اسلام
جہان نعت کا روشن ستارہ اظہاراشرف غلام ربانی فداؔ
جہان نعت کا روشن ستارہ اظہاراشرف
غلام ربانی فداؔ
مدیراعلیٰ جہان نعت ہیرور(کرناٹک)
www.gulamrabbanifida.com.nu
www.jahanenaat.com.nu
حضرت شیخ اعظم اظہاراشرف صاحب جواردوادب کے ان چند اچھے صوفی ونعت گو شعرا میں سے ہیں جن کا شمار استادوں میں کیا جاسکتا ہے۔آپ کی نعتیہ شاعری پرلکھنا میری بساط نہیں تھی مگر مولانا محمداحمدصاحب نعیمی اشرفی کے حکم پراپنے سادات کچھوچھہ سے قلبی ارادت کے بنیاد اس امید کے ساتھ تحریرکررہاہوں کہ وہ رحم کھاکرمجھ سے عصیاں کارکے لئے کرم کاٹکڑاڈال دیں گے ۔آپ کوشاعری وراثت میں ملی ہے آپ کے جدامجد حضرت مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ بھی شاعر تھے۔آپ کا شعری دیوان دیوان اشرف اب ناپیدہے۔کتب سیروتصوف میں چیدہ چیدہ اشعارملتے ہیں۔اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ بھی اردو،عربی ،فارسی پربھی کامل دسترس رکھتے تھے۔آپ کا مجموعہ کلام ۔تحائف اشرفی اہل ذوق کے دامن دل کواپنے جانب کھینچتاہے۔
سرزمین کچھوچھاہمیشہ ہی سےشعراادبااوراہل علم کاگہوارہ رہاہے،یہی وجہ ہے کہ اس زمانے سے لے کر آج تک یہاں شعرا ادبا اور صاحب تصنیف و تالیف موجود ہیں۔
حضرت اظہاراشرف علیہ الرحمہ بر صغیر پاک و ہند کی شناخت بن کر ساری دنیا میں اس طرح شہرت حاصل کر چکے ہیں کہ تمہیداًبھی اب کسی تعارف وتبصرے کی ضرورت نہیں ۔لیکن علم کا خاصہ ہے کہ وہ مسلمات کو بھی اپنے عہد کے مزاج اور شعور کے مطابق پرکھتاہے اور اپنے نئے حوالے سے ان کا تعین کرتا ہے اور انسانی ذہن کو مائل کرتاہے اسی لئے نادر عصر اور نابغہء روزگار شخصیات کے کردار و افکار کو دہرایاجاتاہے کہ اس طرح زندگی کا حر کی ونامیاتی تسلسل نہ صرف قائم رہے بلکہ ارتقائی منازل کی سمت گامزن نظر آئے۔
حضرت اظہاراشرف علیہ الرحمہ ایک متجر عالم و ایک عبقری شخصیت اور عاشق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تھے۔ علوم قدیمہ وجدیدہ میں سے شاید ہی کوئی شعبہئ علم ہو جس پر آپ کو مکمل طورپر فوقیت حاصل نہ ہو ساتھ ہی ساتھ آپ کی زندگی کا یہ پہلو بہت اہم ہے کہ آپ کی دانش و علم کا محور عبادت گاہیں اور مدرسے ہی نہیں تھے بلکہ آپ کی نگاہ برصغیر کے علاوہ پوری دنیا کی سیاست پر بھی تھی اور تہذیب کے تغیرات کو بھی آپ نے صحیح تناظر میں دیکھ کر ایسے نتائج مرتب کیے جو غور وفکر کرنے والوں کی ہمیشہ رہنمائی کرتے رہیں گے۔ حضرت اظہاراشرف علیہ الرحمہ کا پیام اور طرزِ کلام بھی اپنے معاصرین سے مختلف تھا۔ آپ نے نعتیہ شاعری اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل وفضائل ہی سے سروکار رکھااور اسی میں شاعری کے لئے نادر نمونے پیش کئے ۔
نعت گوئی ایک نازک صنف سخن ہے۔ یہ فن شاعری کی پل صراط ہے۔ خدا اور بندے کا فرق اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے۔ یہاں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اردو کے بعض شعرا اس پل صراط سے سلامتی کے ساتھ نہیں گذرسکے لیکن جناب اظہار اشرف صاحب نے ایسے موقع پر بہت ہی احتیاط سے کام لیتے ہوئے اپنے ایمان و عقیدے کی حفاظت کرتے ہوئے اس فن کا بہت ہی مہارت سے استعمال کیاہے۔آپ الوہیت اور عبدیت کے فرق کو بخوبی سمجھتے اورجانتے ہیں اور رسالت مآب کی عظمت و جلات کا بھرپور شعور بھی رکھتے ہیں۔اس لئے آپ کی نعتوں میں کہیں کوئی بے راہ روی نہیں پائی جاتی۔ آپ نے نعت گوئی کو ایک منفرد لب ولہجہ دیا ہے۔ وہ اشعار بھی جس میں براہِ راست نعتیہ مضامین نہیںآئے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذات و صفات کی تجلی سے منور نظرآتے ہیں۔سادہ بیانی اور لب ولہجہ کی انفرادیت اس پر مستضاد ہیں
اظہاراشرفکی نعت گوئی میں کوئی بناوٹ و تصنع نہیں ہے ۔ لب و لہجہ بالکل صاف ستہرا، آسان اور عام فہم ہے۔الفاظ و جملوں کی ترکیب سے خلوص و محبت ٹپکتی ہے نمونہ دیکھئے:
نگاہِ لطفِ پیہم سے ہمیں کیا کیا نظر آیا
جِدھر دیکھا اُدھر سرکار کا جلوہ نظر آیا
زباں کس کی ہے جوبتلاسکے گی شان آقاکی
جو قرآں اور رسولوں میں سدایکتا نظرآیا
ہوا پرشوق دل پرجب کرم سرکار بطحا کا
تو دیکھا قلبِ مضطر کو تِرا شیدا نظر آیا
ہیں وہ محبوبِ رب ثانی نہیں ہے انکا عالم میں
کہ جنکے نقشِ پا کا خلد بھی صدقہ نظر آیا
جب ہم اظہاراشرف صاحب کا نعتیہ کلام دیکھتے ہیں تویہ احساس ہوتا ہے کہ آپ کو رسالت مآب ﷺ سے قلبی لگاؤ ہے، آپ کو شہر مدینہ سے اس طرح محبت و عقیدت ہے کہ اس کا اثر آپ کے اشعار میں بجا طور پر نمایاں ہے ایک نعت کے کچھ اشعار دیکھیں:
طیبہ کی زمیں کتنی حسیں مجھکو لگے ہے
جیسا کہ یہیں خلدِ بریں مجھکو لگے ہے
رکھا جو قدم سیدِ کونین نے اپنا
بول اٹھی فضا عرشِ بریں مجھکو لگے ہے
ایمان جو لائے ہیں ترے دستِ کرم پر
جنت کے وہی اصل مکیں مجھکو لگے ہے
بے ساختہ دل سے کبھی جب ان کو پکارا
رحمت تِری معلوم یہیں مجھکو لگے ہے
اغیار صداقت اور امانت کے تھے قائل
نہ ماننا شیطاں کے قریں مجھکو لگے ہے
اظہار اشرف صاحب دیگر شعرا کی طرح اپنے نعتیہ کلام میں نبی کا وسیلہ وواسطہ کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں نمونہ کے طور پر ایک شعر دیکھیں:
میںجانتاہوں حشرمیں تیرا کرم ہے خاص
تیراکرم ہے کافی گنہگار کے لئے
اظہار اشرف صاحب نے خواجہ الطاف حسین حالی اوردیگر شعراکی طرح رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے عشق و شیفتگی کے ذکر کے ساتھ ملت کا اجتماعی حال بھی درد کی زبان میں بیان کیا ہے ، اس اعتبار سے آپ حالی کے شریک حال اور ہم زبان و ہم خیال ہیں۔آپ نے کئی ایک طویلنظمیں بھی تحریرفرمائے ہیں۔،، یوں مخاطب ہیں:
وہی طیبہ نگر ہے وہی طیبہ نگرہے
جو ہجرت گاہ سرکار دوعالم
جہاں سے نکلا ہے اسلامی پرچم
جہاں پر ہوگئے شاہوں کے سرخم
جہاں پر مسجدِ اول ہے قائم
وہی طیبہ نگر ہے وہی طیبہ نگر ہے
جہاں پر نعت کا پہلا ترانہ
پڑھا طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْناَ
جہاں مشتاق تھے اہلِ مدینہ
بنا ہجرت سے اسلامی مہینہ
وہی طیبہ نگر ہے وہی طیبہ نگرہے
جہاں قائم ہوئی پہلی عدالت
جہاں سے بڑھ گئی اسلامی شوکت
جہاں سے مٹ گئی ہے ساری ظلمت
جہاں سے پالیا سب نے ہدایت
وہی طیبہ نگر ہے وہی طیبہ نگرہے
جہاں مدنی مہاجر سب ہیں بھائی
جہاں آقا نے بخشی رہنمائی
جہاں ہر دل نے پائی ہے صفائی
جہاں پر ہوگئی فطرت جمالی
وہی طیبہ نگرہے وہی طیبہ نگر ہے
جہاں آئیں حضوری کو فرشتے
جہاں سے پاتے ہیں ہر ایک رتبے
جہاں پر زندگی کا رنگ بدلے
جہاں دل کو سکوں ہر ایک پائے
وہی طیبہ نگر ہے وہی طیبہ نگرہے
جہاں پرکیف دن ہے اور راتیں
جہاں رحمت کی ہیں پیاری بہاریں
جہاں بندوں کو ملتی ہیں عطائیں
جہاں آکر مَلک صلٰوۃ بھیجیں
وہی طیبہ نگر ہے وہی طیبہ نگرہے
مجموعی طور پرحضرت اظہاراشرف علیہ الرحمہ کی نعتیہ شاعری عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آئینہ داری کرتی ہے ایک ایک لفظ میں محبت و شیفتگی ہے۔ لیکن پاسِ ادب ہر جگہ ملحوظ ہے۔ عشقیہ کیفیات کے ساتھ ساتھ کردار و سیرت کو سنوارنے، بہتر انسان اور بہتر مسلمان بننے، دنیا کی حرص و ہوس سے دور رہنے، فریب ِحیات سے نکل کر ایک ابدی حقیقت سے ہمکنار ہونے کے مضامین بھی آپ کی نعتیہ شاعری میں کثرت سے ملتے ہیں۔ خود داری، استغنا،بے نیازی، قناعت و توکل اور ایک در کا گدابنے رہنے کا اعزاز حضرت اظہاراشرف علیہ الرحمہ کی نعت گوئی کا حاصل ہے ۔جناب اظہاراشرف کے یہاں ملی شعور کتنا گہرا ہے جب یہ حضور کی شان میں نعت کہتے ہیں تو حضور کی امت کا خیال بھی ان کے پردئہ شعور پر رہتا ہے اور ان کا حساس دل اس امت کی بیچارگی، کس مپرسی اور سرافگندگی پر تلملا اٹھتا ہے اور یہ احساس دل کے ساز کو چھیڑتا ہے اور فکرو ہنر کو مہمیزکرتا ہے۔ منیر شکوہ آبادی، شورش کاشمیری ماہر القادری اور کلیم احمد عاجز کی طرح جناب اظہار اشرف کے نعتیہ کلام میں ایسے آبدار شعر ملتے ہیں جن میں ملت کا دردوغم سمویا ہوا ہے۔
جناب اظہار اشرف صاحب نعت گوئی کے علاوہ غزل، منقبت، نظم ، مرثیہ ہمیشہ سے لکھتے رہے ہیں۔آپ کو علم عروض پردسترس حاصل ہے ۔ آپ نے اپنے کلام میں چھوٹی اور طویل دونوں بحروں کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ چھوٹی بحرمیں:
مرے سرکار کی خدائی ہے
جس طرف دیکھو مصطفائی ہے
جس نے دل میں بسایا عشقِ نبی
پھر خزاں سے بہار پائی ہے
ذکرِ سرکار لب پہ جب آئے
پھر تو تقدیر جگمگائی ہے
کام بنتے ہیں جب یہ کہتا ہے
یا نبی آپکی دہائی ہے
روزِ محشر درود کا تحفہ
میری بخشش کی یہ کمائی ہے
جو نبی کا غلام ہو جائے
اسکی اللہ تک رسائی ہے
طویل بحر میں یہ اشعار دیکھے جاسکتے ہیں:
ہر بلندی پہ رب نے کیا ہے بلند میرے آقا کی رفعت کا کوئی نہیں
شان محبوبیت میں ملا وہ مقام بالیقیں ان کی عظمت کا کوئی نہیں
انبیاء ہر زمانے میں آتے رہے میرے آقا کی سیرت بتاتے رہے
جو نبی اور رسولوں میں ممتاز ہو ان کی بے مثل شوکت کا کوئی نہیں
یوں ہدایت کا جاری رہا سلسلہ ایک کے بعد آتے رہے انبیا
سارے نبیوں کی صرف ایک مدت رہی میرے آقا کی مدت کا کوئی نہیں
قرب معبود کا یوں ملا ہے شرف بندوں کو رب نے ایسانواز کیا
شاہ کون و مکاں کو ملا وہ شرف آپ کی ایسی قربت کا کوئی نہیں
جس نے سرکار کامیرے کلمہ پڑھا ساری امت میں خیر الامم ہو گئے
ایک نسبت سے ایسا کرم ہو گیا اس لیے ایسی نسبت کا کوئی نہیں
حضرت اظہاراشرف علیہ الرحمہ کی نعتیہ شاعری جذبہ وعقیدت کے ایک حسین مُرقّعے کے علاوہ لسانی اعتبار سے بھی ایک علیحدہ مطالعے کی طرف مائل کرتی ہے۔عر بی و فارسی پر اس قدر دسترس ہونے کے باوجود آپ نے کلام کو کہیں بوجھل نہیں ہونے دیا۔ اکثر مقامات پر عام بول چال کی زبان، عام محاورے اور الفاظ بڑی خوبی سے استعمال کیے ہیں۔ اشعار میں لہجے کا ایک خاص التزام ہے جس کو بر قرار رکھے بغیر کلام کالطف اٹھانا اور مضامین کے نکات کو پاناممکن نہیں ہے۔
آپ کی نعتیہ شاعری کے مطالعے سے جہاں ذوقِ شاعری اور لطف کا سامان فراہم ہوتا ہے وہیں افکار و جذبات کی ترتیب کا پہلو بھی نکلتا ہے لیکن ہر جگہ شاعری کی لطافتیں اور نزاکتیں غالب رہتی ہیں۔کہیں بھی و عظ و نصیحت کا پیرایہ نہیں، دراصل یہ کلام سربسر ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وارداتِ روحانی ہے۔ جس کو اس کے سیاق و سباق میں پڑھنے سے ایک سرورحاصل ہوتا ہے ۔اور پڑھنے والا خود کو اس واردات ِروحانی میں شریک محسوس کرنے لگتا ہے۔