پاؤں کا روزہ
پاؤں کا روزہ یہ ہے کہ پاؤں اُٹھیں تَو صِرف نیک کاموں کیلئے اُٹھیں ۔ مَثَلاً پاؤں چلیں تومساجد کی طرف چلیں،مزاراتِ اولیاء رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی کی طرف چلیں،عُلَماء و صُلحا کی زیارت کے لئے چلیں،سُنّتوں بھرے اِجتِماع کی طرف چلیں ، نیکی کی دعوت دینے کیلئے چلیں،سُنّتوں کی تربیّت کیلئے مَدَنی قافِلوں میں سفرکیلئے چلیں،نیک صُحبتوں
کی طرف چلیں،کسی کی مدد کیلئے چلیں،کاش! مکّہ مکرّمہ زادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْما ومدینہ منوَّرہ زادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً کی طرف چلیں ،سوئے منیٰ و عرفات و مُزْدلِفہ چلیں،طواف وسَعی میں چلیں۔ہر گز ہرگز سینما گھر کی طرف نہ چلیں،ڈِرامہ گاہ کی طرف نہ چلیں،بُرے دوستوں کی مجلِسوں کی طرف نہ چلیں،شَطْرَنج ،لُڈّو ، تاش ،کِرکِٹ ، فُٹ بال ، وِڈیوگیمز ،ٹیبل فُٹبال وغیرہ وغیرہ کھیل کھیلنے یا دیکھنے کی طرف نہ چلیں، کاش!پاؤں کبھی تَو ایسے بھی چلیں کہ بس مدینہ ہی مدینہ لَب پر ہواور سَفَر بھی مدینے کا ہو۔ ؎
رہیں بھلائی کی راھوں میں گامزن ہر دم کریں نہ رُخ مِرے پاؤں گناہ کا یا ربّ!
مدینے جائیں پھر آئیں دوبارہ پھر جائیں اِسی میں عمر گزر جائے یا خدا یا ربّ!
بقیعِ پاک میں مدفَن نصیب ہو جائے برائے غوث و رضا مرشدی ضیا یا ربّ!
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واقِعی حَقِیقی مَعنوں میں روزے کی بَرَکتیں تَو اُسی وَقت نصیب ہوں گی،جب ہم تمام اَعضاء کا بھی روزہ رکھیں گے۔ورنہ بھوک اور پیاس کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو گا جیسا کہ حضرت سیّدُِنا ابوہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے کہ سرکارِ عالی وَقار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے ، ”بَہُت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ اُن کو ان کے روزے سے بُھوک اور پیاس کے سِوا کچھ
یعنی بَعض لوگ روزہ تَو رکھتے ہیں مگر اپنے اَعضاء کو چُونکہ بُرائیوں سے نہیں بچاتے اِس لئے اُن کو روزہ کی نُورانیت اوراُس کی اَصل رُوح سے مَحرُومی ہی رہتی ہے۔نِیز جو لوگ خواہ مخواہ رات جاگ کر گَپْ شَپ لگاتے ہیں۔انہیں وقت، صحّت اور آخِرت کے نقصان کے سوا کچھ ہا تھ نہیں آتا۔