اس جنگ کا سبب یہ ہوا کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ”بصریٰ” کے بادشاہ یا قیصر روم کے نام ایک خط لکھ کر حضرت حارث بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ روانہ فرمایا۔ راستہ میں ”بلقاء” کے بادشاہ شرحبیل بن عمروغسانی نے جوقیصر روم کا باج گزار تھا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس قاصد کو نہایت بے دردی کے ساتھ رسی میں باندھ کر قتل کردیا۔ جب بارگاہ رسالت میں اس حادثہ کی اطلاع پہنچی تو قلب مبارک پر انتہائی رنج و صدمہ پہنچا۔اس وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے تین ہزار مسلمانوں کا لشکر تیار فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے سفید رنگ کا جھنڈا باندھ کر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دیا اور ان کو اس فوج کا سپہ سالار بنایا اور ارشاد فرمایا کہ اگر زید بن حارثہ شہید ہوجائیں تو حضرت جعفر سپہ سالار ہوں گے اور جب وہ بھی شہادت سے سرفراز ہوجائیں تو اس جھنڈے کے علمبردار حضرت عبداللہ بن رواحہ ہوں گے(رضی اللہ تعالیٰ عنہم) ان کے بعد لشکراسلام جس کو منتخب کرے وہ سپہ سالار ہوگا۔(1)
اس لشکر کو رخصت کرنے کے لئے خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ”ثنیۃ الوداع” تک تشریف لے گئے اور لشکر کے سپہ سالار کو حکم فرمایا کہ تم ہمارے قاصد حضرت حارث بن عمیر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی شہادت گاہ میں جاؤ جہاں اس جاں نثار نے ادائے فرض میں اپنی جان دی ہے۔ پہلے وہاں کے کفار کو اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ لوگ اسلام قبول کرلیں تو پھر وہ تمہارے اسلامی بھائی ہیں ورنہ تم اللہ عزوجل کی مددطلب کرتے ہوئے ان سے جہاد کرو۔ جب لشکر چل پڑا تو مسلمانوں نے بلند آواز سے یہ دعا دی کہ خدا سلامت اور کامیاب واپس لائے۔
جب یہ فوج مدینہ سے کچھ دور آگے نکل گئی تو خبر ملی کہ خود قیصرروم مشرکین کی ایک لاکھ فوج لے کر بلقاء کی سرزمین میں خیمہ زن ہوگیا ہے۔ یہ خبر پاکر امیرلشکر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے لشکر کو پڑاؤ کا حکم دے دیا اور ارادہ کیا کہ بارگاہ رسالت میں اس کی اطلاع دی جائے اور حکم کا انتظار کیا جائے۔ مگر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہمارا مقصد فتح یامال غنیمت نہیں ہے بلکہ ہمارا مطلوب تو شہادت ہے۔ کیونکہ ؎
شہادت ہے مقصودو مطلوبِ مومن نہ مالِ غنیمت ، نہ کشور کشائی
اور یہ مقصد بلند ہر وقت اور ہر حالت میں حاصل ہوسکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ تقریر سن کر ہر مجاہد جوش جہاد میں بے خود ہوگیا۔ اور سب کی زبان پر یہی ترانہ تھا کہ ؎
بڑھتے چلو مجاہدو
بڑھتے چلو مجاہدو
غرض یہ مجاہدین اسلام موتہ کی سرزمین میں داخل ہوگئے اور وہاں پہنچ کر دیکھا کہ واقعی ایک بہت بڑا لشکر ریشمی زرق برق وردیاں پہنے ہوئے بے پناہ تیاریوں کے ساتھ جنگ کے لئے کھڑا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد لشکر کا بھلا تین ہزار سے مقابلہ ہی کیا؟ مگر مسلمان خداعزوجل کے بھروسا پر مقابلہ کے لئے ڈٹ گئے۔(۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ موتۃ، ج۳، ص۳۴۲۔۳۴۴)