صحابیات طیبات رَضِیَ اللّٰہ تعالٰی عَنْہُنَّ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحْبُوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے جس قَدْر مَحبَّت کرتی تھیں، اس کی مِثالیں شُمار سے باہَر ہیں۔ یہاں صِرف چند مِثالیں ہی ذِکْر کی جارہی ہیں۔ یاد رکھئے! سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پہنچنے والی کسی بھی قسم کی جسمانی تکلیف پر صَحابیات طیبات رضی اللّٰہ تعالٰی عَنْہُنَّ اس طرح بے قرار ہو جاتیں گویا یہ تکلیف انہیں پہنچی ہو۔چنانچہ، مَرْوِی ہے کہ جب اُمہاتُ الْمومنین مرضُ الموت کے دوران بارگاہِ نُبوّت میں حاضِر ہوئیں تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تکلیف ان سے بَرْدَاشْت نہ ہوئی۔ اس مَوْقَع پر اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہَا نے مَحْبُوبِ خُدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے جو کچھ عَرْض کی وہ آپ کے مَحبَّتِ مصطفےٰ کا پیکر ہونے کا منہ بولا ثُبُوت ہے۔ چنانچہ آپ نے عَرْض کی: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قَسم: یا نَبِیَّ اللہ! کاش!مَیں آپ کی جگہ ہوتی۔ تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے دو۲جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اِرشَاد فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قَسَم! یہ سچ بولنے والی ہیں۔ 1
……… الاصابة ،كتاب النساء، حرف الصاد، صفیہ بنت حیی، ۸/۲۳۳ملخصاًملتقطاً