حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک حجاز کی زمین سے ایک ایسی آگ نہ نکلے جس کی روشنی میں بصریٰ کے اونٹوں کی گردنیں نظر آئیں گی۔ (1) (مسلم جلد ۲ ص۳۹۳ کتاب الفتن)
اس غیب کی خبر کا ظہور ۶۵۴ ھ میں ہوا۔چنانچہ حضرت امام نووی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں تحریر فرمایا کہ یہ آگ ہمارے زمانے میں ۶۵۴ ھ میں مدینہ کے اندر ظاہر ہوئی۔ یہ آگ اس قدر بڑی تھی کہ مدینہ کے مشرقی جانب سے لے کر ”حرہ” کی پہاڑیوں تک پھیلی ہوئی تھی اس آگ کا حال ملک شام اور تمام شہروں میں تواتر کے طریقے پر معلوم ہوا ہے اورہم سے اس شخص نے بیان کیاجو اس وقت مدینہ میں موجود تھا۔(2)(شرح مسلم نووی جلد ۲ ص ۳۹۳ کتاب الفتن)
اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا ہے کہ ۳ جمادی الآخرۃ ۶۵۴ ھ کو مدینہ منورہ میں ناگہاں ایک گھرگھراہٹ کی آواز سنائی دینے لگی پھر نہایت ہی زوردار زلزلہ آیا جس کے جھٹکے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد دو دن تک محسوس کیے جاتے رہے۔ پھر بالکل اچانک قبیلہ قریظہ کے قریب پہاڑوں میں ایک ایسی خوفناک آگ نمودار ہوئی جس کے بلند شعلے مدینہ سے ایسے نظر آ رہے تھے کہ گویا یہ آگ مدینہ منورہ کے گھروں میں لگی ہوئی ہے۔ پھر یہ آگ بہتے ہوئے نالوں کی طرح سیلاب کے مانند پھیلنے لگی اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ پہاڑیاں آگ بن کر بہتی چلی جا رہی ہیں اور پھر اس کے شعلے اس قدر بلند ہوگئے کہ آگ کا ایک پہاڑ نظر آنے لگا اور آگ کے شرارے ہر چہار طرف فضاؤں میں اڑنے لگے۔ یہاں تک کہ اس آگ کی روشنی مکہ مکرمہ سے نظر آنے لگی اور بہت سے لوگوں نے شہر بصریٰ میں رات کو اسی آگ کی روشنی میں اونٹوں کی گردنوں کو دیکھ لیا۔ اہل مدینہ آگ کے اس ہولناک منظر سے لرزہ براندام ہو کردہشت اور گھبراہٹ کے عالم میں توبہ اوراستغفار کرتے ہوئے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس پناہ لینے کے لیے مجتمع ہوگئے۔ ایک ماہ سے زائد عرصہ تک یہ آگ جلتی رہی اور پھر خود بخود رفتہ رفتہ اس طرح بجھ گئی کہ اس کا کوئی نشان بھی باقی نہیں رہا۔(1)(تاریخ الخلفاء ص ۳۲۴)