غرض غایت اشرف المخلوقات

غرض غایت اشرف المخلوقات

( از حضرت مولیٰنا مولوی سید مقبول احمد شاہ قادری کشمیری مدظلہ تعالیٰ )

وما خلقت الجن والانس الایعبدون ۔ 
جن اور آدمی میں صرف اپنی عبادت ہی  کے لئے پیداکیا ہے ، ہر شخص تھوڑی سی عقل رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ جو چیز جس کام کے لئے بنائی جائے اگر اس کام میں نہ آئے تو بیکار ہے ، جو انسان اپنے خالق اور مالک کو نہ پہچانے اس کی بندگی اور عبادت نہ کرے وہ نام کا آدمی ہے ، بحقیقتاً آدمی نہیں ہے 

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اور اس سے فلاح دنیوی اور نجات اخروی ہے ، عبادت کی اصل ایمان ہے بغیر ایمان کے عبادت بیکار ہے ، کہ جڑ ہی نہ ہو تو نتائج کہاں سے سے مترتب ہو سکتے ہیں ؟ درخت اسی وقت پھول پھل لاتاہے کہ اس کی جڑ قائم ہو ، جڑ سے جدا ہونے کے بعد آگ کی خوراک بن جاتا ہے ، اسی طرح کافر لاکھ عبادت کریں اس کا سارا کیا برباد اور وہ جہنم کا ایندھن ہوجاتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، کافروں نے جو کچھ کیا ہم ان کے ساتھ یوں پیش آئیں کہ اسے بکھرے ہوئے ذرات کی طرح کردیں ، اسی طرح ان لوگوں کی عبادت بھی اکارت اور ضائع ہوجاتی ہے ، جو زبان سے کلمہ شریف پڑھتے ہیں اور روزہ بھی رکھتے ہیں مگر دل میں تصدیق نہیں ، یا کسی ضرورت دین میں سے کسی ایک ضرورت کا انکار کرتے ہیں جب کہ سب عبادت کا دارو مدار ایمان پر ہے ۔
لہٰذا ہم نے چند باتیں ایمان اور عقائدکے متعلق پہلے لکھ چکے ہیں ، ہر مسلمان کا لازم ہے کہ عبادت کے اقسام اور ارکان جانیں ، کہ بدوں علم کے عمل کرنا محال ہے ، اسی وجہ سے علم دین سیکھنا فرض ہوا ، لہٰذا ہم نے پہلے لکھ دیا ہر مسلمان عاقل بالغ خواہ مرد ہو یا عورت ، اس قدر علم دین سیکھنا فرض اور اس قدر واجب وغیرہ آدمی جب مسلمان ہو لیتا تو اس کے ذمہ دو قسم کے عبادتیں فرض ہوئی ہیں ، ایک وہ کہ جوارح سے متعلق ہے م دوسرے جس کا تعلق قلب سے ہے ، اس دوسری قسم کے احکام و اوصاف علم سلوک میں بیان ہوتے ہیں ، قسم اول سے علم فقہ بحث کرتا ہے اور میں یہاں صرف قسم اول ہی کو بیان کرنا چاہتاہوں ، پھر جس عبادت کو جوارح یعنی ظاہری بدن سے تعلق رکھتے ہیں وہ دوقسم پر ہیں ، یا وہ معاملہ جو بندے اور خاص ان کے رب کے درمیان ہو ، بندوں کے باہمی کسی کام کا بناؤ یا بگاڑ نہ ہو ، ہر شخص اس کے ادا میں مستقل ہو ، جیسا پانچ وقت کی نماز اور روزہ کہ ہر ایک مسلمان بالا شرکت دوسرے کے ادا کر سکتا ہے ، اس کو عبادت کہتے ہیں ، عبادت میں اگر چہ کوئی دینوی نفع بظاہر مترتب نہیں ہوتا ، مگر معاملات میں دنیوی فائدے ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہی پہلو غالب ہے اور دونوں کے دونوں عبادت ہی ہیں کہ معاملات بھی اگر خدااور رسول کے حکم کے مطابق کئے جائیں تو استحقاق ثواب ہے ورنہ گناہ اور سب عذاب ہے ۔
عبادت چار ہیں ، نماز، روزہ ، زکوٰۃ اور حج ان میں اہم اور اعظم نماز ہے ، اور اور یہ عبادت اللہ عزوجل کو بہت محبوب ہے لہذا ہم کو چاہئے کہ سب سے پہلے اسی کو بیان کریں مگر نماز پڑھنے سے پہلے نمازی کا طاہر اور پاک ہونا ضروری ہے کہ طہارت نماز کی کنجی ہے ، لہٰذا پہلے طہارت کے مسائل بیان کئے جائیں گے ، اس کے بعد مسائل نماز بیان ہوں گے نماز کے لئے طہارت ایسی ضروری چیز ہے کہ اس کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں بلکہ جان بوجھ کر بے طہارت نماز ادا کرنے کو علماء کفر کہتے ہیں ، کیوں کہ نہ ہو کہ اس بے وضو یا بے غسل نماز پڑھنے والے نے عبادت کی بے ادبی اور توہین کی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی طہارت ہے ، ( مسند امام احمد حنبل ) حدیث ترمذی شریف میں آیاہے ، فرمایانبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے طہارت نصف ایمان ہے طہارت دو قسم کے ہیں ، طہارت صغریٰ ، طہارت کبریٰ ، طہارت صغریٰ وضو کو کہتے ہیں ، اور طہارت کبریٰ غسل کو ، جن چیزوں سے صرف وضو لازم ااجائے ان کو حدث اصغر کہتے ہیں ، اور جن چیزوں سے غسل لازم آجائے ان کو حدث اکبر کہتے ہیں ، ان سب کا اور ان کے متعلقات کا تفصیلاً ذکر کیا جائے گا ، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

یٰآیھا الذین آمنوا اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم وایدیکم الی المرافق وامسحوا برؤسکم وارجلکم الی الکعبین ۔

یعنی اے ایمان والو !جب تم نماز کی طرف اٹھو یعنی جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو اور تم بے وضو ہو تو اپنے منہ کو کہنیوں تک ہاتھوں کو ، اور سروں کا مسح کرو ، اور ٹخنوں تک پاؤں دھولو ، اسی آیۂ کریم ثابت ہوا کہ وضو میں چار فرض ہیں مثلاً منہ دھونا ، دوسرا دونوں ہاتھوں کا کہنیاں سمیت دھونا ، تیسرا سر کا مسح کرنا ، چوتھا دونوں پاؤں دھونا ٹخنوں سمیت ۔
فرض کی کیا تعریف ؟ تعریف اس کو کہتے ہیں جس سے کوئی چیز پہچانی جائے ، فرض لغت عرب میں اندازہ کرنے کو اور مقرر کرنے کو کہتے ہیں ، شریعت میں فرض یہ ہے ، 
ماثبت بدلیل قطعی لا شبیۃ فیہ ۔
یعنی جو ثابت ہو دلیل قطعی سے  یعنی ایسی دلیل سے جس میں کوئی شبہ نہ ہو ۔
وحکم ھو الثواب بالفعل والعتاب بترک بلا عذرٍا ۔
یعنی حکم اس فرض کا یہ ہے کہ کرنے والے کو ثواب ملے گا اور بے عذر چھوڑنے والے کو عذاب ہوگا ۔
والکفر بالانکار فی المتفق علیہ 

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

یعنی سب علماء کے نزدیک جس فر ض کی فرضیت ثابت ہو اس فرض کا منکر کافر ہوجاتاہے ، ایسے فرض کے منکر کو کافر ہونے میں جو کوئی مسلمان شک ددکرے وہ شک کرنے والا بھی کافر ہے ، مثلاً پانچ وقت کی نمازیں پر مسلمان پر فرض عین ہے ، خواپ مرد ہو یا عورت بلا عذر شرعی قصداً ایک بار بھی چھوڑنے والا فاسق اور مرتکب گناہ کبیرہ ہے اور مستحق عذاب نار ہوگا ، منہ اور ہاتھوں کو کہنیوں سمیت اور پاؤں ٹخنوں سمیت اور سر کے مسح کو ’’ وُضُو ‘‘ کہتے ہیں ’’و‘‘ پیش کے ساتھ ۔ ’’ وَضُو ‘‘ اس پانی کو کہتے ہیں جس سے یہ اعضاء دھوئے جائیں ، ’’و ‘‘ زبر کے ساتھ ۔ ( حاشیہ حلبی ) ’’ وِضُو ‘‘ اس جگہ کو کہتے ہیں جس جگہ میں یہ اعضاء دھوئے جائیں ، ’’و ‘‘ زیر کے ساتھ ( شرح الیاس ) وُضو ماخوذ ہے وضأتٌ سے ، وضأت کہتے ہیں روشنی کو ، اس وُضو کو اس واسطے وضو کہتے ہیں کہ قیامت کے دن پانچ وقت نمازوں کے لئے وُضو کرنے والے اس طرح آئیں گے کہ ان کے منہ ، ہاتھ اور پیر روشن چمکتے رہیں گے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا اپنی روشنی بڑھالو ۔ 

Exit mobile version