الف: جب” عبد ”کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طر ف ہو تو اس سے مراد مخلوق عابد یا بندہ ہوتا ہے ۔
ب: جب” عبد ” کی نسبت بندے کی طرف ہو تو اس کے معنی خادم نوکر ہوں گے ۔
” الف ”کی مثال ان آیات میں ہے :
(1) سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا
پاک ہے وہ جو اپنے بندہ خاص کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:1)
(2) وَاذْکُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوۡبَ
(3) اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمْ سُلْطٰنٌ
میرے خاص بندوں پر اے ابلیس تیرا غلبہ نہ ہوگا ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:65)
ان تمام آیتو ں میں چونکہ عبدکی نسبت رب تعالیٰ کی طر ف ہے اس لئے یہاں ”عبد ” کے معنی بندہ ئعا بد ہوں گے ۔
” ب ”کی مثال ان آیات میں ہے :
(1) وَ اَنۡکِحُوا الْاَیَامٰی مِنۡکُمْ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَ اِمَآئِکُمْ
اور نکاح کردو ان میں سے ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق غلاموں اور لونڈیوں کا ۔(پ18،النور:32)
(2) قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسْرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوۡا مِنۡ رَّحْمَۃِ اللہِ
فرمادو کہ اے میرے وہ غلاموجنہوں نے زیادتی کی اپنی جانوں پر مت ناامید ہو اللہ کی رحمت سے (پ24،الزمر:53)
ان آیتو ں میں چونک” عبد ” کی نسبت بندوں کی طر ف ہے اس لئے اس کے معنی مخلوق نہ ہوں گے بلکہ خادم ، غلام ہوں گے لہٰذا عبدالنبی اور عبدالرسول کے معنی ہیں نبی کا خادم۔