مُبارَک پَرچہ

مُبارَک پَرچہ

قِیامت کے دن کسی مسلمان کی نیکیاں  میزان(یعنی ترازو) میں  ہلکی ہو جائیں  گی تو سروَرِ کائنات،شاہِ موجودات، مَحْبوبِ ربِّ الْارضِِ وَ السَّمٰوٰت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ایک پرچہ اپنے پاس سے نکال کرنیکیوں  کے پلڑے میں  رکھ دیں  گے تو اس سے نیکیوں  کاپلڑا وَزنی ہو جائے گا۔ وہ عَرْض کرے گا:’’ میرے ماں  باپ آپ پر قربان! آپ کون ہیں  ؟‘‘حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمفرمائیں  گے:’’میں  تیر ا نبی محمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ہوں  اور یہ تیرا وہ دُرُودِ پاک ہے جو تُونے مجھ پر پڑھا تھا ۔‘‘(موسوعہ ابن ابی دنیا فی حسن الظن باللّٰہ، ۱ /۱۹، حدیث :۹۷) 
وہ پرچہ جس میں  لکھا تھا دُرُود اس نے کبھی
یہ اس سے نیکیاں  اس کی بڑھانے آئے ہیں 
(سامانِ بخشش،ص۱۲۶)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بیان کردہ روایت سے  دُرُودِپاک کی بَرَکت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں  دُنیا میں  اس کے فوائد وثَمرات حاصل ہوتے ہیں  وہیں  اُخروِی فَضائل و بَرَکات کا حُصُو ل بھی ہوتا ہے۔دُرُودِ پاک پڑھنا ایسا عمل ہے کہ جسے خود خالقِ ارض وسمٰوٰت عَزَّوَجَلَّاور اسکے مَعصُوم فِرِشتے بھی کرتے ہیں  ۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اِرشاد فرماتا ہے : 

اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا ﴿۵۶﴾ (پ۲۲،الاحزاب:۵۶)

ترجمۂ کنز الایمان:بے شک اللّٰہ اور اسکے فِرِشتے دُرُود بھیجتے ہیں  اس غیب بتانے والے (نبی) پراے ایمان والو! ان پر دُرُود اورخُوب سلام  بھیجو۔ 

اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور فِرِشتوں  کا عَمل 

مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اپنی مایہ ناز کتاب ’’شانِ حبیبُ الرحمن مِن آیاتِ القرآن‘‘میں  فرماتے ہیں  : ’’مَذکورہ بالا آیتِ کریمہ سرکارِمدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صَریح نعت ہے۔ اِس میں  ایمان والوں  کو پیارے مُصْطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُودو سلام بھیجنے کا حُکْم دیا گیا ہے۔ لُطْف کی بات یہ ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَََّ نے قُرآنِ کریم میں  کافی اَحکامات صادِر فرمائے مَثَلاً نماز، روزہ، حج، وغیرہ وغیرہ۔ مگر کسی جگہ یہ اِرشاد  نہیں   فرمایا کہ یہ کام ہم بھی کرتے ہیں  ، ہمار ے فِرِشتے بھی کرتے ہیں  اور ایمان والو! تم بھی کیا کرو۔ صِرْف دُرُود شریف کے لیے ہی ایسا فرمایا گیا ہے۔ اِس کی وجہ بالکل ظاہر ہے۔ کیونکہ کوئی کام بھی ایسا  نہیں   جو خُدا عَزَّوَجَلَّکا بھی ہو اور بندے کا بھی۔ یقیناً اللّٰہتبارک و تعالیٰ کے کام ہم  نہیں   کر

 سکتے اور ہمارے کاموں  سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بُلند وبالا ہے ۔ اگر کوئی کام ایسا ہے جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا بھی ہو، مَلائکہ بھی کرتے ہوں  اور مسلمانوں  کو بھی اُس کا حُکْم دیا گیا ہوتو وہ صِرْف اور صِرْف آقائے دوجہاں  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُود بھیجنا ہے۔ جس طرح ہلالِ عید پر سب کی نظریں جَمْع ہوجاتی ہیں  اِسی طرح مَدینہ کے چاند پر ساری مَخلوق کی اور خود خالقعَزَّوَجَلَّ کی بھی نظر ہے۔

جس کے ہاتھوں  کے بنائے ہوئے ہیں  حسُن و جمال
اے حسیں ! تیری اَدا اُس کو پسند آئی ہے
(ذوقِ نعت، ص۱۷۵)
ایسا تجھے خالِق نے طَرَحْدار بنایا
                                    یوسُف کو تِرا طالبِ دیدار بنایا (ذوقِ نعت،ص ۳۲)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس آیتِ مُبارَکہ کے نازِل ہونے کے بعدمحبوبِ ربِّ ذُوالجلال، سُلطانِ شیریں  مَقال صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا چِہرۂ نور بار خوشی سے جھوم اُٹھااور فرمایا: ’’مجھے مبارَک باد دو کیونکہ مجھے وہ آیتِ مُبارَکہ عطا کی گئی ہے جو مجھے ’’دُنْیَا وَمَا فِیْہَا‘‘(یعنی دُنیا اور جو کچھ اس میں  ہے اس ) سے زِیادہ محبوب ہے ۔‘‘  ( روح البیان،پ۲۲،الاحزاب ،تحت الآیۃ:۵۶،۷ /۲۲۳) 

دُرُود بھیجنے کی حِکمت

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!  اللّٰہ عَزَّوَجَلََّّنے آیتِ مُبارَکہ میں  یہ خَبَر دی ہے کہ ہم ہر آن اور ہر گھڑی اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر
 رَحمتوں  کی بارش برساتے ہیں  ۔ یہاں  ایک سُوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللّٰہ عَزَّوَجَلََّّ خود ہی رَحمتیں   نازل فرمارہا ہے تو ہمیں  دُرُود شریف پڑھنے یعنی رَحمت کے لیے دُعا مانگنے کا کیوں  حُکْم دیا جارہا ہے کیونکہ مانگی وہ چیز جاتی ہے جو پہلے سے حاصل نہ ہو، تو جب پہلے ہی سے رَحمتیں   اُتر رہی ہیں  پھر مانگنے کا حُکْم کیوں  دیا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ کوئی سُوالی کسی دروازہ پر مانگنے جاتا ہے تو گھر والے کے مال و اَولاد کے حق میں  دُعائیں  مانگتا ہوا جاتا ہے۔ سخی کے بچے زِندہ رہیں  ، مال سلامت رہے ، گھر آباد رہے وغیرہ وغیرہ۔ جب یہ دُعائیں  مالکِ مکان سنتا ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ یہ بڑ ا مُہَذَّب سُوالی ہے۔ بھیک مانگنا چاہتا ہے مگر ہمارے بچوں  کی خیر مانگ رہا ہے ۔ خُوش ہو کر کچھ نہ کچھ جھولی میں  ڈال دیتا ہے۔ یہاں  حُکْم دیا گیا: اے ایمان والو! جب تم ہمارے یہاں  کچھ مانگنے آؤ تو ہم تو اَولاد سے پاک ہیں  مگر ہمارا ایک پیارا حبیب ہے محمدمُصْطفٰیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، اُس حبیبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُس کے اَہلِ بیت (عَلَیْہِم الرِّضْوان) کی اور اُس کے اَصحاب (عَلَیْھِم الرِّضْوان) کی خَیر مانگتے ہوئے، اُن کو دُعائیں  دیتے ہوئے آؤ تو جن رَحمتوں  کی اُن پر بارش ہورہی ہے اُس کا تُم پر بھی چھینٹا ڈال دیا جائے گا۔ دُرُود شریف پڑھنا دَراَصْل اپنے پروَرْدگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ سے مانگنے کی ایک اعلیٰ ترکیب ہے۔اِس آیتِ مُقَدَّسہ میں  مسلمانوں  کو مُتَنَبَّہ (خبردار)

 فرمادیا گیا کہ اے دُرُود و سلام پڑھنے والو! ہرگز ہرگز یہ گُمان بھی نہ کرنا کہ ہمارے محبوبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ہماری رَحمتیں   تمہارے مانگنے پرمَوقوف ہیں  اور ہمارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تمہارے دُرُود و سلام کے مُحتاج ہیں  ۔ تم دُرُود پڑھو یا نہ پڑھو، اِن پر ہماری رَحمتیں   برابر برستی ہی رہتی ہیں  ۔ تمہاری پیدائش اور تمہارا  دُرُود و سلام پڑھنا تو اَب ہوا، پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر رَحمتوں  کی برسات تو جب سے ہے جب کہ ’’جب‘‘ اور ’’کب‘‘ بھی نہ بنا تھا۔ ’’جہاں ‘‘ ’’وہاں ‘‘ ’’کہاں ‘‘ سے بھی پہلے اِن پر رَحمتیں   ہی رَحمتیں   ہیں  ۔ تم سے دُرُود و سلام پڑھوانا یعنی پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لیے دُعائے رَحمت منگوانا تمہارے اپنے ہی فائدے کے لیے ہے۔ تم  دُرُود و سلام پڑھو گے تو اِس میں  تمہیں  کثیر اَجر و ثواب ملے گا ۔ (شان حبیب الرحمن،ص ۱۸۴،۱۸۵ ملخصاً)

وُہی رَبّ ہے جس نے تجھ کو ہمہ تَن کرم بنایا
ہمیں  بھیک مانگنے کو تِرا آستاں  بتایا
 (حدائقِ بخشش ،ص۳۶۳)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

جو نہ بُھولا ہم غریبو ں  کو رضا

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! حُصُولِ بَرَکت اور ترقی ٔمعرفت اور حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی قُربت کے لیے  دُرُود و سلام سے بہتر کوئی ذَریعہ  نہیں  

 ہے۔ یقینا سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُود و سلام بھیجنے کے بے شُمار فَضائل و بَرَکات ہیں  جن کو بیان کرنا ممکن  نہیں   ۔دُرُود شریف کے فَضائل میں  بے شُمار کُتُب تصنیف کی جاچکی ہیں  ، اس کے فضائل وثَمَرَات اکثر مُبَلِّغین بیان کرتے رہتے ہیں  ۔ قَلَم کی روشنائی تو خَتْم ہوسکتی ہے، بیان کے الفاظ بھی خَتْم ہوسکتے ہیں  مگر فضائلِ دُرُود و سلام بَرْ خَیْرُ الاَ نَام کا اِحاطہ  نہیں   ہو سکتا ۔ دن ہو یا رات ہمیں  اپنے مُحسن وغمگُسار آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُود و سلام کے پُھول نِچھاور کرتے ہی رہنا چاہیے۔ اِس میں  کوتاہی  نہیں   کرنی چاہیے کیونکہ سرکار ِمدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ہم پر بے شُمار اِحسانات ہیں  ۔ بطنِ سیّدہ آمِنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاسے دُنیائے آب و گِل میں  جلوہ اَفروز ہوتے ہی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے سجدہ فرمایا اور ہونٹوں  پر یہ دُعا جاری تھی:  ’’ رَبِّ ھَبْ لِی اُمَّتِییعنی پروَردگار عَزَّوَجَلَّ!میری اُمَّت میرے حوالے فرما۔ ‘‘

امام زرقانی قُدِّسَ سرُّہُ الرَّباّنی نَقْل فرماتے ہیں  :’’ اُس وَقْت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُنگلیوں  کو اِس طرح اُٹھا ئے ہوئے تھے جیسے کو ئی گِرْیَہ وزاری کرنے والا اُٹھا تا ہے۔ ‘‘ (زرقانی علی المواہب،ذکرتزویج عبداللّٰہ آمنۃ،۱ / ۲۱۱)
رَبِّ ھَبْ لِی اُمَّتِیکہتے ہوئے پیدا ہوئے
حق نے فرمایا کہ بخشا  اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلام
   (قبالہ ٔ بخشش ،ص۹۴)
رَحمتِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسَفَرِمعراج پر رَوانگی کے وَقْت

 اُمَّت کے عاصیوں  کو یاد فرما کر آبْدِیدہ ہوگئے۔دیدارِ جمالِ خداوندی عَزَّوَجَلَّاور خُصُوصی نوازشات کے وَقْت بھی گُنہگارانِ اُمَّت کو یاد فرمایا۔ عُمر بھر گنہگارانِ اُمَّت کے لیے غمگین رہے۔

مَدارِجُ النُّبُوَّۃ میں  ہے: حضرتِ سیِّدُنا قُثَم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ وہ شخص تھے جو آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قَبْرِ اَنور میں  اُتارنے کے بعد سب سے آخِر میں  باہَر آئے تھے ۔ چُنانچِہ اُن کا بیان ہے کہ میں  ہی آخِری شخص ہوں  جس نے حُضُورِ اَنْوَرصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا رُوئے مُنوَّر ، قَبْر اَطہر میں  دیکھا تھا ۔ میں  نے دیکھا کہ سلطانِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قَبْر اَنور میں   اپنے لَبْہَائے مبارَکہ کو جُنبِش فرما رہے تھے ۔ (یعنی مبارَک ہونٹ ہل رہے تھے ) میں  نے اپنے کانوں  کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دَہَن (یعنی منہ)مبارَک کے قریب کیا ، میں  نے سنا کہ آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کہہ رہے تھے : ’’ رَبِّ اُمَّتِی اُمَّتِیْ۔‘‘ (یعنی اے میرے پروَردْگار! میری اُمّت میری اُمّت)۔   (مدارج النبوۃ،۲/۲۴۴)
فرمانِ مصطَفٰیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ :’’ جب میری وفات ہو جائے گی تو اپنی قَبْرمیں  ہمیشہ پکارتا رہوں  گا ،یا رَبِّ اُمَّتِی اُمَّتِی یعنی اے پروَردگار! میری اُمَّت میری اُمَّت ،یہاں  تک کہ دوسرا صُور پھونکا جائے۔‘‘(کنز العمال ،کتاب القیامۃ، ۷/۱۷۸،حدیث:۳۹۱۰۸ )

جو نہ بھُولا ہم غریبوں  کو رضا

ذِکْر اُس کا اپنی عادت کیجئے
   (حدائقِ بخشش،ص۱۹۸)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جب ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہم سے اس قدر مَحَبَّت فرماتے ہیں  تو ہماری عَقیدت بلکہ مُرَوَّت کا بھی یہی تقاضا ہوناچاہئے کہ غمخوارِ اُمَّتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی یاد اور دُرُود وسلام سے کبھیغَفْلَت نہ برتی جائے ۔ 
حضرتِ سیِّدُناحافظ رشید عطَّارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْغَفَّار اَشعار کی صورَت میں  فرماتے ہیں  : 
اَلاَ اَیُّہَا الرَّاجِی الْمَثُوْبَۃَ وَالْاَجْرَ وَتَکْفِیْرَ ذَنْبٍ سَالِفٍ اَنْقَضَ الظَّہْرَا
عَلَیْکَ بِاِکْثَارِ الصَّلَاۃِ مُوَاظِباً عَلٰی اَحْمَدَالْہَادِیْ شَفِیْعِ الْوَرٰی طُرًّا
’’یعنی اے اَجْر وثواب اور اُس گُزَشْتَہ گناہ کی تلافی کی اُمید رکھنے والے جس نے (تیری) کمر توڑدی ہے، سن لے! تجھ پر لازم ہے کہ اُس ذاتِ گرامی پرہمیشہ کثرت سے دُرُود بھیج جن کا نام اَحمد ہے، اِنسانِیَّت کے ہادی اور تمام مخلوق کے شفیع ہیں  ۔ ‘‘(القول البدیع ،خاتمۃ الباب الثانی ،الفصل الاول،ص۲۸۴)
ٹوٹ جائیں  گے گُنہگاروں  کے فوراً قید و بند
حَشْر کو کھل جائے گی طاقت رسولُ اللّٰہ کی
  (حدائقِ بخشش،ص۱۵۳)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  اے ہمارے پیارے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّّ! ہمیں  اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مَحَبَّت میں  ڈوب کر آپ کی ذاتِ طیبہ پر کثرت سے دُرُودِ پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرما اور روزِ قیامت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شَفاعت سے بہرہ مند فرما ۔ 

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭…٭…٭…٭
فرمانِ حسن بصری
  حضرتِ سیِّدُناحَسَن بصری (عَلیْہ رَحْمَۃُاللّٰہِ الْقَوِی)فرماتے ہیں  کہ ’’جو اچّھی باتوں  کا حکم دے،برائیوں  سے روکے وہ اللّٰہ تعالی کا بھی خلیفہ ہے، اُس کے رسول ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کا بھی اوراُس کی کتاب (یعنی قراٰنِ کریم)کا بھی ۔‘‘ ( حدیث پاک میں  ہے) اگر مسلمانوں  نے تبلیغ چھوڑ دی تو اُن پر ظالم بادشاہ مُسَلَّط ہوں  گے اور اُن کی دعائیں  قَبول نہ ہوں  گی۔(رُوحْ الْمَعانی،۴/۳۲۶ )
Exit mobile version