ضروری تنبیہ

یاد رکھو کہ مال کمانے کی بعض صورتیں جائز ہیں اور بعض صورتیں ناجائز ہیں ہر مسلمان پر فرض ہے کہ جائز طریقوں پر عمل کرے اور ناجائز طریقوں سے دور بھاگے اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ۔
    لاَ تَأکُلُوۤا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ۔
    ،،یعنی آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق مت کھاؤ،،۔    (پ5،النساء:29)
    دوسری جگہ قرآن مجید میں رب تعالیٰ نے فرمایا کہ۔
کُلُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ حَلٰـلًا طَیِّبًا ۪ وَّاتَّقُوا اللہَ الَّذِیۡۤ اَنۡتُمۡ بِہٖ مُؤْمِنُوۡنَ ﴿88﴾
    ،،یعنی اﷲ تعالیٰ نے جو روزی دی ہے اس میں سے حلال و طیب مال کو کھاؤ اور اﷲ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو،،۔(پ7،المآئدۃ:88)
    ان آیتوں کے علاوہ اس بارے میں چند حدیثیں بھی سن لو۔
حدیث:۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ پاک ہے اور وہ پاک ہی پسند فرماتا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا چنانچہ اس نے اپنے رسولوں سے فرمایا کہ۔
یٰاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا۔
 (صحیح مسلم،کتاب الزکاۃ،باب قبول الصدقۃ من الکسب۔۔۔الخ، رقم۲۳۰۱، ص ۶ ۵۰، پ۱۸،المؤمنون:۵۱)
    ،،یعنی اے رسولو! حلال چیزوں کو کھاؤ اور اچھے عمل کرو،،۔
    اور مومنین سے فرمایا کہ۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ
یعنی اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تم کو دیا اس میں سے حلال چیزوں کو کھاؤ۔(پ2،البقرۃ:172)
اس کے بعد پھر حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا کہ ایک شخص لمبے لمبے سفر کرتا ہے جس کے بال پر اگندہ اور بدن گرد آلود ہے (یعنی اس کی حالت ایسی ہے کہ جو دعا مانگے وہ قبول ہو) وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یارب یارب کہتا ہے (دعا مانگتا ہے) مگر اس کی حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام اس کا پینا حرام ا س کالباس حرام اور غذا حرام ہے پھر اس کی دعا کیونکر مقبول ہو (یعنی اگر دعا مقبول ہونے کی خواہش ہو تو حلال روزی اختیار کرو کہ بغیر اس کے دعا قبول ہونے کے تمام اسباب بیکار ہیں)  (مشکوۃالمصابیح،کتاب البیوع،باب الکسب وطلب الحلال،رقم۲۷۶۰،ج۲،ص۱۲۹)
حدیث:۔حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ حلال کمائی کی تلاش بھی فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے۔  (شعب الایمان،باب فی حقوق الاولاد ولأھلین،رقم۸۷۴۱،ج۶،ص۴۲۰)
حدیث:۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كا ارشاد ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی پرواہ نہیں کریگا کہ اس مال کو کہاں سے حاصل کیا ہے حلال سے یا حرام سے؟  (صحیح البخاری،کتاب البیوع،باب من لم یبال من ۔۔۔الخ،رقم۲۰۵۹،ج۲،ص۷)
حدیث:۔حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو بندہ حرام مال حاصل کرتا ہے اور اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لئے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے (یعنی مال کی تین حالتیں ہیں اور
حرام مال کی تینوں حالتیں خراب ہی ہیں)
 (مشکوۃالمصابیح،کتاب البیوع،باب الکسب وطلب الحلال،الفصل الثانی،رقم۲۷۷۱،ج۲،ص۱۳۱)
حدیث:۔چوری، ڈاکہ، غصب، خیانت، رشوت، شراب، سینما، جوا، سٹہ، ناچ، گانا، جھوٹ، فریب، دھوکابازی، کم ناپ تول، بغیرکام کئے مزدوری اور تنخواہ لینا، سود وغیرہ یہ ساری کمائیاں حرام و ناجائز ہیں ۔
حدیث:۔جس شخص نے حرام طریقوں سے مال جمع کیا اور مرگیا تو اس کے وارثوں پریہ لازم ہے کہ اگر انہیں معلوم ہو کہ یہ فلاں فلاں کے اموال ہیں تو ان کو واپس کردیں اور نہ معلوم ہو تو کل مالوں کو صدقہ کردیں کہ جان بوجھ کر حرام مال کو لینا جائز نہیں۔  (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس عشر فی الکسب،ج۵،ص۳۴۹)
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمان کو لازم ہے کہ ہمیشہ مال حرام سے بچتا رہے حدیث شریف میں ہے کہ مال حرام جب حلال مال میں مل جاتا ہے تو مال حرام حلال کو بھی برباد کر دیتا ہے اس زمانے میں لوگ حلال و حرام کی پرواہ نہیں کرتے یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے لیکن بہر حال ایک مسلمان کے لئے حلال و حرام میں فرق کرنا فرض ہے اوپر تم یہ حدیث پڑھ چکے ہو کہ خدا کے فرائض کے بعد رزق حلال تلاش کرنا بھی مسلمان کے لئے ایک فریضہ ہے۔
Exit mobile version