یہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت امیمہ بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی ہیں۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح کرا دیا تھا مگر چونکہ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا خاندانِ قریش کی ایک بہت ہی شاندار خاتون تھیں اور حسن و جمال میں بھی یہ خاندانِ قریش کی بے مثال عورت تھیں اور حضرت زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو گو کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آزاد کرکے اپنا متبنیٰ(منہ بولا بیٹا) بنا لیا تھا مگر پھر بھی چونکہ وہ پہلے غلام تھے اس لئے حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ان سے خوش نہیں تھیں اور اکثر میاں بیوی میں ان بن رہا کرتی تھی یہاں تک کہ حضرت زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو طلاق دے دی۔ اس واقعہ سے فطری طور پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب نازک پر صدمہ گزرا۔ چنانچہ جب ان کی عدت گزر گئی تو محض حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی دلجوئی کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس اپنے نکاح کا پیغام بھیجا۔ روایت ہے کہ یہ پیغام بشارت سن کر حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے دو رکعت نماز ادا کی اور سجدہ میں سر رکھ کر یہ دعا مانگی کہ خداوندا! تیرے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے نکاح کا پیغام دیا ہے اگر میں تیرے نزدیک ان کی زوجیت میں داخل ہونے کے لائق عورت ہوں تو یااﷲ!عزوجل تو ان کے ساتھ میرا نکاح فرما دے ان کی یہ دعا فوراً ہی قبول ہو گئی اور یہ آیت نازل ہو گئی کہ
فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا (1)
جب زید نے اس سے حاجت پوری کر لی (زینب کو طلاق دے دی اور عدت گزر گئی) تو ہم نے اس (زینب) کا آپ کے ساتھ نکاح کر دیا۔(احزاب)
اس آیت کے نزول کے بعد حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کون ہے جو زینب کے پاس جائے اور اس کو یہ خوشخبری سنائے کہ اﷲ تعالیٰ نے میرا نکاح اس کے ساتھ فرما دیا ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک خادمہ دوڑتی ہوئی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس پہنچیں اور یہ آیت سنا کر خوشخبری دی۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہااس بشارت سے اس قدر خوش ہوئیں کہ اپنا زیور اتار کر اس خادمہ کو انعام میں دے دیا اور خود سجدہ میں گر پڑیں اور اس نعمت کے شکریہ میں دو ماہ لگاتار روزہ دار رہیں۔
روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس کے بعد ناگہاں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے مکان میں تشریف لے گئے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) بغیر خطبہ اور بغیر گواہ کے آپ نے میرے ساتھ نکاح فرما لیا؟ ارشاد فرمایا کہ تیرے ساتھ میرا نکاح اﷲ تعالیٰ نے کر دیا ہے اور حضرت جبریل علیہ السلام اور دوسرے فرشتے اس نکاح کے گواہ ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے نکاح پر جتنی بڑی دعوت ولیمہ فرمائی اتنی بڑی دعوت ولیمہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں سے کسی کے نکاح کے موقع پر بھی نہیں فرمائی۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے ساتھ نکاح کی دعوت ولیمہ میں تمام صحابہ کرام کو نان و گوشت کھلایا۔
ان کے فضائل و مناقب میں چند احادیث بھی مروی ہیں۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک دن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری وفات کے بعد تم ازواجِ مطہرات میں سے میری وہ بیوی سب سے پہلے وفات پا کر مجھ سے آن ملے گی جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہے۔ یہ سن کر تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے ایک لکڑی سے اپنا ہاتھ ناپا تو حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا نکلا لیکن جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں سے سب سے پہلے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہانے وفات پائی تو اس وقت لوگوں کو پتا چلا کہ ہاتھ لمبا ہونے سے مراد کثرت سے صدقہ دیناتھا۔ کیونکہ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے ہاتھ سے کچھ دستکاری کا کام کرتی تھیں اور اس کی آمدنی فقراء و مساکین پر صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔
ان کی وفات کی خبر جب حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس پہنچی تو انہوں نے کہا کہ ہائے ایک قابل تعریف عورت جو سب کے لئے نفع بخش تھی اور یتیموں اور بوڑھی عورتوں کا دل خوش کرنے والی تھی آج دنیا سے چلی گئی، حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے بھلائی اور سچائی میں اور رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کے معاملہ میں حضرت زینب سے بڑھ کر کسی عورت کو نہیں دیکھا۔
منقول ہے کہ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے اکثر یہ کہا کرتی تھیں کہ مجھ کو خداوند تعالیٰ نے ایک ایسی فضیلت عطا فرمائی ہے جو ازواجِ مطہرات میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی کیونکہ تمام ازواجِ مطہرات کا نکاح تو ان کے باپ داداؤں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کیا لیکن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ میرا نکاح اﷲ تعالیٰ نے کر دیا۔
انہوں نے گیارہ حدیثیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت کی ہیں جن میں سے دو حدیثیں بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں مذکور ہیں۔ باقی نو حدیثیں دوسری کتب احادیث میں لکھی ہوئی ہیں۔
منقول ہے کہ جب حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وفات کا حال امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے حکم دے دیا کہ مدینہ کے ہر کوچہ و بازار میں یہ اعلان کر دیا جائے کہ تمام اہل مدینہ اپنی مقدس ماں کی نمازِ جنازہ کے لئے حاضر ہو جائیں۔ امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود ہی ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور یہ جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔ ۲۰ھ یا ۲۱ ھ میں ۵۳ برس کی عمر پا کر مدینہ منورہ میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔(1)(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۴۷۶ تا ۴۷۸ وغیرہ)