حضرت علامہ مفتی فیض الرحمٰن
دار العلوم اہل سنت مدار ٹیکری ، اشرف نگر جبلپور ، ایم۔پی
شیخ الاسلام کی صحبت میں بیتے لمحات
دنیا میں ہر زمانہ میں ایسے علماء عاملین و صلحاء کاملین رہے ہیں جن کی زندگی کا ہر گوشہ تابناک رہا ہے۔ظاہر اعمال صالحہ و اخلاق حمیدہ سے مہذب ہے تو باطن اخلاق ردیہ سے پاک و صاف۔ان کا ظاہر و باطن یکساں ہوتا ہے ۔عالم با عمل عامل بالسنہ ہوتے ہیں ۔یہی وہ علماء علماء عاملین ہیں جن کے لیے دریا ئوں میں مچھلیاں اور سوراخوں میں چیونٹیاں ،چرند و پرند دعا کرتے ہیں۔ان ہی کی وجہ سے بارش دی جاتی ہے، مخلوق کو رزق دیا جاتاہے۔ان کی شہرت عامہ ان کی محبوبیت کی دلیل ہوتی ہے۔ اللہ تعالی انہیں اپنی نعمتوں اور کرامتوں سے نوازتا ہے ۔ خلق خدا ان کی طرف کشاں کشاں دوڑی چلی آتی ہے۔ ارشا د باری تعالی ان الذین امنوا و عملو ا لصالحا ت سیجعل لھم الرحمٰن ودا کے مصداق ہوتے ہیں ۔
ان ہی نفوس قدسیہ میں سے عصر حاضر کے محقق علی الاطلاق سید المفسرین ماہر کلیات و جزئیات شیخ الاسلام و المسلمین
علامہ مفتی الحاج الشاہ سید محمد مدنی میاں مد ظلہ العالی لصحتہ و سلامتہ کچھوچھوی کی ذات با برکات ہے جن کی ذات کا ہر گوشہ قابل تقلید و نمونئہ
عمل ہے۔
شیخ الاسلام کا لقب مبنی بر حقیقت ہے اس لیے کہ اہل علم کے نزدیک شیخ اس کو کہتے ہیں جو علم و فضیلت و مرتبت میں بڑا ہو ۔ شیخ الاسلام کی علمی مقام کی بلندی کے ملک و بیرون ملک کے تمام اہل علم معترف ہیں ۔ آپ کی تقریر یا تحریر کا ہر جملہ جچا تلا ہوتا ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ جملے کے صرف مالہ ‘ پر نگاہ نہیں رکھتے ہیں بلکہ ما علیہماپر بھی نگاہ رکھتے ہیں ۔میں نے انہیں1958ء سے قبل جانا تھا ۔کیونکہ میں اسی سال مارچ میں مدرسہ اشرفیہ اظہار العلوم ماچھی پور ضلع بھاگلپور میں طلبہ کی خدمت پر مامور ہوا تھا ۔ لیکن میں نے انہیں اس وقت پہچا نا جب کہ وہ بھاگلپور ضلع کے ایک مشہور گائوں راجپور میں طالب علمی کے آخری دور غالباً 1960ء میں مد عو ہوے تھے ۔اپنے شفیق استاد امام معقولات و منقولات علامہ حضر ت مولانا محمد سلیمان اشرفی بھاگلپوری کی معیت میں بیل گاڑی پر سوار ہوکر ان کی محفل میں شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوی ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ موضوع سخن آیت کریمہ ’’ و لقد زینا السماء الدنیا بمصابیح ‘‘ کو بنایا تھا۔پھر علم غیب مصطفٰی ﷺ کو آیہ کریمہ کی روشنی میں اس طرح مدلل بیان فرمایا کہ سامعین کی عقلیں دنگ رہ گئیں ۔میں نے احباب سے کہا کہ یہ بہت جلد اپنے والد گرامی شہرئہ آفاق عارف باللہ سید محمد محدث اعظم ہند کی جگہ لے لینگے اور وہی ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے علم و آگہی کے منصب جلیل پر فائز ہوگئے۔
اس مجلس کی صدارت سیدی وسندی ومرشدی قدوۃ الواصلین علامہ مفتی الحاج الشاہ سید محمد مختار اشرف اشرفی الجیلانی سرکار کلاں نے فرمایا تھا۔ بعد اختتام حضرت سرکار کلاں مسکرائے اور دعائیں دیں۔اس کے بعد بھاگلپور ہی کے ایک مشہور گائوں ماچھی پور تشریف لے گئے۔مدرسہ میں محفل کا انعقاد ہوا ۔شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے موضوع سخن ’’قل انما انا بشر مثلکم‘‘ کو بنایا تھا۔اس سے پہلے میں نے مذکورہ آیت کریمہ پر متعدد بار تقریریں سنی تھیں لیکن بالکل نیا بیان اور انداز بیاں علمی نکات سے بھر پور جو کبھی سننے میں نہیں آیا تھاآج سننے میں آیا ، عام فہم ہونے کے ساتھ اہل علم کے لیے نہایت معلومات خیز باتیں تھیں۔
مطالعہ کا وقت :
ماچھی پور میں میرے شفیق مشفق استاد حضرت مولانا الحاج محمد سلیمان صاحب کے یہاں دعوت تھی بعد ناشتہ جاڑے میں دھوپ سیکنے کے لیے بیٹھے ہوے تھے ۔دوران گفتگو میں نے پوچھا حضور سال بھر جلسوں میں شرکت سے فرصت نہیں ملتی آپ کتب بینی کب کرتے ہیں ؟ آپ نے جوا ب دیا :’’سال میں تین مہینہ جلسوں میں شرکت نہیں کرتا ہوں ۔رجب ،شعبان اور رمضان ان تین مہینوں میں جو دعوتی خطوط آتے ہیں بغیر پڑھے ہوے ایک طرف رکھ دیتا ہوں اور اپنے مطالعہ میں مشغول ہوجا تا ہوں ۔عید کے بعد ان تمام خطوط کو پڑھتا ہوں ۔ بہتوں کا وقت گذر گیا ہوتاہے اور بعض وہ جوعید کے بعد مہینوں میں دعوت ہوتی ہے اس کو جواب دے کر شرکت کرتا ہوں‘‘ ۔
قوالی نہ سننے کی وجہ :
ایک دفعہ حاجی مجتبی مرحوم ماچھی پور کے دروازہ پر بعد ناشتہ دھوپ میں باہر بیٹھے ہوے تھے کہ حاجی صاحب نے اچانک سوال کیا کہ آپ قوالی کا شوق نہیں رکھتے؟آپ نے جواب دیا کہ :’’ میں نے دنیاوی اور اخروی دونوں حیثیت سے ا س پر غور کیا تو میں نے کسی حیثیت سے اس کو اپنے لیے مفید نہیں پایا پھر وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ‘‘ !!
شوگر کے مریض کا لطیفہ :
حاجی کلام صاحب ماچھی پوری کے یہاں دعوت تھی ۔دوسری جگہ کی ایک مجلس کا ذکر کرتے ہوے فرمایا کہ ایک مجلس میں شوگر (چینی) کے مریضوں کا ذکر ہوا تو ایک مولانا صاحب نے فرمایا :کہ حضور! شوگر کے مریض ضرور جنت میں جائینگے آپ نے پوچھا کہ کیسے ؟ تو مولانا صاحب نے جواب دیا کہ قرآن کہہ رہا ہے و اما من خاف مقام ربّہ و نہی النّفس عن الہویٰ فان الجنّۃ ھی الما ویٰ، اور ظاہر بات ہے کہ شوگر کے مریض سے زیادہ خواہشات نفسانی کو روکنے والا کون ہوگا !سب لوگ ہنس پڑے اور داد دینے لگے ۔
احترام علماء :
چونکہ آپ کے علم کے مقام اور اس کی فضیلت ومرتبت سے بخوبی واقف ہیں اس لئے آپ اہل علم کی بہت قدر کرتے ہیں ۔ آپ کی مجلس میں اگر علماء کی جماعت ہوتی ہے تو آپ صرف ان لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں دوسرے لوگ خواہ کروڑ پتی کیوں نہ ہو ں ان کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہوتے ۔علمی مباحثہ و مذاکرہ کو بہت پسند کرتے ہیں۔علمی مذاکرہ کے درمیان اگر کوئی مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہے تو سخت ناراض ہوتے ہیں پھر بعد میں اس کے سوال کا جوا ب دیتے ہیں ۔ سیاسی گفتگو سے دلچسپی نہیں رکھتے اگر کوئی کرتاہے تو صرف سن لیتے ہیں ۔
تواضع و انکساری :
تواضع و انکساری ایسی کہ بقول عزیز محترم مولانا سیف خالد اشرفی ماچھی پوری ’’ احمدآبا د میں حضرت جب جمعہ کی نماز کے لیے باہر نکلتے ہیں تو ہر طرح کی سواریاں کار وغیرہ موجود ہوتی ہیں مگر آپ آ ٹو رکشہ پر سوار ہوکر جمعہ کی نما ز اد ا کرنے تشریف لے جاتے ہیں ‘‘۔
خلوت نشینی:
آپ کی طبیعت تنہائی پسند واقع ہے مطالعہ کا شوق ہمیشہ رہا اور آج تک ہے ۔ابراہیم پور ضلع بھاگلپور کے جلسہ میں مدعو تھے اور بھی مشائخ کرام تھے سبھوں سے شرف ملاقات حاصل ہوی مگر آپ کو خصوصی مجلس میں نہ دیکھ کر جستجو ہوی ،کسی سے پوچھا تو بتایا کہ دوسری طرف فلاں کمرہ میں ہیں۔اس طرف گیا تو اندھیرا تھا ،کمرہ بھی اندھیرا اور باہر کا بر آمدہ بھی اندھیرا ۔لوٹ کر چلا آیا پھر کسی سے پوچھا تو انہوں نے بھی وہی پتہ بتایامیں نے کہا وہاں تو اندھیرا ہے اگر وہ ہوتے تو روشنی ہوتی اس نے کہا کہ اندھیرے میں تنہا بیٹھے ہوے ہیں وہ بھیڑ بھاڑ کو پسند نہیں کرتے ۔میں وہاں گیا کنواڑ کا ایک پٹ کچھ کھلا ہوا تھا میں ہمت کر کے اندر گیا تو دیکھا اندھیرے میں تنہا بیٹھے ہوے ہیں ۔سلام و دست بوسی کے بعد میں نے پوچھا تو فرمایا کہ تنہائی میں سکون محسوس ہوتا ہے۔کچھ دیر رہ کر میں چلا آیا ۔
آپ سے ملنے کا وقت متعین ہے ، عصر و مغرب کے درمیان ۔ اگر علماء میں سے کوئی آگئے تو مغرب کی نماز کے آد ھ پون گھنٹہ بعد ملاقا ت کا موقع دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ دن و رات کے کسی حصہ میں عام ملاقات نہیں ہوتی۔زیا دہ تر اوراد وو ظائف یا تصنیف و تالیف کے کام میں مشغول رہتے ہیں۔
تصانیف :
مختلف علوم و فنون پر 20سے زائد آپکی تصانیف ہیں۔ان میں نمایاں تصنیف آپ کے والد بزرگوارحضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ کا ترجمئہ قرآن ’’معارف القرآن ‘‘ کی تفسیر ’’سید التفاسیر المعروف بہ تفسیر اشرفی‘‘ ہے۔احمد آبا د میں ملاقات کے وقت آپ نے3پارہ کی ایک جلد تفسیر اپنے دست اقدس سے نوازش فرمایا تھا، باقی جلدیں فاضل بغدادعلامہ سید حسن عسکری میاں صدر المدرسین دار العلوم اہل سنت مدار ٹیکری جبل پورنے عنایت فرمایا جو حضرت شیخ الاسلام کے فرزند آغوشی اور ولیعہد سجادہ آستانئہ محدث اعظم ہند ہیں۔پہلے 3پاروں کی تفسیر کے مطالعہ سے میں نے محسوس کیا کہ واقعی یہ سید التفاسیر ہے ۔اس لیے کہ جب کسی ذات کی صفت اس کے نام سے ظاہر ہوتی ہے تو کہا جا تا ہے یہ ’اسم با مسمّیٰ‘ہے ۔تفسیر اشرفی بلا مبا لغہ سید التفاسیر اسم بامسمی ہے ۔ اس لیے کہ کسی قوم کا سید (سردار) وہ ہوتا ہے جو عوام و خواص سب کے لیے نفع بخش ہو۔ تفسیر اشرفی واقعۃً سب کے لیے مفید و نفع بخش ہے۔
اس کی بڑی خصوصیت جو اور تفسیروں سے اس کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مفسر علامہ شیخ الاسلام نے کلمہ یا جملہ کے معنی کو مختلف عام فہم جملوں میں تعبیر کیا ہے جس سے ہر اردو داں کے لیے سمجھنا آسان ہو گیا ، کوئی نہ کوئی جملہ اس کے ذہن کوضرور روشن کر دے گا ۔
یہی مابہِ الامتیاز خصوصیت ہے۔تفسیری جملے کی ترجمے سے مناسبت پر غور کیا تو میں نے محسوس کیا کہ تفسیر اشرفی کا ہر مطالعہ کرنے والا آسودگی محسوس کرے گا۔
قومی و فلاحی خدمت:
حضرت شیخ الاسلام نہ صرف خانقاہی نظام اور اس کے مقاصد سے دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ قوم مسلم کی زبوں حالی ، افلاس و غربت اور اس سے پیدا ہونے والی برائیوں سے بہت زیادہ آپ کا درد مند دل متاثر ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں ’’محدث اعظم مشن ‘‘ قائم کیا جس کا مقصد صرف اور صرف قوم مسلم کی فلاح و بہببودی ہے ۔
حضرت شیخ الاسلام کی ذہن ساز شخصیت دنیا داروں کی بھی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور ان کی متکبرانہ بے وقوفی کی طرف انہیں متنبّہ کرتی ہے۔۔۔ فرماتے ہیں ؎
چاند کی رفعت کو چھو لینا کہاں کی عقل ہے
عقل یہ ہے کہ چاند کو خود اپنا دیوانہ بنا
ایک درخت کے ہم مالک ہیں اگر ہم اس کو کسی ضرورت کے تحت کاٹیں تو یہ کونسا کما ل ہے ! کمال یہ ہے کہ جب ہم اس کو بلائیں تو ہمارے پاس آجائے ، اشارہ کردیں تو چاند اپنا سینہ چاک کردے جیسا کہ ان کی (سائنس داں) تحقیق ہے کہ جب ہم چاند پر پہونچے تو دو حصوں میں بٹا ہوا پایا ۔ڈوبنے کے بعد ہم سورج سے کہیں کہ لوٹ آ تو بلا تاخیر لوٹ آئے۔
آپ کے لیل و نہار کا مطالعہ کرنے والے آپ کے ذکر و فکر و علمی مقام اور اشغال و اعمال کو بخوبی جانتے ہیں جسے آپ اس مجلّہ کے مطالعہ سے معلوم کرینگے۔
میں یہاں پر آپ کی صحبت کے مزیدچند بیتے لمحات کی یاد تازہ کررہا ہوں جس میں آپ نے علم و حکمت کے پھول برسائے ہیں ،ممکن ہے اہل علم کے لیے معلومات افزا ثابت ہو۔
ماچھی پور کی ایک علمی مجلس میں گفتگو کاخلاصہ:۔
ابن تیمیہ کے بارے میں :۔
میں نے حضرت سے پوچھا ابن تیمیہ کیسا آدمی تھا؟
آپ نے فرما یا ابن تیمیہ ایک متبحر ،قابل، متقی و پرہیزگار عالم تھا۔علم و تقویٰ میں مشہور زمانہ ہوگیا تھا،دور دور تک اس کی شہرت ہوگئی تھی ۔ ابتداءً وہ حنبلی مسلک کا مقلد تھا مگر شیطان نے ورغلایا ، اس کو اپنا اشتہار سوجھا یعنی مستقل وہ ایک مجتہد کی حیثیت سے جانا جائے اس نے تقلید کا انکار کردیا ،خود مسائل کا استنباط کرنے لگا اور بہت سارے مسائل کو شرک و بدعت کے خانے میں ڈال دیا او ر اپنے کو ’’سلفی ‘‘مشہور کیا یعنی ہم سلف کے طریقے پر چلنے والے ہیں ہم کسی کی تقلید کو روا نہیں رکھتے ۔اسی لیے ان کے ماننے والے اپنے کو سلفی کہتے ہیں حالانکہ یہ بھی تقلید ہے۔
اس کے بار ے میں ملا علی قاری علیہ الرحمہ وغیرہ نے جو توصیفی کلمات کو نقل کیا ہے ا س کی ابتدائی حالات کو نقل کرنے والے کا قول ہے ۔بعد میں جب اس کی حالت بگڑکر مستحبات و مباحات ، زیارت قبور پر شرک و بدعت کا فتویٰ دینے لگا تو اس وقت کے علماء کرا م اس کی مذمت کرنے لگے ان کا بھی قول مستند کتابوں میں مسطور ہے،یہی وجہ ہے کہ اس کے بارے میں متضاد اقوال کتابوں میں ملتے ہیں ۔دونوں طرح کے قول اپنے اپنے وقت کے لحاظ سے صحیح ہیں۔اس لئے کہ جس نے اپنے دور میںاس کو جیسا پایا لکھ دیا۔
’’بنی ہوی سڑک چھوڑ کر نیا راستہ اختیار کرنا خطرہ سے خالی نہیں‘‘ ۔اس لیے کہ نیا راستہ بنانے میں کہیں گرپڑے گا ،کانٹوں سے الجھے گا۔ابن تیمیہ نے یہی کیا اس لیے گمراہ ہوگیا۔
سنی عوام کا حال :
ُ سلسلئہ کلام جاری رکھتے ہوے فرمایا میں نے ایک اصطلاح بنائی ہے،
ظلمات دو(۲) قسم کے ہیں ۔ایک’’ ظلمات شیطانی ‘‘دوسرا’’ ظلمات نورانی ‘‘ ۔ عقائد باطلہ ظلمات شیطانی ہیں کفر و شرک وغیرہ۔
ظلمات نورانی یہ ہے کہ عقائدتو صحیح ہیں لیکن فرائض و واجبات سے غافل ہوکر فروعات اور غیر ضروری کاموں میں منہمک ہونا ۔اس وقت سنی عوام کا یہی حال ہے ۔عقائد صحیحہ نورانی(نور ) ہیںلیکن ان کے اعمال ظلماتی ہیں ۔منع کرنا بھی مشکل ہے! اگر کہیے تو فوراًکہہ دینگے یہ دیوبندی ہے۔۔۔۔۔۔
چاند کا ثبوت خبر مستفیض سے :
رویت ہلال کے سلسلے میںگفتگو کرتے ہوے سوال کیا گیا ، یہ بتائیے کہ ایسا کون سا ذریعہ ہے جو نہ شہادت ہو نہ خبر لیکن یقین حاصل ہوجائے ؟ مجمع کو خاموش دیکھ کر خود ہی فرمانے لگے : وہ ہے’’ خبر مستفیض‘‘ ۔ یعنی مطلقاً خبر صدق و کذب کا احتمال رکھتی ہے لیکن خبر مستفیض علم یقین کا ذریعہ ہے۔اگر خبر مستفیض سے رویت ہلال کا ثبوت ہو جائے تو روزہ رکھنے یا توڑنے یعنی عید منانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس سے رویت کا یقین حاصل ہوجا تا ہے کذب کا احتمال نہیں رہتا۔ یعنی بذریعہ ٹیلیفون وغیرہ (موبائل)اتنی جگہوں سے خبر حاصل کیا جائے کہ سبھوں کو جھٹلانا ممکن نہیں ۔ البتہ اس کے لیے ایک تنظیمی مرکز بنانا ہوگاجہاں علماء کرام کسی ایک کو قاضی مقرر کریں اور ان کی یہ ذمہ داری ہو کہ مثلاً پٹنہ سے متعدد جگہوں میں انتظام ہو کہ وہاں سے چاند ہونے نہ ہونے کی خبر بذریعہ فون قاضی حاصل کرے اور وہاں کے متعین لوگ عینی شہادت کی خبر فون سے دیں ۔میرے نزدیک اس طرح عید منانے یا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
بزرگوں سے دعا کیسے لی جائے :۔
دعا کرنے کرانے کے سلسلے میں فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ حضور دعا کر دیجیے ۔ دیکھیے ! ایک ہے دعا کرانا اورایک ہے دعا دینا ، دونوں میں فرق ہے۔دعا کرانا کوئی خاص بات نہیں ، ہو سکتا ہے قبول ہونہ ہو۔نہ چاہتے ہوے بھی دعا کر دیا ۔ اور دعا دینا یہ ہے کہ اتنی خدمت اور دل جوئی کی جائے کہ مخدوم خوش ہو کر خود دعا دینے لگے تو وہ دعا قبول ہو تی ہے کیونکہ وہ دل سے نکلی دعا ہوتی ہے ۔(ف)
اس میں راز یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نیک بندوں کو جب کوئی خوش کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی حاجت و مراد پوری کرکے اس کوخوش کر دیتا ہے خواہ وہ زبان سے کچھ نہ کہے۔
واقعہ:
موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ الہٰی میں عرض کیا ’’ اے اللہ تو نے جنت میں میرا ساتھی کس کو بنایا ہے ؟‘‘ ارشاد باری ہوا کہ : محلہ میں فلاں قصاب ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شوق ہو ادیکھیں اس کے اندر کیا خصوصیت ہے ۔دیکھا کہ ماں کی خدمت میں مصروف ہے ۔ اس کی والدہ فارغ ہوکر جب سونے چلی تو اس نے یہ دعا کیا کہ اے اللہ میرے بیٹے کو جنت میں موسیٰ کا ساتھی بنا۔روزانہ اس کا یہ معمول تھا ۔
یعنی بیٹے کی خدمت سے اتنا خوش ہوتی کہ اس کے دل سے یہ دعا نکلتی ۔ معلوم ہوا کہ جس سے دعا لینا ہے اس کی اتنی خدمت و دل جوئی کی جائے کہ اس کے دل سے دعا نکلے ، کہنے کی ضرورت نہیں۔
بدعت کسے کہتے ہیں؟
بدعات کا ذکر کرتے ہوے آپ نے فرمایا : بدعت کے دو اقسام، حسنہ و سیئہ ،ملا علی قار ی وغیرہ علماء نے کیے ہیں ۔ پھر حسنہ کے اقسام بیان فرمائے ۔ میں نے اس سلسلہ میں ایک ضابطہ بنایا ہے جس سے طوالت میں جانے کی ضرورت نہیں ۔حدیث ’’کل بدعۃ ضلالۃ ‘‘میں ’بدعت فی العقیدہ ‘مراد ہے ۔کیونکہ آگے ضلالۃ فرمایا گیا ہے تو بدعت فی العقائد ضلا لت ہے ، ’ بدعت فی العمل‘ معصیت ہے نہ کہ ضلالت۔ بدعت حسنہ کل سنت میں داخل ہیں ۔
ضعیف احادیث کے اوراد وظائف پر عمل:
آپ نے فرمایا : اوراد واشغال ووظائفِ مشائخ کرام زیادہ تر احادیث ضعیفہ ثابت ہیں۔ لیکن یہ حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں نفس حدیث کے اعتبار سے نہیں ۔محدثین کرام نے ضعف و صحت کے معیار کے اعتبار سے جس راوی میں ضعف دیکھا اس کو ضعیف کہہ دیا۔در حقیقت وہ حدیث صحیح ہے ،وجہ یہ ہے کہ مشائخ صوفیہ کو بذریعئہ کشف بارگاہ رسالت سے براہ ِ راست اس کی صحت کا علم ہوا ، انہوں نے اس کا معمول بنالیا ۔محدثین کرام کا قول ان کے ضابطہ کے مطابق صحیح ہے لیکن اس سے نفس متن حدیث کا ضعیف ہونا ضروری نہیں ۔
رجال الغیب کے بارے میں:
دوران گفتگو آپ نے فرمایا رجال الغیب کے ثبوت کا ملا علی قاری علیہ الرحمہ انکار فرماتے ہیں ۔حالانکہ سولہ (۱۶) صوفیاء کرام کے نزدیک اس کا ثبوت ہے جس کی عمل یا سفر وغیرہ میں رعایت کرتے ہیں ۔کچھ ایسے ہیں جو ان کا انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے معیار کے مطابق اس کا ثبوت کسی صحیح حدیث سے نہیں ۔
اور یہ بھی فرمایا کہ یہ صحیح نہیں ہے کہ کسی عمل یا سفر میں ان کا سامنا کرنے سے وہ حضرات نقصان پہنچاتے ہیں ۔کیونکہ ان حضرات کا کام کسی کو تکلیف یا نقصان پہنچانا نہیں ہے۔البتہ یہ صحیح ہے کہ کسی کام یا سفر میں پس پشت یا بائیں جانب کرنا کامیابی کی دلیل ہے ۔
مجتہد صحابئہ کرام کون ہیں؟
جنگ صفین وغیرہ جتنی جنگیں ہویں خیر القرون میں ہوی ، دونوں طرف صحابئہ کرام کی جماعت تھی ان سے بے شمار حدیثیں مروی ہیں ۔ ان سے مروی حدیثیں مقبول ہیں۔ اس لیے کہ صحابہ کرام سب کے سب عدول ہیں ، عدول ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ کسی نے بھی جھوٹ کی نسبت نبی کریم ﷺ کی طرف نہیں کیا ہے خواہ ایک ساعت کے لیے صحبت رسول میسر ہو ی ہو۔
آپ نے فرمایا : حدیث ’’اصحابی کالنجوم فبایھم اقتد یتم اھتد یتم ‘‘میں صحابی سے صاحب اجتہاد صحابی مراد ہیں ۔ورنہ بہت سے صحابی اعرابی یعنی بادیہ نشین تھے جنہیں بہت کم صحبت رسول میسر ہوی، حدیث رسول سننے کا موقع کم ملا۔ ان کی اقتدا کیسے سببِ اہتدا ہوسکتی ہے!
حضرت شیخ الاسلام کی کرامات :
اللہ تبارک وتعالی اپنے مقر ب بندوں کو بے شمار نعمتوں اور کرامتوں سے نوازتا ہے ۔ اس کرامت کا ظہور جس بندے سے ہوتا ہے اس کو اللہ کا ولی کہتے ہیں۔اور جو واقعہ ولی سے خلاف عادت صادر ہوتا ہے اس کو کرامت کہتے ہیں۔حضرت شیخ الاسلام مد ظلہ العالی سے ایسے بے شمار واقعات صادر ہوے ہیں جو آپ کی کرامت ہے ۔چند کرامات کا ذکر ہم یہاں کر رہے ہیں۔ حافظ و قاری سراج الدین اشرفی ابن ابراہیم ٹنکاریہ بھروچ گجرات نے بیا ن کیا جو در العلوم اہل سنت جبلپور میں شعبئہ حفظ و قرات کے مدرس ہیں۔حضور سرکار کلاں کے مرید ہیں ، متقی و پرہزگار ہیں جن کی دینداری و دیانت داری پر تما م مدرسین و طلبہ و اراکین متفق ہیں۔انہوں نے مندرجہ ذیل واقعات و کرامات سنائے۔
(۱)بھروچ گجرات سے تین شخص ایک کار کے ذریعے کہیں سفر کر رہے تھے ۔ادھر سے اینٹ سے بھری ہوی ٹرک آرہی تھی اتفاقاًٹکرا گئی ، کار الٹ گئی اس میں سے دو شخص ہلاک ہوگئے ایک بچ گیا ۔پولیس جائے وقوع پر پہنچی ، تلاش کرنے پر موبائل ملا ، گھر والے کو اطلاع دی گئی کہ آپکے بھائی کار حادثہ کا شکار ہوگئے ، اس کے جسم پر فلاں رنگ کا کپڑاہے ۔اس کے بھائیوں نے گھبراکر حضرت شیخ الاسلام کو بذریعہ فون حالات سے آگاہ کیا آپ نے فرمایا جو بچ گیا ہے وہ تمہارا بھائی ہے۔ جاکردیکھا تو بچا ہوا اس کا بھائی تھا اس نے بتایا ابھی پانچ منٹ قبل ہم نے کپڑا بدلا ہے۔
(۲) احمد آباد میں ایک شخص اپنی بیوی کے کینسر کے علاج سے عاجز آگیا تھا، ڈاکٹر نے لا علاج کہنے کے بعد بھی پھر ایک ہفتہ بعد بلایا تھا ۔ اس درمیان میں بیوی کی طرف سے مایوس شخص شیخ الاسلام کی بارگاہ میں ایک مبہم امیدلیکر پہنچا ۔مجلس سے جب سب لوگ جانے لگے تو آپ نے کہا : تم ٹھہرو ! وہ رک گیا ۔ سبھوں کے چلے جانے کے بعد جسم سے اتارا ہوا اپنا کپڑا دیتے ہوے اس شخص سے کہا کہ اسے تم اپنے بیوی کے ہاتھ سے دھلواکر پریس کرکے لانا ۔ یہ سن کر اس شخص کا تردد اور بڑھ گیا مگر زبان سے کچھ نہ بولا ۔کپڑا لیکر گھر آیا ۔ بیوی جو چارپائی سے اٹھ بیٹھ نہیں سکتی تھی اسے لاکر دیا اور حضرت نے جو کہا تھا وہ کہہ کر بازار چلا گیا ۔بیوی بمشکل ِ تمام کسی طرح کھسکتے ہوے کپڑا لیے ہوے غسل خانہ کی بالٹی میں رکھ کر پانی ڈال دیا، کچھ دیر بعد کپڑا کو نکال کر چبوترہ پر رکھا اور بالٹی میں رکھا ہوا پانی پی گئی ۔ پیتے ہی جسم میں چستی پھر تی اور طاقت محسوس کیا پھر سارے کپڑوں میں صابن لگا کر اچھی طرح دھو دیا پھر چار پائی پر جاکر بیٹھ گئی ۔ شوہر جب بازار سے آیاتو یہ دیکھ کرحیرت و استعجاب میں ڈوب گیا ! پوچھا کہ تم نے کیسے دھویا ؟ تو اس نے سارا ماجرا بتا یا ۔خوشی کی انتہا نہ رہی وہ کپڑوں کو پریس کرکے شیخ الاسلام کی بارگاہ میں لایا ۔شیخ الاسلام مد ظلہ العالی مسکرائے اور پوچھا کہ بیوی کا کیا حال ہے؟ تو اس نے ساراقصہ سنا دیا پھر گھر چلا گیا ۔ ڈاکٹر کے پاس ایک ہفتہ کے بعد بیوی کو لیکر گیا ، ڈاکٹر حیرت میں ڈوب گیا !پوچھا صحیح صحیح بتائو تم نے اس کا کہاں علاج کیا؟ اس شخص نے جواب دیا میں نے کہیں نہیں علاج کیا ۔ہمارے ایک گرو ہیں ۔۔۔۔ پھر سارا ماجر اسنا یا
(۳) ایک کروڑپتی جب رو بزوال ہوا تو تخت نشیں سے بوریہ نشیں ہوگیا ،یہاں تک کہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوگیا ۔
حضرت شیخ الاسلام کی بارگاہ میں حاضر ہوکر حالات سے آگاہ کیا ۔ آ پ نے فرمایا تمہارے گھر میں مصلّیٰ ہے اسے لے آئو۔ وہ گھر جاکر فوراً لے آیا ۔آپ نے اس پر نماز پڑھی اور فرمایا اسے لے جائوفریم کراکر دیوار میں ٹانگ دو ۔ اس نے ایسا ہی کیا ، اس کی قسمت کا ستارہ چمکا، جیسا تھا ویسا ہی کروڑ پتی ہو گیا ۔خریدار کثرت سے آنے لگے مال کی بِکری پہلے سے زیادہ ہونے لگی ۔