جب نماز کا وقت آیا تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں۔ جس وقت اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ کی ایمان افروز صدا بلند ہوئی تو حرم کے حصار اور کعبہ کے درودیوار پر ایمانی زندگی کے آثار نمودار ہوگئے مگر مکہ کے وہ نومسلم جو ابھی کچھ ٹھنڈے پڑ گئے تھے اذان کی آواز سن کر ان کے دلوں میں غیرت کی آگ پھر بھڑک اٹھی۔ چنانچہ روایت ہے کہ حضرت عتاب بن اُسید نے کہا کہ خدا نے میرے باپ کی لاج رکھ لی کہ اس آواز کو سننے سے پہلے ہی اس کو دنیا سے اٹھا لیا اور ایک دوسرے سردار قریش کے منہ سے نکلا کہ ”اب جینا بے کار ہے۔” (3) (اصابہ تذکرہ عتاب بن اسید ج۲ص ۴۵۱ و زرقانی ج۲ ص ۳۴۶)
مگر اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے حضرت عتاب
بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں نور ایمان کا سورج چمک اٹھا اور وہ صادق الایمان مسلمان بن گئے۔ چنانچہ مکہ سے روانہ ہوتے وقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہی کو مکہ کا حاکم بنا دیا۔(1) (سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۴۱۳وص۴۴۰)