہر دم گود میں نہ لئے رہو بلکہ جب تک وہ بیٹھنے کے قابل نہ ہوں پالنے میں
زیادہ تر سلائے رکھو۔ اور جب وہ بیٹھنے کے قابل ہوں تو ان کو رفتہ رفتہ مسندوں اور تکیوں کا سہارا دے کر بٹھانے کی کوشش کرو۔ ہر دم گود میں لئے رہنے سے بچے کمزور ہو جایا کرتے ہیں۔ اور وہ گود میں رہنے کی عادت پڑجانے سے بہت دیر میں چلتے اور بیٹھتے ہیں۔
(۴)بعض عورتیں اپنے بچوں کو مٹھائی کثرت سے کھلایا کرتی ہیں۔ یہ سخت مضر ہے۔ مٹھائی کھانے سے دانت خراب اور معدہ کمزور’ اور بکثرت صفراوی بیماریاں اور پھوڑے پھنسی کا روگ بچوں کو لگ جاتا ہے۔ مٹھائیوں کی جگہ گلوکوز کے بسکٹ بچوں کے لئے اچھی غذا ہے۔
(۵) بچوں کے سامنے زیادہ کھانے کی برائی بیان کرتے رہو اور ہر وقت کھاتے پیتے رہنے سے بھی بچوں کو نفرت دلاتے رہو۔ مثلاًیوں کہا کرو کہ جو زیادہ کھاتا ہے وہ جنگلی اور بدو ہوتا ہے اور ہر وقت کھاتے پیتے رہنا یہ بندروں کی عادت ہے۔
(۶)بچوں کی ہر ضد پوری مت کرو کہ اس سے بچوں کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور وہ ضدی ہو جاتے ہیں اور یہ عادت عمر بھر نہیں چھوٹتی۔
(۷)بچوں کے ہاتھ سے فقیروں کو کھانا اور پیسہ دلایا کرو۔ اسی طرح کھانے پینے کی چیزیں بچوں کے ہاتھ سے اس کے بھائی بہنوں کو یا دوسرے بچوں کو دلایا کرو تاکہ سخاوت کی عادت ہو جائے اور خود غرضی اور نفس پروری کی عادت پیدا نہ ہو اور بچہ کنجوس نہ ہو جائے۔
(۸)چلا کر بولنے اور جواب دينے سے ہمیشہ بچوں کو روکو۔ خاص کر بچیوں کو تو خوب خوب ڈانٹ پھٹکار کرو۔ ورنہ بڑی ہونے کے بعد بھی یہی عادت پڑی رہے گی تو میکے اور سسرال دونوں جگہ سب کی نظروں میں ذلیل و خوار بنی رہے گی اور منہ پھٹ اور بدتمیز کہلائے گی۔
(۹)غصہ کرنا اور بات بات پر روٹھ کر منہ پھلانا۔ بہت برا ہے اور بہت زور سے ہنسنا خواہ مخواہ بھائی بہنوں سے لڑنا جھگڑنا۔ چغلی کھانا۔ گالی بکنا ان حرکتوں پر لڑکوں اور خاص کر لڑکیوں کو بہت زیادہ تنبیہ کیا کرو۔ ان بری عادتوں کا پڑجانا عمر بھر کے لئے رسوائی کا سامان ہے۔
(۱۰)اگر بچہ کہیں سے کسی کی کوئی چیز اٹھالائے اگر چہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔ اس پر سب گھر والے خفا ہوجائیں اور سب گھر والے بچے کو چور چور کہہ کر شرم دلائیں اور بچے کو مجبور کریں کہ وہ فوراًاس چیز کو جہاں سے وہ لایا ہے اسی جگہ اس کو رکھ آئے پھر چوری سے نفرت دلانے کے لئے اس کا ہاتھ دھلائیں اور کان پکڑ کر اس سے توبہ کرائیں تاکہ بچوں کے ذہن میں اچھی طرح یہ بات جم جائے کہ پرائی چیز لینا چوری ہے اور چوری بہت ہی برا کام ہے۔
(۱۱)بچے غصہ میں اگر کوئی چیز توڑیں پھوڑیں۔ یا کسی کو مار بیٹھیں تو بہت زیادہ ڈانٹو۔ بلکہ مناسب سزادو تاکہ بچے پھر ایسا نہ کریں اس موقع پر لاڈ پیار نہ کرو۔
(۱۲)کبھی کبھی بچوں کو بزرگوں اور نیک لوگوں کی حکایتیں سنایا کرو۔ مگر خبردار خبردار عاشقی معشوقی کے قصے کہانیاں بچوں کے کان میں نہ پڑیں۔ نہ ایسی کتابیں بچوں کے ہاتھوں میں دو جن سے اخلاق خراب ہوں۔
(۱۳)لڑکوں اور لڑکیوں کو ضرور کوئی ایسا ہنر سکھا دو جس سے ضرورت کے وقت وہ کچھ کما کر بسر اوقات کر سکیں۔ مثلاًسلائی کا طریقہ’ یا موزہ بنیان’ سوئیٹر بننا’ یا رسی بٹنا یا چرخہ کاتنا’ خبردار خبردار ان ہنر کی باتوں کو سکھانے میں شرم و عار محسوس نہ کرو۔
(۱۴)بچوں کو بچپن ہی سے اس بات کی عادت ڈالو کہ وہ اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کریں
وہ اپنا بچھونا خود اپنے ہاتھ سے بچھائیں۔ اور صبح کو خود اپنے ہاتھ سے اپنا بستر لپیٹ کر اس کی جگہ پر رکھیں۔ اپنے کپڑوں اور زیوروں کو خود سنبھال کر رکھیں۔
(۱۵)لڑکیوں کو برتن دھونے اور کھانے پینے گھروں اور سامان کی صفائی ستھرائی اور سجاوٹ کپڑا دھونے’ کپڑا رنگنے’ سینے پرونے کا سب کام ماں کو لازم ہے کہ بچپن ہی سے سکھانا شروع کر دے اور لڑکیوں کو محنت مشقت اٹھانے کی عادت پڑجائے اس کی کوشش کرنی چاہے۔
(۱۶)ماں کو لازم ہے کہ بچوں کے دل میں باپ کا ڈر بٹھاتی رہے تاکہ بچوں کے دلوں میں باپ کا ڈر رہے۔
(۱۷)بچے اور بچیاں کوئی کام چھپ چھپا کر کریں تو ان کی روک ٹوک کرو کہ یہ اچھی عادت نہیں۔
(۱۸)بچوں سے کوئی محنت کا کام لیا کرو مثلاً لڑکوں کے لئے لازم ہے کہ وہ کچھ دور دوڑ لیا کریں اور لڑکیاں چرخہ چلائیں۔ یا چکی پیس لیں تاکہ ان کی صحت ٹھیک رہے۔
(۱۹)بچوں اور بچیوں کو کھانے’ پہننے اور لوگوں سے ملنے ملانے اور محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھانا ماں باپ کے لئے ضروری ہے۔
(۲۰)چلنے میں تاکید کرو کہ بچے جلدی جلدی اور دوڑتے ہوئے نہ چلیں اور نظر اوپر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے نہ چلیں۔ اور نہ بیچ سڑک پر چلیں۔ بلکہ ہمشہ سڑک کے کنارے کنارے چلیں۔