حاضری درگاہ ابدی پناہ وَصل دوم رنگ عشقی
۱۳۲۴ھ
بھینی سُہانی صبح میں ٹھنڈک جِگر کی ہے
بھینی سُہانی صبح میں ٹھنڈک جِگر کی ہے
کلیاں کِھلیں دِلوں کی ہوا یہ کِدھر کی ہے
کھبتی ہوئی نظر میں ادا کِس سحر کی ہے
چبھتی ہوئی جِگر میں صَدا کس گجر کی ہے
ڈالیں ہَری ہَری ہیں تو بالیں بھری بھری
کشتِ اَمَل(1)پَری ہے یہ بارش کدھر کی ہے
ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے
سونپا خدا کو یہ عظمت کس سفر کی ہے(2)
ہم گردِ کعبہ پِھرتے تھے کل تک اور آج وہ
ہم پر نثار(1) ہے یہ اِرادت کِدھر کی ہے
کالک جبیں کی سجدئہ در سے چھڑاؤ گے
مجھ کو بھی لے چلو یہ تمنّا حجر کی ہے
ڈُوبا ہوا ہے شوق میں زمزم اور آنکھ سے
جھالے برس رہے ہیں یہ حسرت کدھر کی ہے
برسا کہ جانے والوں پہ گوہر کروں نثار
ابرِ کرم سے عرض یہ میزاب زر(2)کی ہے
آغوشِ شوق کھولے ہے جن کے لئے حطیم(3)
وہ پھر کے دیکھتے نہیں یہ دُھن کدھر کی ہے
ہاں ہاں رہِ مَدینہ ہے غافِل ذرا تو جاگ
اَو پاؤں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے
وَاروں قدم قدم پہ کہ ہر دَم ہے جانِ نو
یہ راہِ جاں فزا مِرے مولیٰ کے دَر کی ہے
گھڑیاں گنی ہیں برسوں کہ یہ سُب گھڑی(1)پِھری
مر مر کے پھر یہ سِل مِرے سینے سے سر کی ہے
اللّٰہُ اَ کْبَر! اپنے قدم اور یہ خاکِ پاک
حسرت ملائکہ کو جہاں وَضعِ سر کی ہے
معراج کا سماں ہے کہاں پہنچے زائرو!
کُرسی سے اُونچی کُرسی اسی پاک گھر کی ہے
عشاقِ رَوضہ(1) سجدہ میں سُوئے حرم جُھکے
اللّٰہ جانتا ہے کہ نیّت کِدھر کی ہے
یہ گھر(1) یہ در ہے اس کا جو گھر در سے پاک ہے
مژدہ ہو بے گھرو کہ صلا اچّھے گھر کی ہے
محبوبِ ربِّ عرش ہے اس سَبز قبّہ میں
پہلو میں جلوہ گاہ عتیق(2) و عمر کی ہے
چھائے(3) ملائکہ ہیں لگاتار ہے درود!
بدلے ہیں پہرے بدلی میں بارش دُرر کی ہے
سعدین(1) کا قِران ہے پہلوئے ماہ میں
جُھرمٹ کیے ہیں تارے تجلّی قمر کی ہے
ستّر ہزار صبح ہیں سَتّر ہزار شام
یُوں بندَگیِ زُلف و رُخ آٹھوں پہر کی ہے
جو ایک بار آئے دوبارہ نہ آئیں گے
رُخصَت ہی بارگاہ سے بس اس قدر کی ہے
تڑپا کریں بدل کے پھر آنا کہاں نصیب
بے حکم کب مجال پرندے کو پر کی ہے
اے وائے بے کسیِ تمنّا کہ اب اُمید
دن(2) کو نہ شام کی ہے نہ شب کو سحر کی ہے
یہ بدلیاں نہ ہوں تو کروروں کی آس جائے
اور بارگاہ مرحمت عام تر کی ہے
معصوموں کو ہے عمر میں صرف ایکبار بار
عاصی پڑے رہیں تو صَلا عمر بھر کی ہے
زِندہ رہیں تو حاضریِ بارگہ نصیب
مر جائیں تو حیاتِ اَبد عیش گھر کی ہے
مفلِس اور ایسے در سے پِھرے بے غنی ہوئے
چاندی ہر اک طرح تو یہاں گدیہ گر کی ہے
جاناں پہ تکیہ خاک نہالی ہے دل نہال
ہاں بے نواؤ خوب یہ صُورت گزر کی ہے
ہیں چتر و تخت سایۂ دیوار و خاکِ در
شاہوں کو کب نصیب یہ دَھج کَرّو فر کی ہے
اس پاک کو میں خاک بسر سربخاک ہیں
سمجھے ہیں کچھ یہی جو حقیقت بسر(1)کی ہے
کیوں تاجدارو! خواب میں دیکھی کبھی یہ شَے
جو آج جھولیوں میں گدایانِ در کی ہے
جارو کشوں (1) میں چہرے لکھے ہیں ملُوُک کے
وہ بھی کہاں نصیب فقط نام بھر کی ہے
طیبہ(2)میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہرِ شفاعت نگر کی ہے
عاصِی بھی ہیں چہیتے یہ طیبہ ہے زاہدو!
مکّہ نہیں کہ جانچ جہاں خیر و شر کی ہے
شانِ جمال طیبۂ جاناں ہے نفع محض!
وُسعت جلالِ مکّہ میں سود و ضرر کی ہے
کعبہ ہے بے شک اَنجمن آرا دُلھن مگر
ساری بَہار دُولھنوں میں دُولھا کے گھر کی ہے
کعبہ دُلھن ہے تربت اَطہر نئی دُلھن
یہ رشکِ آفتاب وہ غیرت قمر کی ہے
دونوں بنیں سجیلی اَنیلی بنی مگر
جو پی کے پاس ہے وہ سہاگن کنور(1)کی ہے
سرسبز (2)وَصل یہ ہے سیہ پوشِ ہجر وہ
چمکی دوپٹوں سے ہے جو حالت جگر کی ہے
مَا و شُما(3)تو کیا کہ خلیلِ جلیل کو
کل دیکھنا کہ اُن سے تمنّا نظر کی ہے
اپنا شرف دُعا سے ہے باقی رہا قبول
یہ جانیں ان کے ہاتھ میں کنجی اثر کی ہے
جو چاہے ان سے مانگ کہ دونوں جہاں کی خیر
زر ناخریدہ ایک کنیز اُن کے گھر کی ہے
رُومی غلام دن حبشی باندیاں شبیں
گِنتی کنیز زادوں میں شام و سحر کی ہے
اتنا عجب(1)بلندیِ جنت پہ کس لئے
دیکھا نہیں کہ بھیک یہ کس اونچے گھر کی ہے
عرشِ بریں پہ کیوں نہ ہو فردوس کا دماغ
اُتری ہوئی شبیہہ تِرے بام و در کی ہے
وہ خلد جس میں اُترے گی اَبرار(1)کی برات
اَدنیٰ نچھاور اس مِرے دُولھا کے سر کی ہے
عنبر(2)زمیں عبیر ہوا مشک تر غبار!
ادنیٰ سی یہ شناخت تِری رہ گزر کی ہے
سرکار ہم گنواروں میں طرزِ اَدَب کہاں
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے
مانگیں گے مانگے جائیں گے مُنھ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ ’’لا‘‘ ہے(3) نہ حاجت ’’اگر‘‘ کی ہے
اُف بے حیائیاں کہ یہ مُنھ اور تِرے حضور
ہاں تُو کریم ہے تِری خو دَرگزر کی ہے
تجھ سے چھپاؤں مُنھ تو کروں کس کے سامنے
کیا اور بھی کسی سے توقع نظر کی ہے
جاؤں کہاں پکاروں کسے کس کا منہ تکوں
کیا پرسِش اور جَا بھی سگِ بے ہنر کی ہے
بابِ عطا تو یہ ہے جو بہکا اِدھر اُدھر
کیسی خرابی اس نگھرے دَر بَدر کی ہے
آباد ایک دَر ہے تِرا اور ترے(1) سِوا
جو بارگاہ دیکھیے غیرت کھنڈر کی ہے
لب وا ہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک دَر کی ہے
گھیرا اندھیریوں نے دُہائی ہے چاند کی
تنہا ہوں کالی رات ہے منزل خطر کی ہے
قسمت میں لاکھ پیچ ہوں سو بَل ہزار کج
یہ ساری گتھی اِک تِری سیدھی نظر کی ہے
ایسی بندھی نصیب کھلے مشکلیں کھلیں
دونوں جہاں میں دُھوم تمہاری کمر کی ہے
جنت نہ دیں ، نہ دیں ، تِری رویت ہو خیر سے
اس گل کے آگے کس کو ہوس برگ و بر کی ہے
شربت(1) نہ دیں ، نہ دیں ، تو کرے بات لطف سے
یہ شہد ہو تو پھر کسے پَروا شکر کی ہے
میں خانہ زاد کہنہ ہوں صورت لکھی ہوئی
بندوں کنیزوں میں مرے مادَر پدر کی ہے
منگتا کا ہاتھ اُٹھتے ہی داتا کی دَین تھی
دُوری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے
سنکی وہ دیکھ بادِ شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضاؔ (1) ترے دامانِ تر کی ہے
٭…٭…٭…٭…٭…٭
روشنی بَخش چہرہ
حضرتِ سیدنا اَسِیدبن اَبی اناس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : مدینے کے تاجدار ،شَہَنشاہِ عالی وقار صلَّی اللّٰہ تعالٰی عَلَــیْہِ وَسَلَّم نے ایک بار میرے چہرے اورسینے پر اپنا دست پُراَنوار پھیر دیا، اس کی بَرَکت یہ ظاہر ہوئی کہ میں جب بھی کسی اندھیرے گھر میں داخِل ہوتا وہ گھر روشن ہوجاتا۔ (الخَصائِصُ الکُبْری ،ج۲،ص۴۲ و تاریخ دمشق، ج۲۰، ص
________________________________
1 – ۔۔۔ : ’’امَل‘‘ بفتحتین امید و آرزو، ’’پری‘‘ یعنی خوب صورت و خوشنما۔ ۱۲
2 – ۔۔۔ : مَدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی کے نسخہ میں یہ مصرعہ یوں لکھا ہے:
’’ سونپا خدا کو تجھ کو یہ عظمت سفر کی ہے ‘‘جبکہ رضا اکیڈمی بمبئی،مکتبہ حامدیہ لاہوراور مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے تصحیح شدہ نسخے میں یوں ہی لکھا ہے :
’’ سونپا خدا کو یہ عظمت کس سفر کی ہے ‘‘۔ علمیہ
________________________________
1 – ۔۔۔ : بارہا ثابت ہوا کہ کعبہ معظمہ نے مقبولانِ بارگاہِ عزت گدایانِ سرکار رسالت کے گرد طواف کیا ہے، حدیث میں ہے مسلمانوں کی حرمَتاللّٰہکے نزدیک کعبہ معظمہ کی حرمت سے زیادہ ہے۔
2 – ۔۔۔ : کعبۂ معظمہ کی دیوارِ شمالی پر حطیم کی طرف جو خالص سونے کا پرنالہ لگا ہے اُسے میزابِ زرکہتے ہیں ۔
3 – ۔۔۔ : زمانۂ جاہلیت میں قریش نے بنائے کعبہ معظمہ کی تجدید کی تھی کمی خرچ کے باعث چند گز زمین شمال کی طرف چھوڑ کر دیواریں اٹھا دیں وہ زمین اصل میں کعبہ معظمہ ہی کی ہے اس کے گرد قوسی شکل پر کمر تک بلند ایک دیوار کھینچ دی گئی ہے اور دونوں طرف سے جانے کی راہ رکھی ہے اس ٹکڑے کو حطیم کہتے ہیں یہ بالکل آغوش کی شکل پر ہے۔
________________________________
1 – ۔۔۔ : ’’ سُب ‘‘ بضمِ سین و سکونِ بائے موحدہ ، زبانِ ہندی میں بمعنی نیک و سعید، ’’ سُب گھڑی ‘‘ساعتِ سعید۔
________________________________
1 – ۔۔۔ : اس شعر کے دو معنی ہیں ایک ظاہری یعنی عاشقانِ روضہ کا اپنا جی تو چاہتا تھا کہ روضۂ اطہر کی طرف سجدہ کا حکم ہو مگر شرعِ مطہر نے اس سے منع فرمایا اور کعبۂ معظمہ قبلہ قرار پایا تو بتعمیلِ حکم کعبہ ہی کی طرف سجدہ میں جھکے مگر دل کی خواہش سے خدا کو خبر ہے تو اس وقت گویا ان کی وہ حالت ہے جو ۱۷ مہینے بیت المقدس کی طرف حکم سجود ہونے میں مسلمانوں کی حالت تھی کہ بہ تعمیلِ حکم بیت المقدس کی طرف سجدہ کرتے اور دل میں خواہش یہی تھی کہ مکہ معظمہ قبلہ کر دیا جائے،قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی:’’ فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا‘‘ اس تقدیر پر نیت بمعنی رغبت و خواہش ہے۔ دوسرے معنی دقیق کہ عاشقان ِروضہ کا سجدہ اگرچہ صورتاً سوئے حرم ہے مگر نیت کا حال خدا جانتا ہے کہ وہ کسی وقت اس کے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے جدا نہ ہوئے، وہ جانتے ہیں کہ ع
کعبہ بھی ہے انھیں کی تجلی کا ایک ظل
کعبہ بھی انھیں کے نور سے بنا انھیں کے جلوہ نے کعبہ کو کعبہ بنا دیا، تو حقیقتِ کعبہ وہ جلوئہ محمد یہ ہے جو اس میں تجلّی فرما ہے، وہی روحِ قبلہ اور اسی کی طرف حقیقۃً سجدہ ہے۔ اتنا یاد رہے کہ حقیقتِ محمدیہ ہماری شریعت میں ’’مسجود الیہا ‘‘ ہے اور … اگلی شریعتوں میں سجدئہ تعظیمی کی ’’مسجود لہا ‘‘تھی، ملائکہ و یعقوب و اَبنائے یعقوب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے اسی کو سجدہ کیا، آدم و یوسف عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام قبلہ تھے۔
________________________________
1 – ۔۔۔ : یعنی روضہ پر نور تجلی الٰہی کا گھر عطائے الٰہی کا دروازہ ہے کہ اللّٰہ عزوجل کے ظلِ اوّل و اتم و اکمل و خلیفۂ مطلق وقاسم ہر نعمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماِس میں تشریف فرماہیں ۔
2 – ۔۔۔ : ’’عتیق‘‘ بمعنی آزاد و کریم و حسین نامِ سیّد نا صدّیقِ اکبررَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہ ۔
3 – ۔۔۔ : مزار پر انوار پر ستّرہزار فرشتے ہر وقت حاضر رہ کر صلوٰۃ وسلام عرض کرتے رہتے ہیں ، ستّر ہزار صبح آتے ہیں عصر تک رہتے ہیں ، عصر کے وقت یہ بدل دیے جاتے ہیں ، ستّر ہزار دوسرے آتے ہیں وہ صبح تک رہتے ہیں یوں ہی قیامت تک بدلی ہوگی اور جو ایک بار آئے دوبارہ نہ آئیں گے کہ منظور ان سب ملائکہ کو یہاں کی حاضری سے مشرف فرمانا ہے اگر یہ تبدیل نہ ہوتے تو کروڑوں محروم رہ جاتے۔ بدلی یہاں بمعنی تبدیل ہے اور اس سے بطور اِیہام معنی ابرو سحاب کی طرف اشارہ کیا اور اس بدلی میں دُرر یعنی موتیوں کی بارش بتائی جس سے مرادلگاتار درود شریف ہے۔
________________________________
1 – ۔۔۔ : ’’سعدین ‘‘دو سیارہ سعید زہرہ و مشتری اور’’ قِران‘‘ بکسرِ قاف، ان کا ایک درجہ دودقیقۂ فلک میں جمع ہونا، یہاں سعدین سے مُراد صدّیق و فاروق ہیںرَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہما اور ماہ و قمر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماور تارے وہی ستّر ہزار ملائکہ کہ مزار انور پر چھائے ہوئے رہتے ہیں ۔ ۱۲
2 – ۔۔۔ : جو شام کو حاضر ہونے والے تھے اُن کو دن بھر شام کی امید لگی تھی کہ شام ہو اور ہم حاضر ہوں ، جو صبح کو حاضر ہونے والے تھے انھیں شب بھر صبح کی آس بندھی ہوئی تھی کہ صبح ہواور ہم حاضر ہوں جو ایک بار حاضر ہوچکے ہیں انھیں نہ دن کو ویسی شام کی امید ہے نہ شب کو ویسی صبح کی کہ دوبارہ آنا نہ ہوگا۔
________________________________
1 – ۔۔۔ : ’’بسر‘‘ بمعنی گزر ، خوب بسر ہوتی ہے یعنی خوب گزرتی ہے۔۱۲
________________________________
1 – ۔۔۔ : ’’جارُ وکش ‘‘مخفف جاروب کش، دونوں سرکاروں میں سلطانِ روم اعزاللّٰہ نصرہ وغیرہ سلاطینِ اسلام کے چہرے جاروب کشوں میں لکھے ہیں ۔ سرکاروں سے اس کی تنخواہ پاتے ہیں ان کا نائب رہتا اور یہ خدمت بجا لاتا ہے۔
2 – ۔۔۔ : حدیث میں فرمایا:’’مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَمُوْتَ بِالْمَدِینَۃِ فَلْیَمُتْ بِھَا فَإِنِّیْ اَشْفَعُ لِمَنْ یَمُوْتُ بِھَا ‘‘۔ تم میں جس سے ہو سکے کہ مدینے میں مرے تو مدینہ ہی میں مرنا کہ جو اس میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا ۔۱۲
________________________________
1 – ۔۔۔ : ’’کنور ‘‘بزبانِ ہندی معنی امیر، سردار، خوب صورت حسین۔
2 – ۔۔۔ : روضۂ اطہر پر غلاف سبز ہے اور کعبۂ معظمہ پر سیاہ۔۱۲
3 – ۔۔۔ : صحیح حدیث میں فرمایا کہ روزِ قیامت تمام خلائق میری طرف نیاز مند ہوگی یہاں تک کہ خلیل اللّٰہابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالتَّسْلِیم۔۱۲
________________________________
1 – ۔۔۔ : جنت ساتوں آسمانوں سے اوپر ہے جس کی چھت عرش معلّٰی ہے بعض گدایانِ بارگاہ اگر تعجب کریں کہ ہم جیسے پست و بے مقداراور اتنی بلند عطا تو جواب بتایا ہے کہ یہ تمہارے استحقاق ولیاقت کی بناء پر نہیں بلکہ دینے والے کی رحمت و عطا ہے دیکھتے نہیں کہ بھیک کیسے اونچے گھر کی ہے تو اس کی اتنی بلندی کیا عجب ہے ۔۱۲
________________________________
1 – ۔۔۔ : اَبرار کا مرتبہ ُمقربین سے بہت کم ہے یہاں تک کہ ’’ حسنات الا برارسیأت المقربین‘‘پھر مقربین میں بھی درجات بے شمار ہیں اور انھیں بھی اعلیٰ اور اعلیٰ سے اعلیٰ جو درجے ملیں گے وہ بھی سب حضور ہی کا تصدّق ہے، اسی لئے اسے ادنیٰ نچھاور کہا ورنہ جنت میں کچھ ادنیٰ نہیں ۔ ۱۲
2 – ۔۔۔ : یعنی جس راہ سے حضور گزر فرمائیں وہاں کی زمین عنبر ہو جاتی ہے ہوا عبیر بن جاتی ہے اور غبار مشک تر ہو جاتا ہے۔
3 – ۔۔۔ : سائل کو نہ ملنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں : ایک یہ کہ جس سے مانگا وہ سرے سے انکار کر دے یہ تو’’لا ‘‘ہوا یعنی نہیں ، دوسرے یہ کہ شرط پر ٹالے کہ اگر ہمارے پاس ہوا تو دیں گے یا اگر تم نے فلاں کام کیا تو دیں گے اِن کی سرکار میں یہ دونوں باتیں نہیں تو ضرور ہمیں امید ہے کہ جو ہم مانگیں گے پائیں گے۔
________________________________
1 – ۔۔۔ : اولیاء کرام کی بارگاہیں بھی حضور ہی کی بارگاہ ہیں ، حضور ہی کی کفش برداری سے وہ اولیاء ہوئے اور واسطہ و وسیلہ بنے حتیٰ کہ انبیاء بھی حضور ہی کے طفیلی اور عطائے فیض میں حضور ہی کے نائب ہیں ۔ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام۔
________________________________
1 – ۔۔۔ : : بظاہر ایک مکر انسانی کی صنعت ہے جنت سے گویا بے رغبتی ظاہر کی مگر اس شرط پر کہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رویت خیر سے ہو اور یقینا معلوم ہے کہ جسے حضور کی رویت خیر سے ہوگی جنت اس کے قدموں سے لگی ہوتی ہے پھر محال ہے کہ اسے جنت نہ دیں ، علاوہ بریں عشاق ہرگز اپنے محبوب کے سوا گل و بلبل، شہدو شِیر کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ۱۲۲۱)
________________________________
1 – ۔۔۔ : کسی کے دامن کو خشک کرنے کے لئے ہوا دیتے ہیں ۔ اور تردامنی استعارہ ہے گناہ سے یعنی تیرے دامن تر کو ہوا دینے کے لئے وہ دیکھ شفاعت کی نسیم چلی۔ والحمد للّٰہ ۔