عموماً حج کے لئے جمع کرائی گئی رقم میں سے کچھ کرایوں کے مد میں کاٹ لی جاتی ہے اور کچھ حاجی کو عرب شریف میں دیگر اخراجات کے لئے دی جاتی ہے ۔ کرایوں کی مد میں کٹ جانے والی رقم حاجی کی ملکیت نہ رہی کیونکہ اجارے میں بطورِ ایڈوانس دی جانے والی رقم مالک کی مِلک نہیں رہتی بلکہ لینے والے کی مِلک ہوجاتی ہے چنانچہ یہ رقم شامل ِ نصاب نہ ہوگی ۔دیارِ عرب میں ملنے والی رقم اسی کی ملکیت ہے اور اس کا حکم ہمارے عرف میں قرض کا ہے ،اس لئے اگر یہ رقم تنہا یا دیگر اموال سے مل کر نصاب کو پہنچ جائے اور ان اموال پر سال بھی پورا ہوچکا ہوتو اس کی زکوٰۃ فرض ہوجائے گی لیکن جمع کروائی گئی رقم کی زکوٰۃ اُس وقت دینا واجب ہے جب مقدارِ نصاب کا کم ازکم پانچواں حصہ وصول ہوجائے ۔ (ماخوذ از فتاوی اہلسنّت ،سلسلہ نمبر 4،ص۲۷،۲۸)
پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ
چونکہ یہ فنڈ مالک کی مِلک ہوتا ہے اس لئے اگر ملازم مالک نصاب ہے توجب سے یہ رقم جمع ہونا شروع ہوئی اُسی وقت سے اِس رقم کی بھی زکوٰۃ ہر سال فرض ہوتی رہے گی۔ (فتاوٰی فیض الرسول ،حصّہ اوّل، ص ۴۷۹)لیکن ادائیگی اس وقت واجب ہوگی جب مقدارِ نصاب کا کم از کم پانچواں حصہ وصول ہوجائے ۔(ماخوذ از فتاوٰی فقیہ ملت ج۱،ص۳۲۰)