غزوہ ذات الرقاع

سب سے پہلے قبائل ”انمار و ثعلبہ” نے مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کیا جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اِس کی اطلاع ملی توآپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے چارسوصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کالشکراپنے ساتھ لیا اور ۱۰محرم    ۵ھ؁ کو مدینہ سے روانہ ہو کر مقامِ
”ذات الرقاع” تک تشریف لے گئے لیکن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کا حال سن کر یہ کفار پہاڑوں میں بھاگ کر چھپ گئے اس لئے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ مشرکین کی چند عورتیں ملیں جن کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے گرفتارکرلیا۔اس وقت مسلمان بہت ہی مفلس اور تنگ دستی کی حالت میں تھے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سواریوں کی اتنی کمی تھی کہ چھ چھ آدمیوں کی سواری کے لئے ایک ایک اونٹ تھا جس پر ہم لوگ باری باری سوار ہو کر سفر کرتے تھے پہاڑی زمین میں پیدل چلنے سے ہمارے قدم زخمی اور پاؤں کے ناخن جھڑ گئے تھے اس لئے ہم لوگوں نے اپنے پاؤں پر کپڑوں کے چیتھڑے لپیٹ لئے تھے یہی وجہ ہے کہ اس غزوہ کا نام ”غزوہ ذات الرقاع” (پیوندوں والا غزوہ) ہو گیا۔(1) (بخاری غزوہ ذات الرقاع ج۲ ص۵۹۲)
بعض مؤرخین نے کہا کہ چونکہ وہاں کی زمین کے پتھر سفید و سیاہ رنگ کے تھے اور زمین ایسی نظر آتی تھی گویا سفید اور کالے پیوند ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہیں،لہٰذا اس غزوہ کو ”غزوہ ذات الرقاع” کہا جانے لگااور بعض کا قول ہے کہ یہاں پر ایک درخت کا نام ”ذات الرقاع” تھااس لئے لوگ اس کو غزوہ ذات الرقاع کہنے لگے،ہو سکتا ہے کہ یہ ساری باتیں ہوں۔(2)(زرقانی جلد۲ ص۸۸)
مشہور امام سیرت ابن سعد کا قول ہے کہ سب سے پہلے اس غزوہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ” صلوٰۃ الخوف” پڑھی۔(3)
         (زُرقانی ج۲ ص۹۰ و بخاری باب غزوہ ذات الرقاع ج۲ ص۵۹۲)
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ ذات الرقاع،ج۲،ص۵۲۶،۵۲۸ 
وصحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ ذات الرقاع،الحدیث۴۱۲۸،ج۳،ص۵۸
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ ذات الرقاع، ج۲،ص۵۲۵    
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ ذات الرقاع، ج۲،ص۵۲۸،۵۲۹
Exit mobile version