معراج نظم نذر گدا بحضور سلطان الانبیا عَلَیْہ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالثَّنَا
دَر تہنیت شادی اَسرا
وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نِرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے
بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک
مَلک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنادِل کا بولتے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رَچی تھی شادی مچی تھی دُھومیں
اُدھر سے اَنوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے
یہ چُھوٹ پڑتی تھی اُن کے رُخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نَصْب آئنے تھے
نئی دُلھن کی پھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نِکھرا
حجر کے صدقے کمر کے اِک تِل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے
نظر میں دُولھا کے پیارے جلوے حیا سے محراب سر جھکائے
سیاہ پردے کے مُنھ پر آنچل تجلّی ذات بحت سے تھے
خوشی کے بادل اُمنڈ کے آئے دِلوں کے طاؤس رنگ لائے
وہ نغمۂ نعت کا سَماں تھا حرم کو خود وَجد آرہے تھے
یہ جُھوما میزابِ زَر کا جُھومر کہ آرہا کان پَر ڈَھلک کر
پُھوہار برسی تو موتی جھڑ کر حطیم کی گود میں بھرے تھے
دُلھن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے
غلافِ مشکیں جو اُڑ رہا تھا غزال نافے بسا رہے تھے
پہاڑیوں کا وہ حُسْنِ تزئیں وہ اُونچی چوٹی وہ نازو تمکیں !
صبا سے سبزہ میں لہریں آتیں دُوپٹے دَھانی چُنے ہوئے تھے
نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آبِ رَواں کا پہنا
کہ موجیں چھڑیاں تھیں دَھار لچکا حبابِ تاباں کے تھل ٹکے تھے
پرانا پر داغ مَلگَجا تھا اُٹھا دیا فرش چاندنی کا
ہجومِ تارِ نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش بادْلے تھے
غبار بن کر نثار جائیں کہاں اب اُس رَہ گزر کو پائیں
ہمارے دل حوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پر جہاں بچھے تھے
خدا ہی دے صبر جانِ پر غم دِکھاؤں کیوں کر تجھے وہ عالم
جَب اُن کو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دُولھا بنا رہے تھے
اُتار کر اُن کے رُخ کا صَدقہ یہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے
وُہی تو اب تک چھلک رہا ہے وُہی تو جوبن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لیے تھے
بچا جو تلووں کا اُن کے دَھووَن بنا وہ جنت کا رنگ و رَوغن
جنھوں نے دُولھا کی پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نور کے تھے
خبر یہ تحویل مہر کی تھی کہ رُت سُہَانی گھڑی پھرے گی
وہاں کی پوشاک زیب تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے
تجلّیِ حق کا سہرا سر پر صلوٰۃ و تسلیم کی نچھاوَر
دو رویہ قدسی پَرے جما کر کھڑے سلامی کے واسطے تھے
جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن
مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامُرادی کے دِن لکھے تھے
ابھی نہ آئے تھے پشت زیں تک کہ سَر ہوئی مغفرت کی شِلِّک
صَدا شفاعت نے دی مُبارک! گناہ مستانہ جھومتے تھے
عجب نہ تھا رخش کا چمکنا غزال دَم خوردَہ سا بھڑکنا
شعاعیں بکے اُڑا رہی تھیں تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے
ہجومِ اُمید ہے گھٹاؤ مُرادیں دے کر انھیں ہٹاؤ
اَدَب کی باگیں لیے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غُلْغُلے تھے
اُٹھی جو گردِ رہِ مُنوَّر وہ نور برسا کہ راستے بھر
گھرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل اُمَنڈ کے جنگل اُبل رہے تھے
سِتَم کیا کیسی مَت کٹی تھی قمر! وہ خاک اُن کے رَہ گزر کی
اُٹھا نہ لایا کہ ملتے ملتے یہ داغ سب دیکھتا مٹے تھے
براق کے نقشِ سم کے صدقے وہ گل کھلائے کہ سارے رَستے
مہکتے گلبن لہکتے گلشن ہَرے بھرے لہلہا رہے تھے
نمازِ اَقصٰی میں تھا یہی سِرّ عیاں ہوں مَعنیِ اَوَّل آخر
کہ دَست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
یہ اُن کی آمد کا دَبدبہ تھا نکھار ہر شَے کا ہو رہا تھا
نجوم و افلاک جام و مِینا اُجالتے تھے کھنگالتے تھے
نقاب اُلٹے وہ مہر اَنور جلالِ رُخسار گرمیوں پر
فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی تپکْتے اَنجُم کے آبلے تھے
یہ جوشِشِ نور کا اَثر تھاکہ آبِ گوہر کمر کمر تھا
صفائے رہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے
بڑھا یہ لہرا کے بحر وَحدت کہ دُھل گیا نامِ ریگ کثرت
فلک کے ٹِیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بُلبُلے تھے
وہ ظِلِ رَحمت وہ رُخ کے جلوے کہ تارے چھپتے نہ کھلنے پاتے
سنہری زَرْبَفْت اُودِی اَطلس یہ تھان سب دُھوپ چھاؤں کے تھے
چلاوہ سروِ چَمَاں خراماں نہ رُک سکا سدرہ سے بھی دَاماں
پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب اِین وآں سے گزر چکے تھے
جھلک سی اِک قدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پھرنہ پائی
سواری دُولھا کی دُور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے
تھکے تھے رُ وْح ُالا َ مِیں کے بازُو چھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رِکاب چھوٹی اُمید ٹوٹی نگاہِ حسرت کے وَلولے تھے
رَوِش کی گرمی کو جس نے سوچا دِماغ سے اِک بھبو کا پھُوٹا
خرد کے جنگل میں پھول چمکا دَہر دَہر پیڑ جل رہے تھے
جِلو میں جو مرغِ عقل اُڑے تھے عجب برے حالوں گرتے پڑتے
وہ سدرہ ہی پر رَہے تھے تھک کر چڑھا تھا دَم تیور آگئے تھے
قوی تھے مرغانِ وَہم کے پَر اُڑے تو اُڑنے کو اَور دَم بھر
اُٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خونِ اَندیشہ تھوکتے تھے
سنا یہ اتنے میں عرشِ حق نے کہ لے مبارک ہوں تاج والے
وہی قدم خیر سے پھر آئے جو پہلے تاجِ شرف تِرے تھے
یہ سن کے بے خود پکار اُٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا
پھر ان کے تلووں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دِن پھرے تھے
جھکا تھا مجرے کو عرشِ اَعلیٰ گرے تھے سجدے میں بزمِ بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مَل رہا تھا وہ گرد قربان ہورہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قندیلیں جھلملائیں
حضورِ خورشید کیا چمکتے چراغ منھ اپنا دیکھتے تھے
یہی سَمَاں تھا کہ پَیکِ رحمت خبر یہ لایا کہ چلیے حضرت
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے
بڑھ اے محمد قریں ہو احمد قریب آ سرورِ مُمَجَّد
نثار جاؤں یہ کیا ندا تھی یہ کیا سَمَاں تھا یہ کیا مزے تھے
تَبَارَکَ اللّٰہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوشِ لَنْ تَرَانِی کہیں تقاضے وِصال کے تھے
خرد سے کہدو کہ سر جھکا لے گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جِہَت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے
سُراغ اَین و متیٰ کہاں تھا نشانِ کیف و اِلیٰ کہاں تھا
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے
اُدھر سے پیہم تقاضے آنا اِدھر تھا مشکل قَدَم بڑھانا
جلال وہیبت کا سامنا تھا جمال و رحمت اُبھارتے تھے
بڑھے تو لیکن جھجھکتے ڈرتے حیا سے جُھکتے ادب سے رکتے
جو قرب انھیں کی رَوِش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے
پر ان کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقۃً فِعل تھا اُدھر کا
تَنَزُّلوں میں ترقی اَفزا دَنیٰ تَدَلّٰے کے سلسلے تھے
ہوا نہ آخر کہ ایک بجْرا تَمَوُّجِ بحر ہُو میں اُبھرا
دَنیٰ کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگراُٹھا دِیے تھے
کسے ملے گھاٹ کا کنارا کدھر سے گزرا کہاں اُتارا
بھرا جو مثل نظر طرارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چھپے تھے
اُٹھے جو قصرِدنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جاہی نہیں دُوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے
وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غنچَہ و گل کا فرق اُٹھایا
گرہ میں کلیوں کی باغ پھولے گلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے
محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصِل خطوط واصِل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چَکر میں دائرے تھے
حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہرایک پر دے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بھنور کو یہ ضعف تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے
کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو تم اوّل آخر کے پھیرمیں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
ادھر سے تھیں نذرشہ نمازیں ادھر سے انعامِ خسروی میں
سلام و رحمت کے ہار گندھ کر گلوئے پر نور میں پڑے تھے
زبان کو اِنتظارِ گُفْتَن تو گوش کو حسرتِ شنیدن
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے
وہ برج بطحا کا مَاہ پارہ بہشت کی سَیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارہ کہ اس قمر کے قدم گئے تھے
سرور مَقْدَم کی روشنی تھی کہ تابشوں سے مہِ عرب کی
جناں کے گلشن تھے جھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے
طرب کی نازِش کہ ہاں لچکیے اَدَب وہ بندش کہ ہل نہ سکیے
یہ جوشِ ضِدَّین تھا کہ پودے کشاکشِ اَرَّہ کے تلے تھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروروں منزل میں جلوہ کرکے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلیے تھے
نبی رحمت شفیعِ اُمّت! رضاؔ پہ لِلّٰہ ہو عنایت
اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رَحمت کے واں بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وَظیفہ قبولِ سَرکار ہے تَمَنَّا
نہ شاعری کی ہوس نہ پَروا رَوِی تھی کیا کیسے قافیے تھے
٭…٭…٭…٭…٭…٭