شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کی تجدیدی خدمات
از: حضرت مولانا قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری،
صدر سید الصوفیہ اکیڈمی حیدرآباد
شہرئہ آفاق جامعہ نظامیہ کے بانی ومبانی امام اہلسنت ، شیح الاسلام ، عارف باللہ ، عاشق رسول اللہ حضرت علامہ محمد انواراللہ فاروقی خان بہادر فضیلت جنگ علیہ الرحمۃوالرضوان کی ذات والا صفات کی پر انوار بارگاہ فضیلت پناہ میں اپنا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت ، مجھ ناچیزکے حق میں نعمت بالائے نعمت سے کم نہیں کیوں کہ حضرت ممدوح کی تصنیف منیف ، انوار احمدی میں نقل کردہ یہ حدیث نبوی کے الفاظ ذکر الصالحین کفارۃ کی رو سے یہ مقالہ خود میرے حق میں سامانِ نجات اور مغفرت کا پیش خیمہ ہے تو دوسری نعمت یہ کہ شیخ الاسلامؒ ہی کے ایک تلمیذِخاص یعنی میرے والد ماجد حضرت سید الصوفیہ مفتی سید شاہ احمد علی صوفی علیہ الرحمۃ کے واسطے اور وسیلہ سے اکتساب فیض علوم کے ناتے مجھکو شیخ الاسلامؒ کے خرمنِ فیوض وبرکات کی خوشہ چینی کاشرف بھی حاصل ہے۔ یوں بھی خالق کائنات کی عظیم ترین نعمتوں میں علماء ربانیین کی مقدس جماعت خود ایک عظیم نعمت الہی ہے وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث کا ایمانی وایقانی سہارالے کر اپنے ممدوح شیخ الاسلامؒ کی شخصیت، تجدیدی خدمات اور اصلاحات کو اگر چہ کہ خراج تحسین پیش کرنے کی جرأت تو کررہاہوں لیکن حیران ہوں کہ اظہار نیازمندی کے لئے بیان وادب کا سرمایہ کس طرح اکٹھا کروں اورزبان وانشاء کے گوہر آبدار کہاں سے ڈھونڈلائوں تاکہ شیخ الاسلامؒ کی عبقری شخصیت کے علمی وقلمی احسانات کا شایان شان حق ادا کیا جاسکے جن کے علم و فضل کا آفتاب ملک ہی میں نہیں بلکہ اقطاعِ عالم میں پوری آ ب وتاب کے ساتھ اپنی ضیاپاشی کرہاہے ۔
اس حقیقت سے کون واقف نہیں اس جہاں رنگ وبو میں انسانیت کی ہدایت کے لئے اللہ عز وجل کی جانب سے انبیاء ومرسلین کے نورانی قافلہ کی آمد آمد کا سلسلہ اس وقت ختم ہو چکاجبکہ سارے پیغمبر کے قافلہ سالار ، تمام نبیوں کے میر کارواں اورجملہ رسولوں کے امام بن کر حضرت احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ گرہوے انبیاء آچکے ،مرسلیں آچکے ، مقتدی آچکے اب امام آگیا۔ سورہ احزاب کی آیت
ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین
باب نبوت کے ہمیشہ کے لئے بند ہوجانے کا واضح حق کی ترجمانی ہے لیکن حضور ختمی مرتبت علیہ التسلیم والتحیۃ نے 14 صدی قبل یہ پیشن گوئی بھی فرمادی کہ قیامت کے قریب مخلوق میں ضلالت و گمراہی، ظلم و ستم اور بداعمالی و معصیت کا بازار گرم ہوجائے گا تو ان کی تبلیغ و اصلاح کا جو فریضہ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے علماء سر انجام دیں گے ۔ اسکی تصدیق ان ارشادات نبوی سے بھی ہوجاتی ہے کہ
علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل
یعنی میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہے یا پھر
العلماء ورثۃ الانبیاء
یعنی علماء علم انبیاء کے وارث ہیں ۔
اسی قدرتی نظام کے مطابق شیخ الاسلامؒ حضرت فضیلت جنگؒ بھی ایسے پرآشوب دور میں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتے ہیں کہ دکن کے علاقہ میں زرخیزی اور خوشحالی کے سبب مسلمان عموماً یادِ خدا سے غافل ، عیش وعشرت میں مبتلا اور الحاد وبے دینی کے پر فریب جال کا شکار ہورہے تھے ۔ قادیانیت اور وہابیت کے فتنے اپنا سر اٹھارہے تھے اور ختم نبوت کے شیشہ نازک کو چکناچور کرنے کی سازشیں ہورہیں تھیں ۔ علم وفضل کے نام پر صاحبانِ جبہ ودستار کی طرف سے بارگاہِ رسالت میں نت نئی بے ادبیاں اور گستاخیاں ایجاد کی جارہی تھیں ۔عباوقبا کے فریب لبادہ میں طریقت کے نقلی دعویدار اپنی محفلوں کو طوائفین کے مجروں اور ناچ گانوں سے سجاکر ابلیس کی شاگردی کا حق اداکررہے تھے۔ شریعت مطہرہ کو ہر شعبہ حیات میں فراموش کر کے اقدار کو پامال کیا جارہا تھا۔ جہالت عام تھی اور علم وفضل مفقود ہوتاجارہا تھا ۔ ضلالت اور گمراہی کے ان ہی گھٹاٹوپ اندھیروں میں ایک مرد مجاہد نے دکن کی دھرتی پر قدم رکھااس نے اپنی خداداد علمی فضیلت اور روحانی بصیرت کوکام میں لاکر جہالت کی ساری تاریکیوں کا پر دہ چاک کیا اور اسکو اجالے سے بدل دیا ۔ اس مرد مومن نے اپنے علمی انوار اور عملی کردار سے ایسی ان گنت قندیلیں روشن کی ہیں جو اپنی نورانیت سے ایک دنیا کو ہمیشہ تابناک بنائے رکھیں گی ۔ یہ ایک زندہ و تابندہ حقیقت ہے کہ شیخ الاسلامؒ کی حق آگاہ ، حق پسند اور حق گو شخصیت ایسی کچھ وحیدِ عصر اور فریدِ دہر ثابت ہوئی کہ تیرھویں صدی ہجری کے اواخر اور چودھویں صدی کے اوائل میں آپ کے قلمِ رمزشناس سے جب علوم ومعارف کے بے شمار سوتے پھوٹ پڑے تو دنیائے علم کے بڑے بڑے صاحبانِ فضل وکمال نے آپ کو مجمع البحرین تسلیم کرتے ہوئے آپ کے علمی دبدبے کے آگے اپنے سرنیازکو خم کردیا اور لا تعداد طالبانِ حق نے آپ کے سر چشمہ علوم وفنون سے راست نہیں تو بالواسطہ اپنی تشنگی بجھائی۔ شیخ الاسلامؒ کے علمی قلمی احسانات سے دنیا ئے علم و دانش کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ آپ نے اپنی ساری صلاحیتیں، اپنی پوری توانائیاں، اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ بلکہ ساری متاعِ حیات کو محض اسلام کی سر بلندی اور رضائے خدا اور رسول کے حصول کی خاطر وقف کردیاتھا۔
حق تو یہ ہے کہ
شیخ الاسلامؒ اپنی شخصیت اور وجاہت میں کسی فرد واحد کا نام
نہیں بلکہ شیخ الاسلامؒ دینی تحریک کا نام ہے۔
شیخ الاسلامؒ ظلمتوں میں طلوع ہونے والے اجالے کانام ہے۔
شیخ الاسلامؒ رحمت خدا اور عظمتِ مصطفی کی ترجمانی کا نام ہے۔
شیخ الاسلامؒ علم وفضل کے ایک معدن زر خیز کانام ہے۔
شیخ الاسلامؒ عشقِ رسول کے پیکر کا نام ہے کیونکہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ایک عقیدہ تھے، ایک مسلک تھے، ایک مشرب تھے، ایک درسگاہ تھے اور ایک خانقاہ تھے۔ انہوں نے فقیری کی چٹائی پر بیٹھکر دنیائے علم وعرفان میں شہنشاہی کی اور مسلمانوں کے مردہ دلوں میں نئی جان ڈالدی۔
نہ تخت و تاج میں نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
حضور سراپا نور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے علمی وارث کی حیثیت سے شیخ الاسلامؒ نے اپنی عرفانی بصیرت کے انوار سے دکن یا برِصغیر ہند کو ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے گوشہ گوشہ کو تاباں و درخشاں کردیا شیخ الاسلامؒ کی پُر شکوہ شخصیت، علم و فضل اور صلاح وتقوی کا ایک عجیب و غریب مرقع تھی۔
وہی شیخ الاسلامؒ جس کے دل کی ہر دھڑکن سے وحدت کے نغمے بلند ہوتے تھے اور جسکی ہر نگاہ انوارِ مدینہ سے جگمگاتی تھی۔
وہی شیخ الاسلامؒ جس کا سینہ عشقِ رسول کا مدینہ تھا اور جسکی ہر ہر ادا سنت نبوی سے عبارت تھی۔
وہی شیخ الاسلامؒ جس کی ایک ایک بات میں صدیق کی شانِ صداقت جلوہ فرماتھی
وہی شیخ الاسلامؒ جس کی منور پیشانی سے فاروقی رعب و جلال ٹپکتا تھا۔
وہی شیخ الاسلامؒ جس کے قلب میں عثمان غنی کی سخاوت مچلتی تھی۔
وہی شیخ الاسلامؒ جس کی زبان اسد اللہی جراء ت و بے باکی کی سچی ترجمان تھی۔
وہی شیخ الاسلامؒ جس کی شرح حدیث میں امام بخاری و مسلم کے جلوے روشن دکھائی دیتے تھے۔
وہی شیخ الاسلامؒ جس کے فتووں میں امام اعظم ابو حنیفہؒ کی علمی ذہانت فقہی فطانت جھلکتی تھی۔
وہی شیخ الاسلامؒ جس کے رشد و ہدایت میں غوث الوریؒ کی ولایت کی تجلیاں چمکتی تھیں۔
وہی شیخ الاسلامؒ جس کی فقیرانہ شان میں غریب نوازؒ کا انداز استغنا نظر آتا تھا۔
وہی شیخ الاسلامؒ جس کے عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے کلام کو پڑھکر علامہ جامیؔ کے جذبِ وارفتگی کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔
وہی شیخ الاسلامؒ جس کے صرف نام کی گونج سے قادیانیت کے ایوانِ باطل میں زلزلہ آگیاتھا۔
وہی شیخ الاسلامؒ جس کے تصور ہی سے دنیائے وہابیت لرزہ براندام ہوجاتی تھی۔
وہی شیخ الاسلامؒ جو غزالی دوراں بھی تھا،
جو اپنے زمانہ کا رازی بھی تھا، اپنے عصر کا رومی بھی تھا،
اپنے وقت کا ابن عربی بھی تھا وہ معلم اسباق بھی تھا اور مربی اخلاق بھی،
وہ مفتی بھی تھا اور محدث بھی،
وہ مفسر بھی تھا اور مفکر بھی،
وہ مصنف بھی تھا اور مولف بھی،
وہ خطیب بھی تھا اور ادیب بھی،
وہ فصیح بھی تھا اور بلیغ بھی،
وہ فقیہ بھی تھا اور وجیہ بھی اور اسکے ساتھ ساتھ
وہ صوفی با صفا بھی تھا اور عابد شب بیدار بھی،
وہ درسگاہوں کے گیسوئے تابدار کو سنوارنے کا سلیقہ بھی جانتا تھااور خانقاہوں کے رموز کا آشنا بھی۔
وہ علومِ شریعت کا بحرِ بیکراں بھی تھا اور معرفت کا دانائے راز بھی چنانچہ صاحبانِ فکر و نظر نے عینی مشاہدہ کیا ہے کہ ممدوحِ گرامی شیخ الاسلامؒ جب قرآن مجید کی تفسیر یااحادیث کی شرح بیان کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ گویا آپ کے لب سے حکمتوں کے پھول ہیں کہ جھڑرہے ہیں اور نکتہ سنجیوں کے جواہرات ہیں کہ لٹائے جارہے ہیں۔شیخ الاسلامؒ کا ایک مخصوص حلقہ تصوف ہوا کرتا تھا، جس میں عرصہ تک میرے والد ماجد حضرت سید الصوفیہ علیہ الرحمۃ الرضوان آپ کی سیدھی جانب بیٹھتے، حضرت محی الدین ابن عربی قدس سرہٗ کی مشہور و معروف عربی تصنیف، ’’فتوحات مکیہ‘‘ کا متن پڑھتے جاتے اور شیخ الاسلامؒ ایک ایک جملہ میں پنہاں تصوف و معرفت کے اسرارِ سر بستہ واشگاف کرتے جاتے۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا جیسے کہ آپ کا طائرِ عرفان لا مکانی بلندیوں پر پرواز کررہا ہے۔ سچ ہے ایسی تاریخ ساز اور عبقری شخصیتیں صدیوں میں کہیں جاکر پیدا ہوتی ہیں جنہیں قدرت نے بیک وقت کئی لازوال خوبیوں اور کمالات سے نوازنے میں بڑی فیاضی سے کام لیا ہو ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
آپ کی پاکیزہ زندگی کا مختصر جائزہ اس روشن حقیقت کو آشکار کردیتا ہے کہ سعادت مندی اور فیروز بختی ازل ہی سے آپ کے نصیب میں لکھدی گئی تھی۔ بتاریخ ۴؍ربیع الثانی ؍۱۲۶۴ ھ بمقام قندھار ضلع ناندیڑ، ایک عالمِ باعمل، متبعِ سنت اور بڑے پایہ کے بزرگ حضرت ابو محمد شجاع الدین صدر قاضی قندھار کے چشم و چراغ بنکر آپ اس خاکدانِ گیتی میں رونق افروز ہوئے جنکاشجرئہ نسب امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک جا پہنچتا ہے۔ شیخ الاسلامؒ کی والدہ محترمہ جو حضرت سیداحمد کبیر رفاعی قدس سرہ کی اولاد سے تھے، فرماتی ہیں:
’’میری شادی کے بعد ایک عرصہ تک اولادنہ ہوئی تو شمس الدین عرف یتیم شاہ نامی ناندیڑ ہی کے ایک مجذوب بزرگ سے رجوع ہونے پر خوشخبری ملی کے مجھے بہت جلد ایک لڑکا ہوگا جو بڑا عالم و فاضل ہوگا‘‘۔
علاوہ ازیں جب آثارِ حمل ظاہر ہوئے تو آپ کی والدہ ماجدہ نے خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ سب کچھ پیدا ہونے والے فرزند کے ارجمند و نیک اطوار ہونے اور آگے چلکر ہادی دین اور نقیبِ اسلام بننے کے واضح غیبی اشارے تھے۔ حفظِ قرآن کی بعمر گیارہ سال مکمل کرلینے اور بہت جلد معقولات منقولات اور جملہ علوم و فنون میں دستگاہ حاصل کرلینے کے بعد اٹھارہ برس کی عمر میں حاجی محمد امیر الدین محتسب بنولہ کی صاحبزادی سے ۱۲۸۲ ھ میں عقد فرمایا کچھ عرصہ بعد نظام سرکار کے محکمہء مالگزاری میں ’’خلاصہ نویسی‘‘ کی خدمات پر مامورہوئے۔ مگر چونکہ رب العزت نے آپ کو اس ملازمت کیلئے نہیں بلکہ دینی و علمی خدمات کے لئے پیدا فرمایا تھا آپ کی دینی غیرت وحمیت نے ملازمت سے مستعفی ہوجانے پر مجبور کردیا۔ جسکے بعد آپ نے اپنی ساری توجہ درس و تدریس کی جانب مرکوز فرمادی اور یہی آپ کی دینی وعلمی سرگرمیوں کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ دینی علوم کی اشاعت کے لئے ایک خالص مذہبی درسگاہ کے قیام کی جو تڑپ اور امنگ آپ کے سینہ میں کروٹیں لے رہی تھی آپ کے چند مخلص و ہمدرد رفقاء کے تعاون نے اس خواب کو ایک حقیقت بنادیا اور بتاریخ ۱۹؍ذی الحجہ؍۱۲۹۲ ھ مدرسہ نظامیہ کی بنیاد ڈالی گئی جو آپ کی خصوصی توجہ سے دن بدن ترقی کے زینے طئے کرتا چلا گیا اور بہت جلد اپنے اعلیٰ معیار کیلئے دور دور تک مشہور ہوگیا۔ یہی وہ ابتدائی درسگاہ تھی جو پروان چڑھتے ہوئے ایک اقامتی ’’جامعہ نظامیہ‘‘ کے نام و صورت میں علوم و معارف کا ایک روشن مینار بن گیا ہے جو شیخ الاسلامؒ کے تاریخی کئی کارناموں کے منجملہ ایک جیتی جاگتی یاد گاری تصویر ہے جہاں سے اب تک فارغ لاکھوں علماء فضلاء انوار اللہی چراغ بن کر نکلے اور دنیا کے کونے کونے میں اپنی تابانیاں پھیلا ئے اور پھیلاتے رہے ہیںاور اپنے اس عظیم مشن کی تکمیل کے دوران حائل ہر مشکل و آزمائش کا بڑی پا مردی سے مقابلہ کرتے ہوئے جی جان کی بازی لگادی ہے۔
صلیب و دار سہی دشت و کوہسار سہی
جہاں بھی تم نے پکارا ہے جاںنثار چلے
شیخ الاسلامؒ نے جملہ چار بار حج و زیارت نبوی کا شرف حاصل فرمایا۔ پہلے حج کے موقعہ پر شیخِ کامل حضرت حافظ امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہ سے بھی بیعت کر کے منازل سلوک طئے کئے اور بلا طلب تمام سلاسل میں خرقہ خلافت سے نوازے گئے۔ قبل ازیں خاندانی طور پر یہ نعمت عظمی آپ کو اپنے والد بزرگوار سے بھی عطا کی جاچکی تھی۔ آخری حج کے موقع پر کوئی تین سال تک آپ نے مدینہ منورہ میں قیام فرمایا وہاں آپ کا زیادہ تر وقت یا تو روضہ نبوی میں گزرتا یا پھر حرم شریف کے کتب خانہ میں بیٹھے مطالعہ میں صرف ہوتا۔ اسی دوران آپ نے کئی نادر و نایاب قلمی کتب کی نقول حاصل کیں جو بعد میں دائرۃ المعارف حیدرأباد سے شائع بھی ہوچکی ہیں۔ آپ کی معرکۃ الارا تصنیف ’’انوار احمدی‘‘ اسی زمانہ کی یاد گار ہے جو عظمتِ مصطفی و عشقِ رسول کاایک ایسا بے مثال شہکار ہے کہ اسکے ایک ایک ورق وسطر بلکہ ایک ایک لفظ و حرف سے محبتِ رسول کی ایسی خوشبو مہکتی ہے جو قاری کے مشام جان و ایمان کو معطرو معنبر کر دیتی ہے۔ مدینۃ الرسول میں قیام ہی کے دوران آپ کو عالم رؤیا میں سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی تو حضور اکرم ا نے آپ کو حکم دیا
’’انواراللہ! حیدرآباد واپس جاؤ اور مدرسہ سے اشاعت علوم و دین کے کام کو دوبارہ جاری کرو‘‘۔
چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں وطن واپس ہوگئے لیکن دیارِ حبیب کی یاد اس قدر ستاتی کہ بظاہر آپ کا جسم تو دکن میں تھا مگر آپ کی روح، گنبد خضرا کی تھنڈی چھاؤں میں چلتی پھرتی محسوس ہوتی تھی۔
شیخ الاسلامؒ کے علمی فیضان سے کیا امیر کیا غریب اور کیا راجہ کیا پرجا سب ہی سیراب ہوتے جہاں عامۃ المسلمین جامعہ نظامیہ میں علوم سے آراستہ ہوتے رہے تو وہیں آپ پہلے آصف سادس کے پھر آصف سابع اور ان کے شہزادوں کے عرصہ تک استادو اتالیق رہے اور یہ آپ ہی کی علمی برکت اور فیض نظر کااثر تھا جس نے سلطان دکن کو سلطان العلوم بنادیا۔ آصفجاہی حکمرانوں کی تین پشتوں پر آپ کے علمی احسانات کے اس منفرد اعزاز کی قدر افزائی یوں ہوئی کہ ’’خان بہادر‘‘ اور ’’فضیلت جنگ‘‘ کے خطابات سے دربارِ آصفی میں نوازے گئے۔ یہی نہیں بلکہ امورِ مذہبی کی نظامت اور وزارت پھر صدر الصدور اور شیخ الاسلامؒ کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بھی فائز کئے گئے۔ اس دوران اپنا پورا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے آپ نے دینی سماجی اور اخلاقی اصلاحات کے کئی کارہائے نمایاں انجام دئے۔ ایک مصلح قوم کی حیثیت سے عامۃ المسلمین کو جہالت ، بدعات اور گمراہی و ضلالت کے قعرِ مذلت سے نکالا اور بے دینی و بد عقیدگی کی تاریکیوں کو چھاٹ کر، امت مرحومہ کو اسلام کے حقیقی اجالے میں لاکھڑا کیا۔
چنانچہ تمام سرکاری مدارس میں دینیات کی تعلیم کا لزوم، شہر اور دیہاتوں میں واعظین کے خطابات، دینی لٹریچر کی غیر مستطیع مسلمانوں میں مفت تقسیم، پیش امام خطیب، موذن، ملا اور قاضی وغیرہ خدمات شرعیہ کیلئے مثالی نصاب امتحان کی تدوین اور اس میں کامیابی کے بعد ہی تقررات، مساجد او ردرگاہوں کی تعمیر و تحفظ، سجادگان و متولیان میں اہلیت پیدا کرنیکا دستور اور انکی اولاد کی جامعہ میں مفت تعلیم، دارالافتاء کا قیا م، شعبہ قضاء ت کا نظم، عقد نکاح کا نمونہ سیاہہ کی ترویج،سیاہجات نکاح کے ریکارڈ کا تحفظ اور انکی نقول کی اجرائی کاطریقہ کار، شریعت کے مطابق میت کی تجہیز و تکفین کے لئے تربیت یافتہ غسالوں کا اور مسلخ میں ذبیحہ حلال کرنے مستند ملاؤں کا تقرر، محکمہ صدارت العالیہ، کتب خانہ آصفیہ جو اب اسٹیٹ سنٹرل لائبریری کے نام سے موسوم ہے نیز دائرۃ المعارف عثمانیہ وغیرہ اداروں کا قیام حضرت فضیلت جنگؒ کے تنظیمی اور تجدیدی کا رناموں کے وہ شہہ پارے ہیں جن کے پر انوار نقوش، انقلابات زمانے کے باوجود آج تک زندہ، تابندہ اور پائندہ ہی نہیں بلکہ ہر کسی کیلئے ایک قابل تقلید نمونہ بھی ہیں۔
جہاں تک سماجی اور اخلاقی سدھار کا تعلق ہے مسکرات اور نشہ آوری کا تدارک، اولیاء اللہ کے مزارات پر مینابازار وغیرہ خرافات پر پابندی، ماہ صیام میں روزہ کے وقت علانیہ کھانے پینے پر ممانعت اور بطور احترام ہوٹلوں اور طعام خانوں پر پردے آویزاں کرنے کے لزوم اور ایسے ہی دیگر کئی مستحسن شرعی اقدامات حضرت شیخ الاسلامؒ ہی کی فکرِصالح کی بدولت عام مسلمانوں کا دینی مزاج بنتا اور نکھر تا گیا نیز احترام شریعت کا شعور بیدار ہوگیا۔
شیخ الاسلامؒ کی گراں بہا تصنیفات نے بھی تجدید و احیائے دین کے مقصد میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ نے کئی علوم و فنون پر اپنے قلمی شاہکار چھوڑے ہیں جو پچاس کے لگ بھگ ہیں جن کے منجملہ چند تصنیفات کا مختصر سا تذکرہ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ آپ نے جس کسی علمی و فنی عنوان پر قلم اٹھایا تو ایسے گوہر آبدار بکھیر دئے کہ صاحبان ذوق اور ماہرین فن کی آنکھیں خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ تفسیر، حدیث یا فقہ ہو کہ انکے اصول، عقائد ہو کہ کلام، ادب ہو کہ تاریخ، منطق ہو کہ فلسفہ غرض معقول ہو کہ منقول ہر علم و فن پر آپ کی کتب اور حواشی ایسے درشہوار بن کر آج بھی جگمگارہے ہیں کہ جن کو اہل علم و دانش اپنی آنکھوں اور کلیجے سے لگا تے ہیں۔
ایک گمراہ فرقہ کی جانب سے علم فقہ کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے مسلمانوں میں فقہ سے دوری ونفرت پیدا کرنے اور فقہاء کی شان میں اہانت و گستاخی کرنے کی ایک منصوبہ بند سازش سامنے آئی تو بانی جامعہ نظامیہ نے بروقت ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ کے ایک سے دو جلدوں میں فقہ پر جملہ اعتراضات کا قرآن و حدیث کی روشنی میں اور عقلی و نقلی استدلال کے ساتھ مسکت اور دندان شکن جواب دیکر معترضین کو لاجواب کردیا اور سادہ لوح مسلمانوں کو دینی گمراہی سے بچا دیا۔
مرزا غلام احمد کے قادیانی مذہب کا فتنہ جب سر اٹھا نے لگا تو شیخ الاسلامؒ نے قادنیت کے رد میں ’’افادۃ الافہام‘‘ جیسی بے نظیر کتاب تصنیف کر کے قادیانی مذہب کا اصلی چہرہ جب بے نقاب کردیا تو اس فتنہ کی خود بخود سر کربی ہوگئی۔
گیارہ حصوں پر مشتمل مقاصد الاسلام بھی آپ کی وہ عظیم الشان تصنیف ہے جس میں تہذیب وتمدن سے لیکر سیر وتاریخ جبر و قدر سے جزاء و سزا ء تک اور ولایت کی حقیقت سے معجزہ کے اثبات تک مختلف النوع موضوعات پر سیر حاصل معلومات جمع کی گئی ہیں۔ آپ کی کتاب ’’شمیم الانوار‘‘ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ فن شاعری میں بھی آپ کو ید طولی حاصل تھا۔ آپ کے اشعار نعتیہ میں خصوصا جہاں ایمان کی شیرینی و حلاوت ملتی ہے وہیں عشق و مستی اور جذب و وارفتگی بھی اپنے کمال پر دکھائی دیتی ہے۔ خصوصا(58)بند پر مشتمل آپ کی ایک طویل نظم میں تو عظمتِ رسول اور اختیارات مصطفی کے جو انوارچمکتے اور جگمگاتے ہیں اس کے صرف پڑھنے سے عشق رسول کا ایک سمندر سینہ میں موجزن ہوجاتا ہے کیونکہ اسکا ہر شعر محبت و اخلاص کا آئینہ دار اور عشق و عقیدت سے لبریز ہے پھر خوبی یہ کہ ہر جاادب و احترام رسالت کا پاس ولحاظ بدرجہء اتم پایا جاتا ہے۔ کیوں نہ ہو آپ کا ہر قدم اتباع سنت رسول میں اٹھتا تھا۔ آپ نے رسول کی کئی مردہ سنتوں کو زندہ کر کے خود کو زمرئہ شہیداں میں شامل کرلیا اور زندئہ جاوید بن گئے۔ ۷۲ سال کی عمر میں بتاریخ 29/جمادی الاولی 1336ہجری دنیائے فانی سے آپ نے پردہ فرمایا۔
ابرِرحمت تیری مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شانِ کریمی نازبر داری کرے
آخر میں انجمن اشاعت العلوم کے ذکرِ جمیل کے بغیر یہ مقالہ نامکمل رہ جائے گا جسکا مقصد اشاعتِ دین کے لئے کتب کو طباعت کے زیور سے آراستہ کرنا تھا اور جسکی تکمیل شیخ الاسلامؒ ہی کے ذاتی صرفہ سے ہوتی تھی۔ ایک عرصہ تک اس انجمن نے شاندار کا م کیا ہے لیکن آجکل کے دور پر فتن میں جبکہ آپ کی تصنیفات کی پہلے سے زیادہ ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ اربابِ انجمن و جامعہ سے دور حاضر کے تقاضے پر زور مطالعہ کرتے ہیں کہ اس انجمن میں نئی روح پھونک کر اسے پھر سے متحرک، فعال اور سرگرم ادارہ بنایا جائے تاکہ شیخ الاسلامؒ کے سارے علمی شہ پارے زیورطبع سے آراستہ ہو کر عرب و عجم کی لائبریریوںتک پہنچ سکیں اور جس کے مطالعہ سے اہل دانش و بینش کو شیخ الاسلامؒ کی قدر آور علمی شخصیت، انفرادیت اور عبقریت کا کچھ اندازہ ہوجائے۔
گفتگو مختصر ! شیخ الاسلامؒ کا وجود ملت کی زندگی کے تمام نشیب و فراز میں ایک مخلص نقیب، ایک مصلح قوم، ایک معمارِ ملت اور ایک مجددِدین بنکر احساس و جدان پر چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ کے علم وفضل کی آفاقیت ، آپ کے تجدیدی و اصلاحی کارناموں کی ہمہ گیری نے نہ صرف اپنی سطوت کا لوہا منوالیا بلکہ ایسے گہرے،انمٹ اور روشن نقوش چھوڑے ہیں جو کبھی مٹ نہیں سکتے۔ بلکہ رہتی دنیا تک جگمگاتے رہیں گے۔ لہذا بے ساختہ ہماری زبا ن پر آپ کیلئے دعا و تشکر کے یہ کلمات خود جاری ہوجاتے ہیں۔
شیخ الاسلامؒ کے تاریخ ساز ہر کام کو ہمارا سلام، انوار اللہ فاروقی کے ساتھ چمکتے انوار کو ہمارا سلام۔ فضیلت جنگ کی ہر فضیلت کو ہمارا سلام۔ امامِ اہل سنت کی سنیت و امامت کو ہمارا سلام۔ آپ کی مثالی وجاہت کو ہمارا سلام ۔ اور آپ کی پاکیزہ روحانیت کو ہمارا سلام۔ ’’خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را‘‘
بڑا ہی کام لیا میں نے خوش بیانی سے
جمال یار کی زیبائیاں بیاں نہ ہویں
٭٭٭