حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی پندرھویں صدی کے خورشیدہدایت

 حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی
  پندرھویں صدی کے خورشیدہدایت

                ذاکر حسین اشرفی ۔

بانئی دار العلوم اشرفیہ محبوب یزدانی راج محل صاحب گنج جھاڑ کھنڈ

  
یہ ایک سنت الٰہیہ کہ آفتاب نبوت کے پردہ فرمانے کے بعد کسی قرن اور صدی کو قدسی صفات نفوس سے خالی نہ رکھا گیا ۔ملت اسلامیہ کی صحیح نمایندگی اور رہنمائی کے کے لئے ہر تیر و تاریک فضا میں کوئی نہ کوئی آفتاب ہدایت مطلع شہود پر آتا رہا اور وقت کی بگڑتی ہوئی فضا کو نظام شریعت کے سانچے ڈھال دینے کی انتھک کوشش کرتا رہا ہے
ابو دائود کی حدیث شریف ہے ۔  قال رسول اللہ ﷺ ان اللہ تعالی یبعث لھٰذہ الامۃ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجددلھا دینھا۔بیشک اللہ تعالی اس امت کے لئے ہر صدی کے شروع میں ایسی ذات کو مبعوث فرمائے گا جو اس امت کے لئے دین کی تجدید فرماتا رہے گا۔  حدیث شریف کے مطابق ہر صدی کے شروع میں مجدد تشریف لاتے رہے اور اپنے اپنے زمانہ کے بگڑے ماحول و فضا کی مناسبتسے سنت کو بدعت سے، حق کو طاطل سے،ہدایت کو ضلالت سے ممتاز فرماتے رہے اورتجدید و احیاء دین فرماتے رہے اور اہل بدعت و ضلالت کے سروں کو کچل کر انھیں ذلیل و رسوا کرتے رہے اور مجددکا یہی منصب ہے ۔ 
چنانچہ اسی حدیث شریف کے تحت مناوی شریف میں فرمایا ہے ۔ای یبین السنۃ من البدعۃ و یذل اھلھا ۔ مجدد سنت کو بدعت سے آشکارہ فرما ئے گا اور اہل بدعت کو ذلیل و خوار کرے گا  ۔
مجدد کی ذمہ داری کی تصریح سراج منیرمیں اس طرح ہے ۔معنی التجدیدالاحیاء ما اندرس من العمل بالکتاب و السنۃ و الامر بمقتضاھا۔تجدید دین کا معنی ہے کتاب و سنت پر عمل کو زندہ کرنااور کتاب و سنت کے مطابق حکم جاری کرنا ۔
عین الودود میں ہے ۔ قال السیوطی عن سفیان ابن عیینۃ بلغنی انہ یخرج بکل مائۃ سنۃ بعد موت۔رسول اللہ ﷺ رجل من العلماء یقوی اللہ بہ الدین ۔امام سیوطی نے سفیان بن عیینہ سے روایت کی کہ مجھے حدیث پہو نچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد یقیناً ہر سو؍۱۰۰سال پر علماء میں سے ایک ایسا شخص ظاہر ہو گا جس سے اللہ تعالی دین کو قوت دے گا ۔
  مرقاۃ الصعود میں علامہ اجل اما م جلال الدین سیوطی کی تصریح نقل فرمایاہے ۔والذی بنبغی ان یکون المبعوث علی رأس المائۃ رجلا مشھورا معروفاًمشارالیہ و قد کان قبل کل مائۃ ایضاً من یقوم بامر الدین والمراد با لذکر من انقضت الما ئۃ و ھوحی عالم مشھور مشار الیہ ۔
یعنی اس حدیث شریف سے واضح ہو تاہے کہ ہر صدی کے شروع میں جسے تاج مجددیت سے سرفراز فرمایا جائے ۔ایسا شخص ہونا چاہیئے جو علم و فضل و کمال و تقوی و سیرت و حسن میں مشہور و معروف ہو اور دینی معاملات میں اُسی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہو اور صدی شروع ہونے سے شروع ہونے سے پہلے بھی اُس نے امر دین کو مضبوط رکھا ہو اور اس ذکر سے مراد یہ ہے کہ ختم ہونے والی صدی میں وہ ہونہار مجددزندہ ہو۔ مشہور عالم ہو اور اُس زمانہ کے علماء کا مشار الیہ و مرجع ہو ۔
       عون الودودمیں انہی سے مروی ہے ۔ذھب بعض العلماء الی ان الاولی ان یحمل الحدیث علی عمومہ فلا یلزم ان یکون المبعوث علی رأس المائۃ رجلا واحدبل قد یکون واحد ا فاکثر ۔فان انتفاع الامۃ با الفقھاء و ان عم فی امور الدین فان انتفاعھم بغیرھم کا ولی الامر و اصحاب الحدیث و القرأۃ والوعاظ و اصحاب الطبقات من الزھاد کثیر ا اذینفع کل بفن لا ینفع فیہ آخر۔
       بعض علماء کا خیال یہ ہے ۔بہتر یہ ہے کہ حدیث شریف کو اُس کے عموم پر رکھا جائے ۔اس سے یہ لازم نہ ہوگا کہ ہر صدی کے شروع میں بھیجا جانے والا مجددایک ہی شخص ہو ۔ بلکہ ایک ہو یا زیادہ ہو ۔کیونکہ امت مسلمہ کو اگر چہ عام طور پر دین کے معاملات میں فقہائے کرام ہی سے کام پڑتا ہے ۔لیکن امت کے بہت سے ضروری مسائل ایسے بھی ہیں جن کا فقہاء کے علاوہ دوسرے اکابر سے بھی تعلق ہوتا ہے ۔جیسے اولو الامر صاحب حکومت ،محدثین ،قارئین ،واعظین ،اور مختلف طبقات کے زہاد وغیرہم بکثرت حضرات ہیں کیونکہ ہر شخص جس فن سے تعلق رکھتاہے اس فن کے امام ہی سے نفع حاصل کر سکتاہے دوسرے سے نہیں ۔
  مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں اس سلسلے کی سب سے پہلی کڑی حضرت عمر ابن عبد العزیز قدسہ سرہ کی ذات گرامی ہے ۔حضرت عمر ابن عبد العزیز قدسہ سرہ سے لیکر اعلی حضرت فاضل بریلوی قدسہ سرہ تک یکے بعد دیگرے بلند پایہ حضرات نے اپنے اپنے وقت میں تجدید و احیاء دین فرماتے رہے ۔ 
اب اختصار  کے ساتھ ان چند نفوس قدسیہ کے اسمائے گرامی یہاں درج کئے جا رہے ہیں جنھوں نے اسلام کی اعلی تعلیمات اور اس کے پاکیزہ اخلاق و تہذیب کو عملی شکل میں پیش کر کے اوراپنے خون جگر سے اسلام کی آبیاری کر کے رفتہ رفتہ پورے ہندو پاک کو سر سبزو شاداب بنا ڈالا  ۔
 حضرت داتا گنج بخش ہجویری (  ولادت   ۴۰۰ ؁ ھ  ؍   ۱۰۰۹ ؁ ء   ۔  وفات   ۴۶۵ ؁ ھ  ؍    ۱۰۷۲ ؁ ء 
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری  ولادت  ۵۳۷ ؁ ھ ؍  ۱۱۴۲ ؁ ء  ۔  وفات  ۶۳۳ ؁ ھ  ؍   ۱۲۳۶ ؁ ء 
حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی (  ولادت  ۵۶۶ ؁ ھ  ؍   ۱۱۷۰ ؁ ء  ۔   وفات   ۶۶۶ ؁ ھ ؍   ۱۲۶۷ ؁ ء )
حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر (  ولادت ۵۵۷ھ ؁  ؍   ۱۱۷۹ ؁ ء   ۔  وفات   ۶۶۴ ؁ ھ  ؍   ۱۲۶۵ ؁ ء  
 حضرت خواجہ قطب الد ین بختیار کاکی ( ولادت  ۵۸۱ ؁ ھ ؍  ۱۱۸۵ ؁ ء ۔  وفات   ۶۳۴ ؁ ھ ؍   ۱۲۳۶ ؁ ء  )
 حضرت مخدوم علاء الدین صابر کلیری  ( ولادت  ۵۹۲ ؁ ھ  ؍  ۱۱۹۶ ؁ ء  ۔ وفات   ۶۹۰ ؁ ھ ؍    ۱۲۹۱ ؁ ء  )
حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء ( ولادت  ۶۳۶ ؁ ھ ؍  ۱۲۳۸ ؁ء ۔ وفات  ۷۲۵ ؁  ھ ؍  ۱۳۲۵ ؁ 
    حضرت شرف الدین احمد یحییٰ منیری     ( ولادت   ۶۶۱  ؁ ھ  ۔  وفات    ۷۸۲ ؁ ھ  )
 حضرت مخدوم جہانیاں جہانگشت ( ولادت  ۷۰۷ ؁ ھ  ؍  ۱۳۰۸ ؁ ء  ۔  وفات  ۷۸۵ ؁ ھ  ؍  ۱۳۸۳ ؁ ء)
حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی          ( ولادت  ۷۱۴ ؁ھ  ۔  وفات   ۷۸۶ ؁ ھ  ) 
حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی  ( ولادت  ۷۰۷ ؁ ھ ؍ ۱۳۰۸ ؁ء ۔  وفات  ۸۰۸ ؁ ھ  ؍  ۱۴۰۸ ؁ ء 
   حضرت شیخ سلیم چشتی     ( ولادت  ۸۸۴ ؁ ھ   ؍  ۱۴۷۹ ؁ء   ۔  وفات    ۹۷۹ ؁ ھ   ؍  ۱۵۷۱ ؁ ء )   
  حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی    ( ولادت   ۹۵۸ ؁ ھ؍ ۱۵۵۲ ؁ ء ۔ وفات  ۱۰۵۲ ؁ ھ ؍ ۱۶۴۲ ؁ ء )
  حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی  ( و؛ادت   ۹۷۱ ؁ ھ ؍  ۱۵۶۴ ؁ ء ۔ وفات ۱۰۳۴ ؁ ھ  ؍  ۱۶۲۴ ؁ ء )
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ( ولادت  ۱۱۱۴ ؁ھ  ۔ وفات  ۱۱۷۶ ؁ ھ )  وغیرہم ۔رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ۔
  ان اصحاب علم و فضل و ارباب زہدو تقویٰ کے بعد تیرہویں صدی ہجری میں جن علماء و مشائخ کرام نے کاروانِ عشق و عرفان کی رہنمائی کا شرف حاصل کیا اور سواد اعظم اہلسنت و جماعت کو صراط مستقیم پر گامزن رکھا ان کی اجمالی فہرست کچھ اس طرح ہے ۔
حضرت علامہ عبد العلی فرنگی محلی (ولادت  ۱۱۴۴؁ ھ  ۔  وفات  ۱۲۳۵ ؁  ھ) حضرت شاہ محمد اجمل الٰہ آبادی  ( ولادت   ۱۱۶۰ ؁ھ
  ۔ وفات  ۱۲۳۶ ؁ھ)حضرت شاہ انوار الحق فرنگی محلی ( ولادت   ۱۱۶۷ ؁ ھ  ۔ وفات  ۱۲۳۶ ؁ھ ) حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ( ولادت   ۱۱۵۹ ؁ ھ  ۔وفات  ۱۲۳۹ ؁ ھ ) حضرت شاہ غلام علی دہلوی  ( ولادت  ۱۱۵۸ ؁ھ  ۔  وفات  ۱۲۴۰ ؁ ھ ) حضرت شاہ ابو سعید مجددی
رامپوری ( ولادت  ۱۱۵۸ ؁ ھ  ۔  وفات  ۱۲۳۶ ؁ ھ) حضرت شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی ( ولادت   ۱۱۶۰ ؁ ھ  ۔  وفات  ۱۲۶۲ ؁ھ )
حضرت شاہ ابو الحسن فرد ؔ پھلواری( ولاد ت   ۱۱۹۱  ؁ھ  ۔  وفات  ۱۲۶۵ ؁ھ)حضرت شاہ احمد سعید مجددی رامپوری (  ولادت   ۱۲۱۷ ؁ ھ)
حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی ( ولادت   ۱۲۱۲ ؁ھ  ۔  وفات  ۱۲۷۸ ؁ ھ )  حضرت علامہ عبد العلیم فرنگی محلی ( ولادت   ۱۲۰۹ ؁ ھ  وفات
  ۱۲۸۵ ؁ ھ)  حضرت علامہ فظل رسول بدایونی ( والادت   ۱۲۱۳ ؁ ھ  ۔ وفات  ۱۲۸۹ ؁ ھ) حضرت علامہ شاہ آل رسول مارہروی ( ولادت  
۱۲۰۹ ؁ھ  ۔  وفات  ۱۲۹۶ ؁ ھ)  وغیر ہم رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔
 اور چودھویں صدی ہجری جس میں مختلف ایمان شکن اور گمراہ کن تحریکوں ،تنظیموں اورجماعتوں نے جنم لے کر صدیوں کے متوارثعقائد و نظریات کو تہہ و بالا کرنا شروع کیا اور عظمت توحید و ناموس رسالت پر حملے کئے جانے لگے تو یہ علماء حق اور مجاہدین صف شکن سینہ سپر ہوکر سامنے آگئے۔اور آج بھی سواد اعظم اہلسنت کا کاروانِ فکر و خیال اپنے انہیںاسلاف کرام کی روحانی قیادت و رہنمائی میں اپنی منزل ِ مقصود کی طرف رواں دواں ہے ۔
 حضرت موانا عبد الحئی فرنگی محلی ( ولادت  ۱۲۶۴ ؁ھ  ۔ وفات  ۱۳۰۴؁ھ ) حضرت مفتی ارشاد حسین رامپوری ( ولادت  ۱۲۴۸؁ ھ ۔  وفات   ۱۳۱۱ ؁ھ) 
 حضرت مولانا فظل الرحمن گنج مرادآبادی ( ولادت   ۱۲۰۸؁ھ ۔  وفات  ۱۳۱۳ ؁ھ)حضرت مولانا غلام دستیگیر قصوری لاہوری ( متوفی   ۱۳۱۵ ؁ ھ)
حضرت مولانا عبد القادر بدایونی (  ۱۲۵۳ ؁ ھ ۔ وفات  ۱۳۱۹؁ ھ) حضرت مولانا ہدایت اللہ رامپوری  
(متوفی  ۱۳۲۶ ؁ ھ)
حضرت مولانا خیر الدین دہلوی  ( ولادت  ۱۸۳۱ ؁ ھ  ۔  وفات  ۱۳۲۶؁ھ)
حضرت مولانا سید شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی (  ولادت  ۱۲۶۶ ؁ ھ ۔ وفات  ۱۳۵۵ ؁ ھ)
 اعلی حضرت مولانا شاہ احمد رضا فاضل بریلوی ( ولادت ۱۲۷۲ ؁ ھ ۔ وفات  ۱۳۴۰ ؁ھ) 
حضرت مہر علی گولڑوی ( ولادت  ۱۲۷۴ ؁ ھ ۔ وفات   ۱۳۵۶ ؁ ھ)  وغیرہم رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ۔ اُو لٰئِک کتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَھُمْ بِرُوْحِ مِنْہُ (سورئہ مجادلہ آیت ۲۲)
یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی ۔
تاریخ اسلام گواہ ہے کہ نصف صدی سے پیشتر کا ہندوستان جو اپنی مذہبی و سیاسی آویزش میں اپنی مثال آپ ہے ۔جہاں مسلمانوںکی ملی غیرت و حمیت بھی شہرئہ آفاق ہے اس نے تحریر و تقریر کے ذریعہ دینی مناقشوں اور مناظروں کا ایک عجیب ہنگامہ خیز دور دیکھا ہے کہ محبوب کردگار ﷺکی بارگاہ بیکس پناہ میں اہانت و گستاخی کا ارتکاب کرنے والوں کی باگ ڈور علماء دیوبند ،سہارنپور ،تھانہ بھون ،انبیٹھ،نانوت،میرٹھ ۔وغیرہ کے ہاتھوں میں آئی اور تقدیس شان رسالت علی صاحبہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریک کی قیادت دہلی و لاہور ،فرنگی محل لکھنو،خیرآباد و مارہرہ ،رامپور و بدایوں کے علماء نے کی ۔
  انہیں علماء مشائخ ہند کی نمائندگی کرتے ہوئے علماء بریلی شریف اور علماء کچھوچھہ مقدسہ نے اس مقدس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور سارے علمائے اہل سنت و جماعت کے دلوں کی آواز بن کر ہندوستان کے مذہبی اُفُقً پر چھاگئے اور ان زبانوں کو لگام دے دی جوگستاخانہ لب ولہجہ کی عادی اور خوگر ہو رہی تھیں اور جن کے دوش بدوش غیر مقلدیت بھی پروان چڑھ رہی تھی ۔
   عالم اسلام کا کہنا ہے کہ آندھیوں میں چراغ جلانے کا محاورہ ہم نے سناتھا لیکن حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ کی علمی دینی و روحانی خدمات تاریخ میں یہ محاورہ حقیقت کا ایک پیکر محسوس بن گیا ہے ۔بلا شبہہ انھوں نے آندھیوں کی زد پر چراغ جلایا ہے ۔ زبا ن و قلم کی تلوار لیکر اٹھے اور عرب و عجم کے تمام ممالک کے گوشے گوشے ،قریہ قریہ میں پہنچ کر تقریر و تحریر کے ذریعہ دین متین کی کی نہایت ممتاز و شاندار خدمت انجام دی اور ردو بدعات و مناظروں کے ذریعہ مذہب اہلسنت و جماعت کی حقانیت و صداقت کا سکہ بٹھا دیا ۔مومنین کے دلوں میں رسول اللہﷺ کی عظمت و توقیر ،اجلال و احترام ،اکرام و محبت اور سلف صالحین کی عقیدت و الفت اور آداب واخلاص اور شریعت اسلامیہ کے احترام کا جذبہ کچھ اس طرح جگا دیا کہ اہل ایمان کی زندگی کا نقشہ بدل دیا ، اور ایک ایک اخلاقی مسئلے پر قرآن و حدیث اور اقوال ائمہ احناف و حنفی مذہب کی کتابوں سے دلائل و شواہد کا انبار لگا کر سنیت و وہابیت،دیوبندیت کے درمیان کھلا ہوا امتیاز قائم فرمادیا ۔
   چودھویں صدی کے اس قحط الرجالی دور میں حضور محدث اعظم قدس سرہ کی ذات پاک ہم اہل سنت کے پاس خدا وند کریم کا ایک عطیئہ بے بہا ،اسلام کا ایک اعجازتھی جس کی مثال کہیں اور نہ مل سکے گی ۔اور سرکار دو عالم ﷺ کا ایک درخشاں معجزہ تھا ۔اور غوث الثقلین محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ  کی ایک کرامت تھی۔اور غوث العالم مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ایک ضیاء تھی ۔جس زمین پر رونما ہوا اعداء دین و سنیت کی زبانیں گنگ ،نگاہیں خیرہ اور دل و دماغ دبدئہ حق سے مبہوت و عاجز ہو کر رہ گئے ۔ اس آفتاب حق وصداقت سے بد دین و بد مذہب لرزتے کانپتے تھے اور آپ کے نام سے تھراتے تھے ،دیوبندیوں،نجدیوں کےبڑے بڑے علماء کو آپ کے مقابلے کی تاب نہ تھی ۔جو بد مذہب بے دین آپ کے سامنے آیا ذلیل ہوا ۔یہ حق و صداقت کا آفتاب ہمیشہ غالب رہا ۔ حمایت حق و حفاظت مذہب ہی آپ کا کا م تھا ۔اوائل عمر ہی سے اشاعت مذہب و تبلیغ دین میں مصروف ہوئے اور ساری عمر خدمت دین میں صرف کردی ۔اڑتالیس اڑتالیس گھنٹہ مسلسل بیدار رہتے پوری پوری رات تبلیغ دین و اشاعت مذہب میں مصروف رہتے ،اکثر عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرماتے ۔وہ جاگتے تھے تو دین و سنیت کا درد لے کر ،سوتے تھے تو اسی دردو کرب میں۔پورا پورا سال تبلیغی دورے اور سفر میں گزرتا تھا ۔حضرت محدث اعظم ہند خود بھی کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ گیارہ مہینے میں سفر کی قصر نماز اداکرتاہوں اورایک ماہ حضر کی ادا کرتا ہوں ۔اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میری زندگی اسی لئے ہے کہ دین پاک مصطفیٰ ﷺکی خدمت کروں اور بھولے بھٹکے مسافروں کو راہ حق سے آشنا کرائوں ۔دیکھ رہے ہو کہ پیر کی ماندگی بڑھ رہی ہے ،سفر کی مشکلات دونی ہیں لیکن دین حق کی خدمت کا وہ جذبہ جو مجھے اپنے آباء و اجداد کے ورثہ میں ملا ہے مجھے جوان رکھا ہے   ؎
جسم اگر چہ تھک گیا روح کا زور بڑھ گیا 
راہ  تلاش یار کی  ماندگی  ماندگی  نہیں   
   بلا شبہہ خدمت دین و اعلان حق کا یہی وہ جذبہ تھا جس کے نشہ نے توحید و رسالت کے متوالوں سے گھر بار و عزیز و اقارب سب کچھ چھڑا دیا اور دنیا نے دیکھا کہ حق پرستوں کا گروہ عرب سے نکل کر دنیا میں پھیل گیا ۔کیا تم اس کو نہیں پہچانتے جو جیلان میں پیدا ہوا اور گھر بار عزیز و اقارب کو چھوڑ کر بغداد چلا آیا ۔کیا تم اس کو نہیں جانتے جو عرب سے چشت آیا اور بڑھتے بڑھتے جس نے سرزمین ہند میں آکر اعلان حق و خدمت دین کا فرض ادا کیا اور اپنی قوت صداقت سے بڑے بڑے نبرد آزمائوں کے زور بازو اور شجاعت کے غرور کو خاک میں ملا دیا جس پر دار الخیر اجمیر شریف کا تقدس قیامت تک گواہ رہے گا ۔
  در حقیقت خدمت دین اور اعلان حق کا نشہ وہ کیف نہیں ہے جسکو دنیا کی کوئی طاقت اتار سکے ۔یہی وہ جذبہ و سرور تھا جس نے حضور غوث العالم تارک السلطنت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کو ملک سمناں کے آزاد تخت و تاج سے علیٰحدہ کر کے ہندوستان کے ایک دیہات کچھوچھہ شریف مین لا کر بٹھادیا اور آج اس بارگاہ بیکس پناہ کی عظمت محتاج بیان نہیں ۔
کون ہے   ؟  جو اس آرزو میں نہیں جی رہاہو کہ مدینہ شریف کی مبارک سرزمین میرا مدفن بنے    !  
 کون ہے   ؟   جواس آرزو سے دست بردار ہونے کو تیار ہے کہ دیار حبیب ﷺ میرا مسکن بنے ،خاک   طیبہ غذائے بدن بنے ۔                         
 ہر کسی کی آرزویہ ہوتی ہے ،ہر عاشق کے سینے میں یہ تمنا مچلتی رہتی ہے کہ مدینہ شریف کی دھرتی آخری آرام گاہ ہو ۔مگر قربان جایئے حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ کے مقصد حیات سے کامل وفاداری پر کہ جب آپ زیارت حرمین طیبین کے لئے گئے تو کعبہ کے در کے سامنے مانگی تھی یہ دعاء فقط کہ اے رب کریم مجھے ایسی اولاد عطاء فرما جو عرصئہ دراز تک تیرے دین حق اور تیرے بندوں کی خدمت کرتا رہے اور اعلان حق کا فریضہ ادا کرتا رہے ۔اور جب آپ اپنے ناناجان مالک کون و مکاں مختار دو عالم ﷺ کی بارگاہ رسالت مأب ﷺ میں حاضر ہوئے تومصطفیٰ جان رحمت ﷺ کے پیغام حق و صدائے حق کو شرق و غرب میں آبیار ی کے لئے اپنی حیات کے آخری لمحات کو نثار کرتے ہوئے گویا ہوئے    ؎
 مدینے کا  کچھ  کام کرنا ہے  سید ؔ
 مدینے سے بس اس لئے جارہاہوں  
 چنانچہ مرد مؤمن کی دعاء رنگ لا کر رہی ،مخدوم المت کے آنسو رحم و کرم کی موسلا دھار بارش بن کر رہے یہا ں تک کچھوچھ مقدسہ کے اوج ثریا پر پندرھویں صدی کے خورشید ہدایت نمودار ہوا ،آسمان ہدایت پر ایک ستارہ چمکا ،بزم علم میں ایک روشن چراغ منور ہوا ،چمنستان مجددیت کا ایک پھول کھلا جس نے ایشیاء و یورپ کو چمکایا اور مشرق و مغرب و جنوب و شمال کو اپنی عطر بیزیوں سے مہکایا ۔
 آیا  !  وہ کون آیا   ؟  وہی آیا  !  جس پر اس قحط الاکابر میں دنیا ئے سنیت عقیدت کے ہار چڑھاتی ہے ۔  ہاں وہ آیا  !  سفینئہسنیت کا ناخدا بن کر آیا جو قلم کابادشاہ اور زبان کا دھنی بن کر آیا ۔  ہاںوہ آیا ہم شبیہہ غوث جیلانی سرکار اعلی حضرت اشرفی قدس سرہ کی کرامت بن کر آیا ،جو احقاق حق و تصدیق حق میں صدیق اکبر کا پرتو ،باطل کو چھانٹنے میں فاروق اعظم کا مظہر ،رحم و کرم میں ذوالنورین کی تصویر ،باطل شکنی میں حیدری شمشیر ،فقہ و درایت میں امیر المؤمنین ،سلطنت قرآن و حدیث و تفسیر کا مسلم الثبوت وزیر المجتہدین ،رئیس المحققین ،اسوۃ الواصلین ،شیخ الاسلام و المسلمین ،مرجع العلماء والفضلاء ،اعلم العلماء عند العلماء ،مجدد مائۃ حاضرہ  ،مؤید ملت طاہرہ ،عارف بااللہ ،فانی فی اللہ ،باقی بااللہ ،عاشق رسول اللہ، آل رسول اللہ امام اہلسنت حضرت مولانا الحاج سید شاہ محمد مدنی اشرفی جیلانی صاحب ادامہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ کی ولادت با سعادت یکم رجب المرجب  ۱۳۵۷ ؁ ھ مطابق  ۱۹۳۷ ؁ ء شب یکشنبہ مے ہوئی ۔
بیٹا کیا چیز ہے اور اس کے پیدا ہو نے سے گھر میں عید کی سی چہل پہل کتنی بڑھ جاتی ہے اسکو تم جس سے چاہو دریافت کرلو ۔والدین کی مسرت کا اندازہ کوئی منطقی معما نہیں ہے جس کے لئے نصاب نظامی کی تکمیل ضروری ہو ۔چنانچہ اس فرزند ارجمند کی ولادت باسعادت سے گھر باہر وہی حال ہوا جو ہونا چاہئیے تھا اس نونہال کی جبین سعادت پر مدنی ضیاء کو چمکتا دیکھ کر اور مدینے کا کام کرنے کی بیقرار تمناء و آرزو کا تکملہ مان کر ہی آپ نے مدنی مدینہ والے آقا و مولیٰ ﷺ کے ہمنام سید محمد مدنی رکھا ۔
 مسعود و مبارک مدنی فرزند کچھوچھہ والے کا طفلی زمانہ۔ مدنی،جیلانی،سمنانی انوار و برکات کے روحانی و نورانی گہوارہ میںبسر ہوا ،ہم عصر بچوں سے طبعاً بالکل مختلف تھے نہ کسی کھیل کود سے دلچسپی ،نہ کسی لہو و لعب میں شرکت ،مدنی نونہال کا پورا بچپناشائستگی ،ستھرا پن ،سنجیدگی اور نفاست پسند سے بھرا رہا ۔
ماشا ء اللہ سے پڑھنے لکھنے کے دن آئے ۔یعنی جب آپ کی عمر شریف چار سال چار مہینے اور چار دن کی ہوئی تو خانوادئہ اشرفیہ کے معمول کے مطابق آپ کے جد امجد رئیس الحکماء حضرت علامہ مولانا سید نذر اشرف فاضل کچھوچھوی قدس سرہ نے مٹھائی بطور نیاز منگوا کر فاتحہ غوثیہ پڑھکر آپ کو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھائیں ،جو خودبھی درس نظامیہ کے ایک بہت بڑے پائے کے معلم تھے اور مشہور ترین طبیب حاذق بھی تھے جن کی نباضی پر دہلی کے حکماء خراج تحسین ادا کرتے تھے ،حکمت و طبابت کے اس منزل پر تھے کہ آواز سنکر ،کپڑا سونگھ کر مرض کی تشخیص فرما دیتے۔آج کا دور ایسے گرامی قدر حکیموں سے محروم ہی نظر آرہاہے ۔ حکمت کے ساتھ ساتھ اچھے مناظر اور بہترین شاعر اور بلند پایہ کے مصنف بھی تھے ۔ذہانت و ظرافت ،استعداد و صلاحیت ان کی تصنیف و تالیف اور شعرو سخن کے ہر ہر جملے سے پھوٹی ہے ۔
 آپ ساری عمر دنیا کمانے سے بے نیاز رہے جو کچھ ملا غریبوں کی دستگیری میں نذر کر دیا ۔ہاں  !  اگرکوئی سرمایہ چھوڑا تو اپنے ایسے عظیم فرزند کو چھوڑا جسے اکابرین علماء و مشائخ نے محدث اعظم ہند و سرمایئہ اہلسنت تسلیم کیا ۔
 والد ماجد حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ جنھیں فراست مؤمنین کا نمونہ کہا جا سکتا ہے انھوں نے اس مسعود مبارک مدنی فرزندکوکافی دبیز اور لمبا چوڑارجسٹر اور سیٹھے کی قلم اور روشنائی کا ذخیرہ مہیا کر دیا اور تاکید کر دی کہ ایک ماہ میں اسے بھر کر اپنی والدہ کے پاس جمع کرنا ہے چنانچہ والدہ ماجدہ شہزادئی عالم ربانی ،شوکۃ الاسلام ،اقدس حضرت مولانا سید احمد اشرف اشرفی جیلانی ،خاتون جنت کا ہمنام و مکمل نمونہ، سیدہ فاطمہ کی نورانی روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ ابتدائی تعلیم کا آغاز یوں ہوا۔والدہ ماجدہ بھی لگتا ہے کہ تیار بیٹھی رہتی تھیں کہ کب رجسٹر بھرے اور کب دوسراپکڑا دیا جائے ،نیز ہونہار بیٹا بھی بڑا کمال کا نکلا کہ جو کام دو؍۲ ماہ کا تھا اسے بیس دن میں ہی پورا کرنے لگا اور کلاس ٹیچر سے دستخط بھی لینے لگا ،اس پر مستزاد یہ کہ سفر سے واپسی کے بعد ان تمام رجسٹر وںکوامام علم و فن و ادب حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ بڑے اشتیاق و انہماک کے ساتھ جانچتا،پرکھتااور حسن و قبح کے نکتے سمجھاتا ۔اب کوئی بتائے کہ آرزوئے محدث اعظم اور ان کا خواب کو اگر یہ مسعود مبارک مدنی بچہ شرمندئہ تعبیر کر رہا ہے تو اس میں حیرت کیا ہے  ؟ 
  اعلی تعلیم کے لئے مقدس والد ماجد نے ہم شبیہہ غوث الاعظم جیلانی سرکار اعلی حضرت اشرفی قدس سرہ کا قائم کردہ باغ فردوس یعنی الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں داخل فرمایا ۔آپ کے رفقائے درس میں حضرت مولانا نعمان خان (پرنسپل جامعہ روناہی ) مولانا احمد مسعود رضا (فرزند مولانا حشمت علی خاں رحمۃ اللہ تعالی علیہ) مولانا غلام حسین ،مولانا حنیف ،مولانا عبد الشکور (شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارکپور )مولانا نعیم اللہ خاں (شیخ الحدیث منظر اسلام بریلی شریف)مولانا ابو الخیر ،مولانا اسلام خاں مبارکپوری ،مولانا محمد احمد بھیروی  ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی وغیرہ بخاری شریف تک حضرت شیخ السلام کے ہم سبق دوست رہے ۔ 
   آپ کا ایک ہم سبق ساتھی حضرت مولانا ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی نے ماہنامہ جام نور شمارہ ستمبر ۲۰۱۰ء میں تحریر فرمایا ہے کہ
،،مدنی میاں اپنی جماعت کے طلبہ میں کئی اعتبار سے منفرد تھے ،کم گو ،کام سے کام رکھتے تھے ،طلبہ کے باہمی مناقشات سے دور رہتے تھے ،اکثر کمرے میں دیوار پر اپنے مشاغل کا نظام الاوقات چسپاں کر رکھا تھا ،جس پر وہ سختی سے عامل تھے ، اسکا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ دوسرے طلبہ ان اوقات میں تضیع اوقات نہیں کرتے تھے ،بلکہ گمان غالب ہے کہ اسی مصیبت سے چھٹکارہ پانے کے لئے یہ حکمت عملی اختیار کی گئی تھی۔ 
غالباً  ۱۹۵۹  ؁ء کی بات ہے کہ میرے خوش عقیدہ پڑوسی جناب محمد احمد صاحب کے ایک رشتہ دار تازہ تازہ دارلعلوم دیوبند کی ہوا کھا کر آئے تھے ،طبیعت باڑھ پر تھی ،یہ جہانا گنج کے رہنے والے تھے رسمی تعارف کے بعد انھوں نے علم غیب کی بحث چھیڑدی ۔آیات و احادیث سے نفی علم غیب کے دلائل پیش کرنے لگے ۔میں نے جواب دینا شروع کیا ۔محمد احمد صاحب نے کہ اس طرح کی بحث تلخی بڑھنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا ۔سوال و جواب  تحریری ہونا چاہیئے۔صاحب خانہ کی اس بات پر ہم دونوں نے اتفاق کیا ،میں نے کہا کہ میں چند سوالات حفظ الایمان کے تعلق سے کرتا ہوں ،آپ جواب لکھ کر محمد احمد صاحب کے یہاں بھیجوادیں ۔انہوں نے کہا کہ سوال کی ابتدا میری طرف سے ہوئی ہے۔ اس لئے سوال گا ۔میں نے کہا چلئے یوں سہی ۔ پھر انھوں نے پانچ چھ سوالات کی فہرست مرتب کرکے مجھ سے کہا کہ اس کا جواب تحریر کر کے محمد احمد صاحب کو دے دیجئے ،یہ مجھ تک پہنچا دیں گے ۔میں نے وہ رقعہ مدنی میاں کو دکھایا ،انھوں نے سوالات کے مدلل جوابات تحریر کیے ۔میں نے محمد احمد صاحب کے ذریعہ یہ تحریر جہانا گنج بھیجوادی ،دس پندرہ دنوں کے بعد جواب آگیا ،میں نے وہ جواب مدنی میاں کی خدمت میں پیش کیا ، اب جواب الجواب کے ساتھ کچھ سوالات قائم کرکے حریف کو دفاعی پالے میں لا کھڑا کیا گیا ۔پھر اُدھر سے کوئی جواب نہ آیا ۔مدنی میاں نے کہا کہ مناظرہ میں دفاعی پوزیشن میں نہیں رہنا چاہیئے ۔اب جو انہیں اپنا دفاع کرنے پر مجبور کردیا گیا تو وہی ہوا جس کی امید تھ۔
  جہاں تک مجھے یاد ہے مدنی میاں نے کسی ایک پروگرام میں بھی حصہ نہیں لیا۔کبھی شرکت بھی کی تو شدت سعال وغیرہ کا عذر کرکے بیٹھ رہے ۔قاری محمد یحییٰ صاحب کو اس کی خبر ہوئی تو انہیں بڑا دکھ ہوا ۔حضرت محدث اعظم ہند سالانہ جلسہ میں تشریف لائے تو قاری صاحب نے ان سے عرض کیا کہ حضور ! ایک بات کہنا چاہتا ہوں اسے شکایت پر محمول نہ فرمائیں ۔محدث اعظم نے فرما یا کہیئے ،شکایت بھی ہوگی تو سنی جائے گی ۔قاری صاحب نے عرض کیا کہ شہزادے مشقی جلسہ میں شرکت نہیں کرتے جس کا مجھے دکھ ہے ۔محدث اعظم نے فرمایا ،،میاں مچھلی کے بچے کو تیرنا نہیں سکھا تے،،آج جب میں اس جملے کو یاد کرتا ہوں تو محدث اعظم کا یہ قول پیشین گوئی کی صورت میں نظر آتا ہے ۔دنیا جانتی ہے کہ اشرفیہ سے فراغت کے بعد مدنی میاں نے اپنی خطابت کا لوہا بڑے بڑے سحبان وقت سے منوالیا ،،
   ڈاکٹر طارق سعید صاحب نے جام نو ر محدث اعظم ہند نمبر   ۲۰۱۱ ؁ء میں تحریر فرمایا ہے کہ ،،زمانہ طالب علمی کا ایک واقعہ ہے کہ
شفیقؔ جونپوری اردو شعرو ادب میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے ،ذی علم شخصیت کے مالک تھے ان کے بھائی نے ایک عظیم الشان کتب خانہ سجا رکھاتھا ۔ایک سے ایک نایاب کتب اس ذخیرہ کی زینت تھیں ۔مولانا فضل امام جو مولانا فضل حق خیرآبادی کے والد بزرگوار تھے ،علم منطق میں طاق تھے ۔ان کی ایک کتاب جو علم منطق اور اس کے مبادیات سے متعلق تھی ۔اسی کتب خانہ میں موجود تھی ۔کتب خانہ سے فیض اٹھائے جانے کی دعوت و اجازت عام تھی ایک شرط کے ساتھ کہ کتاب کا مطالعہ کتب خانہ میں ہی کیا جائے ۔مطالعہ کے شوقین مدنی میاں کے لئے یہ شرط کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی تھی ۔انھوں نے لائبریری میں دو سے ڈھائی گھنٹہ روزانہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور طے کیا کہ کیوں نہ یہ کتاب نقل کر کے ہمیشہ کے لئے اپنے پاس محفوظ کر لی جائے ۔طویل نشستوں کا سلسلہ تین دن چلا کہ مستقبل کے اس عالم منطق و فلسفہ کو برادر زادہ شفیقؔ نے کتاب ہی حوالے کردی اور کہا کہ اگر مجھے آپ کے اس درجہ اشتیاق کی خبر پہلے ہو جاتی تو آپ کو اتنی زحمت نہ اٹھانی پڑتی۔علم دوست اس پندرہ سالہ طالب علم نے عربی زبان میں لکھی ادق منطق کی کتاب کو یہ کہکر لوٹا دیا کہ جناب یہ کتاب بطورمخطوط میرے پاس محفوظ ہو گئی ،،
  حضرت شیخ الاسلام کی علوم فنون میں ذوق و انہماک و علمی گہری دلچسپی اور وسعت مطالعہ اور عمیق نظری کے طلبہ ہی نہیں،استاذہ بھی قائل تھے اور ۔بسا اوقات علمی مسئلہ میں بلا تکلف ان سے رائے لیا کرتے ۔چنانچہ حضرت مولانا سید شاہ رکن الدین اصدق ؔمصباحی صاحب نے درس و تدریس پر گفتگو فرماتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ،،مفکر اسلام حضرت علامہ مظفر حسن صاحب ظفر ادیبی ؔجو بلا شبہہ اپنے دور میں مرتب کروکے امام المعقولات تھے اور دوردور تک ان کا طوطی بولتا تھا ،وہ شمس بازغہ لے کر مطالعے میں غرق ہیں ۔میں جب قریب سے گزرا تو آہٹ پا کر انھوں نے سر اٹھایا اور پوچھا کون  ؟  میں پلٹ کر قریب ہوا اور بولا  جی میں  !  بولے اچھا سید صاحب  !  ذرا مدنی میاں کو بلائے گا  ۔
 میں نے مدنی میاں کو جو چھت پر ہم درسوں کے درمیان کسی کتاب کی تکرار میں مشغول تھے جا کر اطلاع دی اور وہ اٹھ کر چلے تو تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں بھی ان کے پیچھے ہولیا کہ آخر کیا بات ہے  ؟  علامہ ظفر ادیبی صاحب کے یہاں  جب مدنی میاں پہنچے تو آپ نے انہیں احترام کے ساتھ بیٹھنے کو کہا ۔ ادھر استاذکے احترام میں جب یہ صرف ایک کنارے ٹک گئے تو اشارہ کر کے کہا میاں  !  یہاں آرام سے بیٹھئے  ! پھر کتاب ان کی طرف بڑھا کر عبارت پر انگلی رکھتے ہوئے بولے ۔ذرا دیکھئے یہاں مصنف کیا کہنا چاہ رہے ہیں  ؟  مدنی میاں کتاب لے کر کچھ دیر تک دیکھتے رہے اور پھر جب اس کی وضاحت کی تو علامہ ظفر ادیبی ؔ صاحب کے چہرے پر تسکین وشادمانی کا خاص رنگ چھا گیا اور اطمینان بخش انداز میں گردن ہلا کر تائید کرتے ہوئے انھیں رخصت کیا ۔اس واقعہ سے جہاں مدنی میاں کی ٹھوس  علمی استعداداور منطق و فلسفہ کے ادق اور خشک مسائل پر گہری نظر کا پتہ چلتا ہے ۔وہیں اساتذہ کا ان پر کتنا اعتماد تھا اسکا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ آپ کی خدا داد ذہانت و فطانت اعلی درجہ کا افہام و تفہیم کا ملکہ اور استعداد و صلاحیت دیکھ سبھی طلبہ و اساتذہ سمجھتے تھے کہ یہ وجود مقدس کسی زمانہ میں قبلئہ ارباب حاجات ہوگا اور اس چراغ سے ایک عالَمْ روشن ہوگا ۔  
   قدرت کی بے نیازکی ادائیں کون نہیں جانتا کتنے صاحب تاج و تخت گذرے جن کو اولاد نہ ہونے کا غم مرض الموت تک کھاتا رہا اور کتنے غریب ہیں جو پرورش اولاد سے گھبرا گھبرا گئے ہیں ،کوئی ایسا بھی ہے جس کی منہ مانگی مراد پوری ہوئی ہے مگر اس سے راحت حاصل کرنے کا موقع نہیں ملااور موت نے تمام لذتوں کا خاتمہ کردیا ۔کسی غریب کا گھر لٹ جائے ۔کسی بیکس کا آسرا ٹوٹ جائے ۔کسی ضعیف کا چراغ گل ہو جائے یا کسی کے ضعیفی کا سرمایہ لٹ جائے۔کسی جواںسال کا سہارا ٹوٹ جائے مگرقدرت کی بے نیازی کے تیور میں بل بھی نہیں آتا  ۔
    حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی صاحب ادامۃ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ کیسا اللہ والا کا بچہ تھا کہ ابھی آپ دارلعلوم اشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ میں زیر تعلیم ہی تھے کہ اچانک آپ کے والد ماجد، مکر م زمان محدث اعظم،  کے ظل عاطفت کو اللہ تعالی نے ۱۶ ؍رجب المرجب   ۱۳۸۱ ؁ ھ بمطابق  ۲۵ ؍ دسمبر  ۱۹۶۱ ؁ ء بروز دو شنبہ  بوقت؍  ۳۰۔۱۲  ؍دن میں صرف آپ کے سر سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے اہلسنت کے سروں سے اٹھالیا ۔  اس آفتاب علم و فضل کے غروب ہو نے کی خبر سراپا حزن وملال نے اہلسنت کو بے چین و مضطرب کردیا اور ا س حادثئہ جانکاہ نے مسلمانان ہند و پاک میں ایک ماتم پر پا کر دیا  ۔  اس ،کلام فصا حت ریز محدث ،صاحب کے سننے کے لئے کان اور انکی دیدارو زیارت کی متلاشی آنکھیں اور مضطرب قلوب جس قدر آنسو بہائیں اور آہ و بکا کریںکم ہیں   ؎
خاروں سے پوچھئے نہ کسی گل سے پوچھئے 
 صدمہ چمن کے لٹنے کا  بلبل سے پوچھئے  
خدا جانے وہ کونسی گھڑی تھی  ؟  جبکہ اللہ تعالی نے مصیبت کو پیدا کیا تھا ۔بزدل انسان مصیبت کا نام سنکر تھرا جا تا ہے اورمصیبت  کے خیال کرنے ہی پر گھنٹوں کانپتا رہتا ہے اور سچ پوچھو تو مصیبت ہے بھی ایسی بلا جس سے خدا کی پناہ ہے ۔بہار کے دن ہو ں ،گلزار و چمن لہلہاتے ہوں ،گلوں کی مہک اور بلبلوں کی چہک نے باغ عالم خوب بسایا ہو، آبادکیا ہو ،سبزہ کو اچھی طرح سجایا ہوغرض سب کچھ ہو مگر کسی مصیبت زدہ سے پوچھو تو اسے شور بے ہنگام نظر آتی ہیں ،دنیا کی ساری دلفریبیاں اس کو کاٹے کھاتی ہیں ۔
  لوگ کہتے ہیں کہ مصیبت عاشقوں کی تقدیر میں لکھدی گئی ہے ۔لیکن مجھ سے پوچھو تو اسکو مصیبت کہنا ہی فضول ہے ۔محبوب کے راستہ کا کانٹا، معشوق کی گلی کاڈھیلا عاشق کی نگاہ میں پیارا ہی ہوتا ہے ۔  دیکھنے والے تو اس کومصیبت ہی کہتے ہیں لیکن عاشق کی نظر میں وہ مصیبت نہیں ہے بلکہ وہ راحت ہے ۔  
  صابر و شاکرمدنی فرزند شیخ الاسلام کچھوچھوی کو دیکھو کہ کیسا مصیبت کابوجھل پہاڑ ان پر ٹوٹ پڑا ہے کہ سر سے والد ماجد کا سایہ بھی اٹھ چکا ہے ،اور تعلیمی سفر بھی جاری ہے ،اورضروریات کا بو جھ بھی سر پہ لدا ہوا ہے ایسی بے بسی کے عالم میں ،ایسی بے کسی کے عالم میں حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی پر کیسی کیا گذری ہوگی ۔
   ہم نے تو دیکھا ہے ایسے موقعوں پر اچھوں اچھوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور بڑے بڑے جوانمردوں کے ہاتھ پائوں ڈھیلے پڑ جاتے ہیں ۔ مگر واہ رے مختار دوعالم محمد مصطفیٰ ﷺ کا ہمنام مدنی فرزند کو اپنی یتیمی کا غم نہیں اور بیکسی و بے بسی اور محتاجی کا کچھ اثر نہیں کہ ان کی فطرت تو قدرتی تعلیم کے زیر نگرانی تھی کہ ان کی کامیابی با لکل متوقع تھی اور ان کی بڑی سے بڑی مصیبت و آزمائش و ابتلاء میں بھی ثابت قدم رہنے کا نظارہ دنیا کوبھی کرنا تھا ۔لھذاآپ کی نظر قل کل من عند اللہ  پر رہی اور عزیمت پر کی منزل پر قائم رہے ۔صبر و شکر کا جبل عظیم بنکر ثابت قدم رہے۔مشاہدہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس صابر و شاکر مدنی فرزند شیخ الاسلام و لمسلمین ،جانشین محدث اعظم ہندکچھوچھوی کی سرشت میںہی تقوی و طہارت مضمر ہے ،ان کی خمیر جس خاک سے اٹھی ہے وہ خا ک پرہیزگاری کے عناصر سے خود آمیز تیار ہوئی ہے ،محسوس ہوتا ہے کہ مشیت یزدی کا فیصلہ ہی یہی ہے کہ یہ بندہ شباب کو بیداری کا مژدہ تصور کرے اور آفاق کی منزل سے شباب کو صحیح و سلامت گذارنے کے لئے اسباب تقویٰ و صبر و شکر کو ہی فضیلت دے تاکہ سفر دنیا مستحسن طریقوںسے گذر سکے۔
حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ کی وفات شریف وہ عظیم حادثہ ہے جس کا ہوش ربا اثرصرف خانوادئہ اشرفیہ کی قیادت اور روحانی مشن پر ہی نہیں پڑا بلکہ پوری دنیائے اہلسنت متأثر ہوئی کہ پو ری سنیت چیخ اٹھی اور پکار پڑے کہ بلا شک و شبہہ حضرت محدث اعظم ہند قدس سرہ کی ذات گرامی دور حاضر میں قصر سنیت کے لئے ایک ایسا ستون تھی جس کے انہدام سے پوری عمارت سنیت متزلزل ہو گئی ۔یقیناًآپ کی وفات حسرت آیات دنیائے سنیت و دین و ملت کا عظیم نقصان ہے جس کی تلافی مستقبل قریب میں غیر ممکن نظر آتی ہے، آپ کے سانحئہ ارتحال سے دنیائے سنیت میں ایک زبر دست خلاواقع ہو گیا اور سنیوں کی مجلسیں سونی ہو گئیں ،آپ کی وفات شریف سے دنیائے سنیت میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے اس کا پر ہونا بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے۔آپ کی رحلت صرف خانوادئہ اشرفیہ ہی کے لئے باعث رنج و ملال  نہیں بلکہ پوری دنیائے سنیت کے لئے یہ ایک حادثئہ فاجعہ و صدمئہ عظیمہ ہے جسکو برسہا برس تک امت مسلمہ فراموش نہ کر سکے گی ۔  
      آہ ! اب سے تقریباً اسی برس پہلے افق کچھوچھہ مقدسہ پر جو آفتاب علم و حکمت طلوع ہوا تھا وہ ۲۵ ؍ دسمبر ۱۹۶۱  ؁ ء کو گہنا گیا اور ہمیشہ کے لئے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ۔ افسوس دنیائے سنیت کے تاجدار نے موت کی چادر اوڑھ لی ۔   انا  للہ و انا الیہ راجعون۔
   میرے سرکار   !     ایک مشتاق نظامی ہی نہیں لاکھوں معتقدین ،مریدین ،متوسلین تمھارے غم میں اشکبار ہیں اور پوری دنیائے سنیت تمھاری رحلت پر سوگوار ہے ۔
   میرے خطیب   !      یوپی ،سی پی ،بنگال ،اڑیسہ ،بمبئی ،مدراس ،آندھرا ،گجرات ،،مہاراسٹر ،راجستھان ،غرضیکہ ہندو پاک ،عرب و عجم میں تمھارے اٹھ جانے سے صف ماتم بچھ گئی اور تمھارے کروروں جاں نثار ،فدا کار بلک بلک کر،تڑپ تڑپ کر تمھارے غم میں رو رہے ہیں ۔ 
   اے میرے سرکار   !      یہ خون جگر کے چند قطرے ہیںجو تمھارے بارگاہ میں نذرانہ عقیدت کے طور پر حاضر ہیں ،اب مجھ میں لکھنے کیہمت نہیں ،ابھی جی بھر کر مجھے رو لینے دو پھر یہی ادادرہ پاسبان جسکو آپ نے ہمیشہ اپنی دعائوں میں یاد رکھا اوراپنی زبان و قلم سے نوازہ وہ تمھاری بارگاہ میں ،،محدث اعظم نمبر ،،کا خراج عقیدت پیش کرے گا ۔
   اے ہم سے بہت دور جانے والے  !  اب تم ہی پردئہ غیب سے تسکین قلب کا سامان فراہم کر دے ۔ورنہ کلیجہ پھٹ جائے گا اورآنسوں کاسیل رواں لے ڈوبے گا ۔
غرض کہ زمین ہندو پاک و عرب و عجم ماتم گسار تھی ،چرخ کہن نوحہ گر تھا ،قدسی صفات فرشتے رحمت باری کے منتظرتھے اہلسنت کا کلیجہ زخموں سے چور تھا ، حق پرستوں کی آنکھ ساون بھادو کی جھڑی تھی ،عقیدت مندوں کا سینہ نالاں تھا،رسول پاک کے فدائی ماہی بے آب تھے ، حرمت نبوت پر جان دینے والے کراہ رہے تھے ، عظمت ولایت پے مر مٹنے والے سسک رہے تھے کہ مرد مؤمن کی آہ و زاری رنگ لا کر رہی ،اہلسنت کے آنسو رحم و کرم کی موسلا دھار بارشبن کر رہے کہ۔ چودھوے صدی ہجری کا آفتاب غروب ہوا اور پندرھویں صدی ہجری کا ہلال خیرو برکت و رشدوہدایت افق مغرب پر نمودار ہوا ،جاننے والوں نے ربی و ربک اللہ سے اس کا خیر مقدم کیا اور دعامانگی ۔اللہم انا  نسئلک خیر ھٰذہ السنۃ   ۔ اللہم انا نعوذبک من شر ھٰذہ السنۃ 
 چنانچہ شب دیجور کے پردے چاک ہوئے ،پوپھٹی ،کگر نمودار ہوئی ،مدنی کرن ضیاء پاش ہوئی اور یکم محرم الحرام  ۱۴۰۱ ؁ ھ کا آفتاب
عالم تاب کا طلوع ہوا اور پوری تابانی کے ساتھ افق مشرق پر چمکا ۔تاج افتاء سے مزین ،علم و فضل و کمال کے معراج شہرت پر نمایاں ،علمائے وقت کا مشار الیہ ،فضلائے زمانہ کا مرجع، رئیس المحققین ،سند المتکلمین ،شہزادئہ محدث اعظم ہندحضرت شیخ الاسلا م و المسلمین سید محمد مدنی اشرفی جیلانی نے الولد سر لابیہ کا مجسمہ،ہم شبیہہ غوث اعظم جیلانی اعلے حضرت اشرفی کی صدا ،عالم ربانی،شوکۃ الاسلام مولاناسید احمد اشرف اشرفی کی ادا بن کراوراپنے پیرو مرشد ا ہل سنت کے تاجدار،ہم شبیہہ غوث الثقلین کا مختار ، غوث زماں ،شیخ المشائخ حضور سرکار کلاںکے روحانی و خاندانی فیوض و برکات سے سنور کرخدمت دین حق اور تجدید و احیاء دین و ملت کے لئے کمر ہمت باندھ کر سنان قلم و شمشیر لسان کے ساتھ میدان علم و عمل میںکردار و گفتارکی ایک نئی توانائی کے ساتھ اعدائے دین و سنیت کو للکارتا ہوا ابھرا ۔کچھوچھہ مقدسہ کا یہ مدنی سحاب رحمت اٹھا اور اٹھتا ہی چلاگیا ۔پھیلا اور پھیلتا ہی چلا گیا ۔برسا اور برستا ہی چلا گیا ۔دین و دیانت اور علم و دانش کی کھیتیاں سر سبز و شاداب ہو گئیں ۔نہ صرف ہندوپاک میں بلکہ ایشیاء و یورپ کے تمام مغربی ممالک میں لاتعداد شہروں ،بیشمار قریوں میں بھی پہونچکر مجدد مأۃ حاضرہ ،مؤید ملت طاہرہ ،حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی نے ہدایت و نیابت کا فریضہ انجام دیا ۔ایمان افروز اور انقلاب آفریں خطابات دئے ۔ہر فرقئہ فاسدو باطل اور ان کے ہر فقرئہ کاسد و عاطل کا قرآن و حدیث و اصول معقول ومنقول سے وہ رد بلیغ فرمایا اور ایسے ایسے قوی دلائل قاہرہ و براہین قاطعہ سے ان کے پراخچے اڑایا کہ اعدئے دین کے گھروں میں ماتم بچھ گئی ۔اورعلمائے اہل سنت کے دل و دماغ باغ باغ ہو گئے اور عوام اہل سنت کے ایمان تازہ ہو گئے ۔ وہ کنواں نہیں کہ کہ لو گ وہاں جاکر پیاس بجھائیں بلکہ وہ بادل ہیں جو ہر جگہ خود ہی جا کر برس پڑے ،اپنوں پر برسے ،غیروں پر برسے ، پہاڑوں پر برسے ،وادیوں پر برسے ، صحرائوں پر برسے،شہروں پر برسے ،ایوانوں پر برسے ،جھوپڑیوں پر برسے ،یہ سلسلہ بس ہو کر نہیں رہ گیا ۔بلکہ دن بدن رشدو ہدایت اور ابطال باطل و احقاق حق کے سوتے پھوٹتے جا رہے ہیں ۔
   شرح جامع صغیر کے ارشاد کے مطابق ان المجددانما ھوابغلبۃ الظن بقرائن احوالہ و الانتفاع بعلمہ ۔یعنی مجدد اپنی مجددیت کے دعوی نہیں کرتا بلکہ اس کے قرائن احوال اور اس کے علم انتفاع پر غلبئہ ظن سے پہچانا جاتا ہے ۔یہ رازئی زماں ،سیوطی دوراں ،واقف معارف و حقائق ،کاشف معانی و دقائق ،جامع معقول و منقول ،حاوی اصول و فروع ، مرجع العلماء والفضلاء،رئیس المحققین ،سید المتکلمین ،شیخ الاسلام و المسلمین کے قرائن و انتفاع بعلمہ الحال سے بتا رہا ہے کہ جا نشین محدث اعظم ہند حضرت علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی جیلانی صاحب ادامۃ اللہ المنان علی رؤس الانس و الجان بطول حیاتہ پندرھویں صدی ہجری کے تاج مجددیت سے سرفرازہوئے  ہیں   ؎
بالائے سرش ز ہوشمندی     می تافت ستارہ بلندی
آج سے پائو صدی پیشتر جب کہ دنیائے اسلام پر دہریت ،اشتراکیت ،مودودیت ،صلح کلیت کی بلائوں کے طوفان ہر چہار جانب سے آرہے تھے ۔ایسے نازک ماحول اور قحط الرجالی دور میں ہماری آنکھیں اگر کسی شمع بزم ہدایت محمدی پر نظر پڑتی ہے تو ہمارا دل نہایت عجز و انکسارکے سے  قاطع شرک و بدعت ،حامی دین و ملت ،مجدد ما ئۃ حاضرہ ،مؤید ملت طاہرہ ،تقدس مأب شیخ الاسلام  و المسلمین حضرت  علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی جیلانی صاحب ادامہ اللہ المنان علی رؤس الانس و الجان بطول حیاتہ کی ذات وجاہت اور علمی حسن لیاقت اور اخلاقی علوء مرتبت کے رو برو سر تسلیم خم کرنے کی ہدایت فرماتا ہے ۔و ذالک فضل اللہ یئو تیہ من یشاء و اللہ ذو الفضل العظیم ۔
   حضرت شیخ الاسلام کی زندگی کا خلاصہ یا نچوڑ احقاق حق و ابطال باطل اور رد بدعات و منکرات و مودودیت ہے ۔زندگی سے مراد آپ کی تصنیف و تالیف ، تحریر و تقریر اور کردار و گفتار و رفتار کے روایات جو ہم تک پہنچی ہیں کہ حضرت مجدد وقت شیخ الاسلام کچھوچھوی کے کا تجدید و احیائے دین میں نمایاں پہلورد و ابطال عقائد باطلہ کو حاصل ہے ۔
         حدیث شریف میں مجدد کا فرض ارشاد ہوا ۔  یجدد لھا دینھا ۔ اور اس حدیث شریف کی شرح مناوی میں ہے  یبن ا لسنۃمن البدعۃ و یذل اھلھا ۔اور سراج منیر نے علقمی سے تجدید کا معنیٰ یہ بتایا ہے کہ ۔ احیاء ما اندرس من العمل با لکتاب والسنۃ و الامر بمقتضاھا۔تجدید کا معنی اور مطلب ظاہر ہے کہ مجدد کی وسیع نظر دیکھ رہی ہو کہ مبتد عین و ضالین کی ریشہ دوانیاں دین متین کے کس پہلو کو کرید رہی ہیں اور کس بدعت و ضلالت کی ترویج و اشاعت ہو رہی ہے اور کتاب و سنت کے کن اعما ل صالحہ کا اندراس ہو رہا ہے ۔ 
  حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی کے منصب تجدید کو سمجھنے کے لئے جہاں اُس دور کے مذہبی اور سیاسی ماحول کا سمجھنا ضروری ہے ۔وہاں اُن فکری اور اخلاقی محرکات کا پیش نظر رکھنابھی لازمی ہے جو حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی کی علمی ،دینی خدمات اور ان کی تصنیفات اور ان کی عظیم خطابات کے پیچھے ہیں ۔چنانچہ مجدد مائۃ حاضرہ ،مؤید ملت طاہرہ ،جا نشین محدث اعظم ہند حضرت علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی جیلانی صاحب ادامۃ اللہ المنان علی رؤس الانس و الجان بطول حیاتہ کی عاقبت بیںوسیع نظر نے دیکھا کہ قادنیت اور موددیت و اشتراکیت کی جڑیں پھیلانے کی ناپاک جدو جہد کی جا رہی ہے ، قادنیت اور موددیت و اشتراکیت کی جال بچھائی جا رہی ہے ۔ان کی ناپاک تحریک مسلمان کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے قدم بڑھا رہی ہے ۔اسلام اور مذہب کا نام لیکر وہابیت ،نیچریت ،قادیانیت ،مودودیت کی ایمان سوز تحریک کو پھیلا کر مسلمانوں کے حقیقی اسلام ہی ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ایسے فرعونی و طاغوتی طاقتوں کے مقابلہ کشور علم و حکمت کے تاجدار ،میدان خطابت کے شہسوار ، پرتومحدث اعظم ہند،ضیائے عالم ربانی مولانا سید احمد اشرف اشرفی ،کرامت ہم شبیہہ غوث اعظم جیلانی اعلی حضرت اشرفی ،عطائے غوث العالم مخدوم اشرف سمنانی حضرت علامہ شیخ الاسلام کچھوچھوی نے جس وقت سیف قلم و شمسیر لسان لے کر اعدائے دین کو للکا رتا ہوا رزمگاہ حق و باطل میں اترا اور نام نہاد تحریکات کے چہروں کوایسا بے نقاب کیا اورگمراہوں کو راہ مستقیم دکھائی کہ اپنے تو اپنے غیروں نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے اور آپ کے علم و فضل و آگہی کے آگے جبین عقیدت جھکا دی اور آپ کے عقیدت کیشوں میں شامل ہو گئے ۔
    تجدید نام ہی ہے انسان کی اس صفت راسخہ کا جس کی قوت بڑی سے بڑی طاقت پر قابو یافتہ ہو کر حق و باطل کے درمیان خط امتیا زکھینچتا ہے ،یہی وہ جوہر ہے جو حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی کی تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر میں نمایاں حیثیت سے اجاگر ہے ۔یہ خدا کی ایک بخشی ہوئی طاقت ہے جو احیاء و تجدید دین و سنت کی خاطر کسی بر گزیدہ بندہ کو دی جاتی ہے ۔ذالک فضل اللہ یئو تیہ من یشاء۔ انھیں برگزیدہ شخصیتوں میںامام اہل سنت ،علامۃ، الدھراقدس حضرت ،عظیم البرکت، شیخ الاسلام و المسلمین سید محمد مدنی اشرفی جیلانی کچھوچھوی صاحب ادامۃ اللہ المنان علی رؤس الانس و الجان بطول حیاتہ کانام نامی بھی ہے ۔
چنانچہ آپ نے جماعت اسلامی (مودودیت)کے بانی و محرک ابو الاعلیٰ مودودی کے ایمان سوز تحریک و تحریف کی گرفت کرتےہوئے قرآن و احادیث اور تفاسیر و اقوال ائمہ اسلام کے دالائل و براہین بھر پور ،لاجواب طرز استدلال کے ساتھ خدا داد قوت و استعداد و صلاحیت سے مودودیت کو مفلوج و بے بس کرکے رکھ دیا،  مودودیت کی مردودیت کو اجاگر کر کے بے نقاب کیا اور اسلام کو نکھار کر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا جسے تجدید و احیاء دین کہتے ہیں ۔
   چنانچہ مجدد مائۃ حاضرہ حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی نے مودودیت کی رد بلیغ میں متعدد کتابیں تصنیف فرمائی ہے ۔ 
 (۱)  فریضئہ دعوت و تبلیغ  :  یہ کتاب ۳۶ ؍صفحات پر مشتمل ہے۔ طبع اول  ۱۹۶۶ ؁ ء  ۔  ناشر دار التصنیف و التالیف مبارکپور اعظم گڑھ یوپی ۔
اس کتاب کی تصنیف کا پس منظر یہ ہے جماعت اسلامی (مودودی) کے ایک فرد نے مجدد وقت حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی قبلہ سے تین ؍۳ سوالات کیئے جن کا خلاصہ یہ تھا کہ صحابہ و تابعین اور تبع تابعین جیسی مقدس اسلامی شخصیتیں یا تو روح اسلام سے خالی تھیں یا اسلامی مزاج سے آشنا نہیں۔لھٰذا رسول کے لائے   
ہوئے دین کو لوگوں نے اپنے ذہن و دماغ اور عقیدہ و عمل سے باہر نکال دیا اورایک نئے اسلام کے ماننے والے بن کر رہ گئے ۔انھوں نے ایک ایسے اسلام کو چن لیا جس کو اپنانے سے لادینی کی راہ اختیار کرنا بہتر تھا ۔
 حضرت مجدد مائۃ حاضرہ شیخ الاسلام کچھوچھوی نے فریضئہ دعوت و تبلیغ سے متعلق اسلامی نظریہ کو واضح فرمایا کہ جو جس درجہ اور جس مقام کا عالم شریعت ہوگا اس کو اسی قسم کی دعوت و تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کا حق پہنچتاہے جو اسی کے مقام کے لائق ہے اور اگر اس سے زیادہ 
 بوجھ ڈالا گیا تو یہ تکلیف ما لا یطاق ہوگا ۔
(۲)  اسلام کا تصور الٰہ اور مودودی صاحب:  یہ کتاب ۲۰۰ ؍ صفحات پر مشتمل ہے ۔ طبع اول  ۱۹۶۷ ؁ ء  ناشر محدث اعظم اکیڈمی کچھوچھہ مقدسہ۔اس کتاب کی تصنیف کا پس منظر یہ ہے کہ مودودی اور ان کی جماعت اسلامی کے نظریات پر یعنی ابو الاعلی مودودی صاحب کی کتاب ،،قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ،،میں الٰہ ،رب ،عبادت ، دین کی جو ایمان سوز تشریح و توضیح اور تحقیق کی تھی۔
حضرت مجدد مائۃ حاضرہ شیخ الاسلام کچھوچھوی نے اسلام کی پہلی بنیادی اصطلاح ،،الٰہ،،کی قرآن و احادیث و مفسرین اور اقوال ائمہ اسلام کی روشنی میں تشریح و توضیح اور تحقیق فرماکر مودودیت کی بیخ کنی فرمادی ہے ۔یہ کتاب ایک دیباچہ اور پانچ عناوین اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے (۱)  الٰہ کی لغوی تحقیق  (۲)مودودی صاحب کی تشریحات کا تحقیقی تجزیہ (۳)اہل جاہلیت کا تصور الٰہ (۴)الوہیت کے باب میں املاک امر (۵)  مودودی صاحب کے خیالات کا اجمالی جائزہ۔  
 (۳)  اسلام کا نظریئہ عبادت اور مودودی صاحب:   یہ کتاب ۲۲۴ ؍ صفحات پر مشتمل ہے ۔ طبع اول ۱۹۶۸ ؁ ء  ناشر محدث اعظم اکیڈمی کچھوچھہ مقدسہ۔اس کتاب کی تصنیف کا پس منظر یہ ہے کہ مودودی صاحب کی کتاب ،،  قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں،، میںسے دوسری بنیادی اصطلاح نظریئہ عبادت سے متعلق قرآن و احادیث و مفسرین اور اقوال ائمہ اسلام کی روشنی میں تشریح و توضیح اور تحقیق فرماکر مودودیت کی بیخ کنی فرمائی ہے ۔
   یہ کتاب مندرجہ ذیل عناوین مشتمل ہے (۱  )عبادت کی لفظی تحقیق (۲)مودودی صاحب کی علمی خیانتیں (۳)مودودی صاحب   کے دوسرے علمی جواہر پارے (۴)مودودی صاحب کی ایک غیر ضروری کوشش (۵)لفظ عبد کی تحقیق (۶)مودودی صاحب کی تشریحا ت کا تحقیقی جائزہ (۷)مودودی صاحب کا نظریئہ عبادت (۸)مودودی صاحب کی پریشان خیالیاں (۹)مودودی صاحب کے نزدیک ایمان کیا ہے (۱۰)عبادت کے متعلق مودودی صاحب کے مزید خیالات (۱۱)امت مسلمہ کے عوام پربرہمی اور بہتانات (۱۲)خواص امت پر بھی بیجا بر افروختگی (۱۳)مسئلہ خلافت و حکومت (۱۴)لفظ عبادت کا استعمال قرآن میں (۱۵)عبادت بمعنیٰ اطاعت(۱۶)عبادت بمعنیٰ پرستش (۱۷)عبادت بمعنیٰ بندگی و اطاعت و پرستش (۱۸ )اسلام کا نظریئہ عبادت ۔
 (۴)  دین اور اقامت دین  :   یہ کتاب۳۰۴ ؍ صفحات پر مشتمل ہے ۔ طبع اول ۱۹۶۸ ؁ ء   ناشر محدث اعظم اکیڈمی کچھوچھہ مقدسہ اس کتاب کی تصنیف کا پس منظر یہ ہے کہ مودودی صاحب کی کتاب ،،قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ،،میںسے تیسری بنیادی اصطلاح ،،دین ،،سے متعلق مودودی صاحب کے افکار و نظریات کاحضرت مجدد مائۃ حاضرہ شیخ الاسلام نے محققانہ اور ناقدانہ تعاقب فرمایا ہے کہ دین اور اقامت دین کے مفہوم کو سمجھنے میں مودودی صاحب کے قلم نے جہاں جہاں ٹھوکریں کھائی ہیں ان مقامات کو واضح اور روشن کر کے لوگوں کے لئے قلم و قدم کی لغزش سے محفوظ رہنے کا ذریعہ اور سامان ہدایت مہیا فرمادیا ہے ۔
  یہ کتاب بھی مندرجہ ذیل عناوین اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے (۱)دین کی لغوی تحقیق (۲)دین اور جزاء میں نازک سا فرق (۳)لفظ مذہب کی تحقیق (۴)لفظ ملت کی تحقیق (۵)مودودی صاحب کا ارشاد (۶)قرآن فہمی کے لئے چار ضروری امور (۷)انصاف پسند مفسر کا فرض (۸)موجودہ دور کا المیہ (۹ )کیا قرآن کی ترجمانی ممکن ہے (۱۰)قرآن میں لفظ دین کا استعمال (۱۱)مودودی صاحب کی تشریحات کا تحقیقی جائزہ  (۱۲)اقامت دین (۱۳)ایک غلط فہمی کا ازالہ (۱۴ )ایک سطحی اور خطرناک روش (۱۵)مودودی صاحب کی فکری کجی (۱۶)ایک مغالطہ اور اس کی اصل وجہ (۱۷)قرآن مجید کو آنکھ کھول کر پڑھیئے (۱۸)مودودی صاحب اپنے آئینہ میں 
 (۵)  دین کامل  :  یہ کتاب۳۲ ؍صفحات پر مشتمل ہے۔ طبع اول  ۱۹۶۶ ؁ ء  ناشر دار التصنیف و التالیف مبارکپور اعظم گڑھ یوپی۔
  مجدد مائۃ حاضرہ ،مؤید ملت طاہرہ ،اقدس حضرت، سراپا برکت شیخ الاسلام کچھوچھوی نے اس کتاب میں قرآنی آیات و احادیث کریمہ کی روشنی میں یہ ثابت فرمایا ہے کہ دین اسلام کے علاوہ سارے مذاہب خصوصاً یہودیت اور عیسائیت افراط و تفریط کا شکار ہونے کی وجہ سے کامل نہیں ہیں اور صرف مذہب اسلام ہی ہے جو افراط و تفریط سے پاک صاف ہے ،اور پوری انسانیت کے درد کا درماں ہے ۔    اس کتاب کے مطالعہ سے ہر قاری اس نتیجہ پر بآسانی پہنچ جاتا ہے کہ یہودیت اور عیسائیت عصر حاضر میں ناقابل عمل دین ہے اور مذہب اسلام ہی کامل و مکمل دین ہے جسکی پیروی ہر شخص کے لئے ضروری ہے۔
 (۶)نظرئیہ ختم نبوت اور تحذیر الناس  : یہ کتاب۴۵؍صفحات پر مشتمل ہے۔ طبع اول۱۹۷۴ ؁ ء  ناشر المیزان پبلی کیشیز ۔
 یہ کتاب قاسم نانوتوی کی کتاب تحذیر الناس میں مذکور ختم نبوت سے متعلق نظریہ کی تردید و تنقید پر مشتمل ہے ۔حضرت مجددین وملتشیخ الاسلام کچھوچھوی نے اس کتاب میں قرآنی آیات و احادیث کریمہ اور تفاسیر معتبرہ کی روشنی میںدلائل و براہین سے بھر پور ۔سنجیدہ،اور ٹھوس ولا جواب طرز استدلال سے چار چاند لگا دیا ہے اور منکرین ختم نبوت اور من گھڑت تاویل و تفسیر و تشریح کر نے والوںکے تابوت پر آخری کیل ٹھوک دی ہے ۔
  (۷)مسلم پرسنل لایا اسلامک لا  ؟  :  یہ کتاب۷۸؍صفحات پر مشتمل ہے۔ طبع اول۱۹۸۵ ؁ ء  ناشر المیزان پبلی کیشیز ۔
             مجدددین و ملت،امام اہل سنت، اعلی حضرت فی زماننا ،اعلم العلماء عند العلماء ،رئیس المحققین ،شیخ الاسلام و المسلمین سید محمد مدنی اشرفی جیلانی کچھوچھوی صاحب قبلہ کی یہ کتا ب دستاویزی اہمیت کے حامل ہے ۔  
           اس کتاب میں حضرت مجدد دین و ملت شیخ الاسلام کچھوچھوی نے شاہ بانو کیس سے متعلق مسلم پرسنل لاکی اصطلاح کو غلط قرار دیا ہے اور یہ واضح فرمادیا ہے کہ مسلمانوں کے پاس جو قانون ہے وہ ان کا ذاتی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا اتاراہو اقانون ہے اور اس میں کسی قسم کی مداخلت شریعت میں مداخلت کے مترادف ہے ۔حضرت شیخ الاسلام نے طلاق و نان و نفقہ اور اسلامی عائلی قوانین سے متعلق تمام ضروری مواد نہایت عمدہ اور خوبصورت انداز نگارش میں جمع فرما کر حکومت ہند کوتنبیہ فرمائی ہے کہ اسلامی قوانین پر بیجا مداخلت ہرگزنہ کریں ۔ 
  (۸)امام احمد رضا اور اردو تراجم کا تقابلی مطالعہ :  یہ کتاب۷۸؍صفحات پر مشتمل ہے۔ طبع اول۱۹۸۲ ؁ ء  ناشر المیزان پبلی کیشیز ۔  مجدد دین و ملت ،حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی کی یہ کتاب در اصل دار العلوم دیوبند کے سر براہ اور شعبئہ علوم قرآن کے مدرس مولوی محفوظ الرحمن قاسمی کے چھ ؍۶قسطوں پر مشتمل مضمون کا تحلیل و تجزیہ ہے جو ماہنامہ دار العلوم دیوبند میں شائع ہوا تھا ۔اس کے ذریعہ ترجمہ کنز الایمان کو تفاسیر معتبرہ اور منشاء خدا وندی کے خلاف قرار دیا گیا تھا ۔  
  مجدد دین متین ،رئیس المحققین ،عمدۃالمفسرین ،سید المتکلمین ،شیخ الاسلام و المسلمین،علماء وقت کا مشار الیہ ،فضلائے زماں کا مرجع ،رازی زماں، غزالی دوراںعلامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی صاحب ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ کے آہوئے قلم سے نکلا ہوایہ نافہ مشک بار اور عطر بیز ہے ۔علوم شرعیہ میں حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوکی تبحر علمی اور ہمہ گیری کا ترجمان ہے ۔
مجدد اسلام حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی دامت برکاتہ نے اپنی اس کتاب میں امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ پر لگائے گئے تمام الزامات کا علمی اسلوب میں عالی شان تحقیقی جوابات دیا ہے اور ترجمہ کنز الایمان کی اہمیت و معتبریت کو واضح تر فرما دیا ہے ۔جس سے امام احمد رضا کی عبقریت بھی واضح ہو تی ہے او خودعلوم قرآ ن میں حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی کا درک واستحضار کا بھی پتہ چلتا ہے ۔
 (۹)مقالات شیخ الاسلام: طبع اول۲۰۰۴  ؁ء  ناشرگلو بل اسلامک مشن نیو یارک امریکہ۔
یہ کتاب در اصل حضرت مجدد اسلام ،شیخ الاسلام کچھوچھوی کے چند مطبوعہ مقالات کاایک مجموعہ ہے (۱)شرح التحقیق البارع فی حقوق الشارع یعنی مختار دو عالم ﷺ کی تشریعی اختیارات (۲)اشتراکی سوالات کے اسلامی جوابات (۳)تحریم اور فلسفہ تحریم (۴)ایک تعلیم یافتہ خاتون کے تین سوالات اور ان کے جوابات ۔
  بلا شبہہ حضرت مجدد دین و ملت شیخ الاسلام کچھوچھوی صاحب قبلہ اپنے دور میں حدیث دانی کے اعلی مقام و منصب میںوحید العصراور منفرد ہیں آپ کی حدیث دانی کا عالم یہ ہے کہ جب آپ حدیث بیان کرنے پر آتے ہیں تو بلا شبہہ آپ محدث اعظم ہند کا جانشین فی الحد یث و الفقہ نظر آتے ہیں اور جماعت محدثین کی یاد قائم فرما دیتے ہیں ۔آپ جب کبھی فن حدیث کو اپنا موضوع سخن بناتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک آنکھ بخاری کے صفحات پر ہے تو دوسری مسلم شریف کے اوراق پرہے ۔متون احادیث سے فراغت کے بعد اس کے شروح و حواشی کی طرف متوجہ ہو کر محدثانہ ،فقیہانہ ،عالمانہ و ناقدانہ انداز خطابت میںجواہر پارے لٹاتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ابھی امام بخاری و اما م مسلم کی مجلس سے چلے آرہیں ۔آپ کی محدثانہ شان وشوکت اور منصب و مقام کا صحیح اندازہ آپ کے مطبوعہ متعدد تصانیف سے ہوتاہے کہ علم حدیث میں بھی آپ کو محیر العقول ملکہ حاصل ہے ۔چنانچہ قارئین کی خدمت میں شرح احدیث کی چند مطبوعات کا اجمالی تعارف پیش کرتاہوںجو چھپ کر مقبول عام ہو چکی ہے اور آج بھی اہل علم کے کتب خانوں میں موجود ہے ۔
(۱۰)تعلیم دین و تصدیق جبریل : یہ کتاب۱۱۰؍صفحات پر مشتمل ہے۔ طبع اول ۲۰۰۴؁ء ناشرگلو بل اسلامک مشن نیو یارک امریکہ۔
 یہ کتاب حدیث جبریل کے نام سے مشہور ومعروف ہے جس کی محدثانہ و فقیہانہ تو ضیح و تشریح فرمائی ہے کہ علمی جواہر پارے پوری کتاب میں بکھرے پڑے ہیںجس کے مطالعہ سے تعلیم دین کے انوار و برکات سے قلوب منور و متجلی ہو جاتے ہیں ۔
(۱۱)  ا  نماالاعمال بالنیات  :  یہ کتاب۳۸؍صفحات پر مشتمل ہے۔ طبع اول  ۲۰۰۴؁ء  ناشرگلو بل اسلامک مشن نیو یارک امریکہ۔
   یہ کتاب مشہور و معروف حدیث نیت کی محدثانہ، محققانہ توضیح و تشریح پر مشتمل ہے ۔حدیث نیت میں پوشیدہ اسرار و رموز،دقائق و حقائق ،معانی و معارف کو نہایت عمدہ اسلوب میں بیان فرمایا ہے ۔جس کو پڑھنے والا حضرت شیخ الاسلام کی علمی گہرائی اور خدا داد صلاحیتوں کا اقرار کئے بیغیر نہیں رہ سکتا ہے ۔
(۱۲) محبت رسول روح ایمان  : یہ کتاب۴۸؍صفحات پر مشتمل ہے۔ طبع اول  ۲۰۰۷؁ء ناشرگلو بل اسلامک مشن نیو یارک امریکہ۔
                 اس کتاب میںحضرت شیخ الاسلام نے حدیث شریف لا یئو من احدکم  الخ کی محدثانہ، محققانہ توضیح و تشریح فرمائی ہے کہ جس کے مطالعہ سے محبت رسول اللہ ﷺ میں اضافہ اور آداب و عظمت مصطفیٰ ﷺ سے مکمل آگاہی ہوجاتی ہے اور قلب و سینہ  عشق رسالت  ﷺ سے جھوم جھوم جاتا ہے  
 (۱۳) الاربعین الاشرفی   :    یہ کتاب۴۰۹؍صفحات پر مشتمل ہے۔ طبع اول  ۲۰۰۵؁ء  ناشرگلو بل اسلانک مشن نیو یارک امریکہ۔
چالیس احادیث کی اہمیت و فضیلت سے متعلق بہت سی احادیث وارد ہیں اور اسی لئے متقدمین و متأخرین علماء نے اربعین کے نام سے احادیث کا مجموعہ تیار کیا ہے اسی لئے حضرت شیخ الاسلام نے بھی چالیس احا دیث کو جمع فر ما کر اس کا اردو میں ترجمہ و محدثانہ و فقیہانہ تشریح و توضیح فرمائی ہے ۔پوری کتاب علمی نکات و فنی جواہرپاروں سے پر ہے۔
(۱۴)تجلیات سخن  :  یہ کتاب۲۵۴؍صفحات پر مشتمل ہے اس کے دو حصے ہیں ۔ طبع اول ۲۰۰۴؁ء ناشرسید محمد خالد انور ایڈوکیٹ لکھنو ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ مجدد دین و ملت حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ اگر ایک طرف دین متین و شریعت کے مقتدر امام اور اہل سنت و جماعت کے پیشوا ہیں تو دوسری طرف تصوف و طریقت کے بلند پایہ و مایہ ناز مقتدا بھی ہیں ۔ آپ کی عظیم و جلیل شخصیت پر دنیائے اسلام وسنیت کو بجا طور پر فخر و ناز ہے 
مجدد دین و ملت حضور شیخ الاسلام کچھوچھوی قرآن و حدیث و تفاسیر کے علوم و معارف پرمہا رت تامہ رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ ایک کہنہ مشق اور عاشق رسول نعت گو بھی ہیں ۔آپ کے نعتیہ کلام کا ایک ایک شعر عشق رسول کے گہرے درد و سوز میں ڈوبا ہوا ہے جو ارباب نظر و اہل دل کی مضطرب روح کاسکون و قرارہے ۔
 (۱۴)سید التفاسیر معروف بہ تفسیر اشرفی :مکمل سات ؍۷ جلدوں میں تیس پاروں کی تفسیر ۔ ناشر شیخ الاسلام ٹرسٹ احمد آباد ۔
مجدد دین متین ،رئیس المحققین ،عمدۃالمفسرین ،سید المتکلمین ،شیخ الاسلام و المسلمین،علماء وقت کا مشار الیہ ،فضلائے زماں کا مرجع ،رازی زماں، غزالی دوراںعلامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی صاحب ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ کا تحریری شاہکار اور کلام الٰہی کی تفسیری اثاثہ میں ایک شاندار اضافہ ۔
ایک مجدد کے لئے اسلام میں جن علوم ظاہریہ کا تقاضا کرتا ہے وہ یوں ہے کہ علوم قرآنیہ پر وہ پوری نظر رکھتا ہو جس میں ایک طرف وہ منشاء دین سے اچھی طرح واقف ہو تو دوسری طرف تفسیر با الرائے سے محفوظ رہے ،ارشادات رسو ل اللہ ﷺ و صحابہ کرام ،ائمہ دین علمائے مجتہدین کے اقوال پر تفقہ کے ساتھ کامل نگاہ رکھے ،اصول احادیث،علم اسماء الرجال سمیت علوم احادیث میں پوری پوری دستگاہ رکھتاہو اور احادیث کا مفہوم سمجھنے سمجھانے کے لئے ائمہ کلام اور ائمہ فقہاء کے اقوال پر گہری نظر رکھے اور اصول کلام و اصول فقہ ماہرہو قرآن و احادیث میں ناسخ و منسوخ اچھی طرح جاننے والا ہو اور ان علوم میں کمال کے لئے علم نحو و صرف ،علم لغت و علم بیان و معانی اور محاورا ت عرب میں مہارت تامہ ضروری ہے ۔
   بلا شبہہ پندرھویں صدی ہجری کے اس مایئہ ناز فاطمی کا چمن کا پھول ،مدنی فرزن جانشین محدث اعظم ہند حضرت شیخ الاسلام سید محمد مدنی اشرفی جیلانی ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ کے سینے میں قرآن فہمی کی خداداد صلاحیت ودیعت ہوئی ہے ۔علوم قرآن ،تاویل آیات و تفسیرات سلف میں رسوخ و تبحر ،استحضار و تفکر اور مفاہیم قرآن کی تعبیروتفسیرمیں محیر العقول قوت راسخہ رکھتے ہیں،تفاسیر معتبرہ راجحہ پر بھی آپ کی گہری نظر ہے ،آپ کو علم تفسیر کے تما م فروعات پر بھی ملکہ حاصل ہے ۔سلاست بیان کا تو کیا پوچھنا زبان کے کے تو دھنی ہیں اور انداز بیان کچھ ایسا ہے کہ تفسیر پڑھنے والے پر ایسی محویت طاری ہو جاتی ہے اور اس کو اس کے اندر اس قدر چاشنی ملتی ہے کہ وہ شروع کرنے کے بعد ختم کرنا گویا بھول جاتا ہے ،ہر جملہ آنے آنے والے جملے کا اتنا منتظر بنادیتا ہے کہ اس کے پڑھے بے غیر تسکین ہی نہیں ہوتی ۔قرآن کے لفظی ترجموں کو تفسیر کی عبارتوں میں اس طرح سے ضم فرما دیا ہے کہ پڑھنے والا احساس نہ کر سکے اور تفسیر کے ساتھ ساتھ ترجموں کی تلاوت ہو جائے اور قرآن کا صحیح مطلب سلیس اور واضح طور سامنے آجائے ۔قرون اولیٰ سے لیکر آج تک تخریب پسند حضرات کے ذہنوں کی اختراعی اعتراضات تفسیر پڑھتے ہی ہوا ہو جاتے ہیں ،آیات قرآنیہ کی تعبیر و تفسیر سے احکام شرعیہ کا    
کا استنباط اور مسائل ضروریہ و فرعیہ کا استخراج بھی ہوتا ہو ا نظر آتا ہے اور مذہب حنفیہ کی قوت واضح ہو جاتی ہے اور ان معترضوں کی قلعی بھی کھل جاتی ہے جو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ علماء احناف زیادہ تر قیاس سے مسائل کا استخراج کرتے ہیں۔
           یہ ایک حقیقت ہے قرآن جس طرح ایک صائم النہار اور قائم اللیل کے لئے دلیل و مشعل راہ ہے اسی طرح ایک زمیندار و تاجر کے لئے بھی سامان ہدایت ہے ۔سلاطین سے لے کر فقراء تک کا نظام حیات اس میں مکمل موجود ہے اور موجودات کی کو ئی خشک و تر شئی اس کے احاطئہ بیان سے خارج نہیں ہے  ۔ما فرطنا فی الکتاب من شئی ولا رطب و لا یابس الا فی کتاب مبین نزلنا علیک الکتاب تنیاناً لکل شئی ۔جن کی نگاہیں وسیع تھیں وہ فرما دیا کرتے تھے کہ فقہ نہیں مگر تفصیل و تبویب مسائل قرآن ۔پس مرجع کل و منبع شرع صرف اورصرف قرآن کریم ہے یہاں تک کہ بعض مفکرین اسلام نے علم ہیئت ،علم ہندسہ،علم نحو ،علم طب اور دیگر علوم عربیہ کا استخراج قر آن کریم سے فرمایا ہے ان تمام علوم قرآنیہ میں علم تفسیر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے لھٰذا اس کو سید العلوم کہاجائے تو بیجا نہ ہو گا ۔حضرت شیخ الاسلام نے اسی نسبت سے اور نیز اس نسبت سے بھی کہ حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ نے خود قرآن کریم کی تفسیر شروع فرمایاتھا کہ ابھی آپ نے فقط تین پارے ہی کی تفسیر لکھی تھی کہ اچانک اللہ کو پیارے ہو گئے اسی طرز پر اسی انداز کے اسی کا مکمل نمونہ اسی کا آئینہ اسی لب و لہجہ میں ایسالگتا ہے کہ حضرت شیخ الاسلا م قبلہ حضور محدث اعظم ہند کے ہاتھ میں چوں قلم در دست کاتب ہیں۔اور نیز اس نسبت سے بھی کہ حضور محدث اعظم ہند کا تخلص سید ؔ تھا اور نیز اس نسبت سے بھی کہ ہم شبیہہ غوث اعظم جیلانی ،پروردہ و نظرکردئہ سِہ محبوباں ،حضور محدث اعظم ہند کے مربی و مرشد اور نانا جان سید شاہ علی حسین قدس سرہ کا تخلص اشرفی ؔ تھاا س تفسیرعالیشان کانام سید التفاسیر معروف بہ تفسیر اشرفی سے موسوم فرمایاہے ۔ 
             آپ کی تفسیراشرفی پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ مجدد اسلام حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی نے علمائے متقدمین و متأخرین کی تفاسیرکے جواہر پاروں اور ان کے لب لباب کو خطابت و سلا ست کا جامہ پہنا کرنذر قرطاس کر دیاہے ب۔روایت و درایت کا ایسا حسین امتزاج کہ جہاں ایک طرف سعدی کی زبان کی شیرینی تو دوسری جانب امام رازی و غزالی کے حسن تدبیر کے جلوے اور مذہب حنفیت کی قوت کے قدرتی نظارے اسی سید التفاسیر معروف بہ تفسیر اشرفی کے مخصوصات سے ہیں ۔
          حضرت رئیس المحققین شیخ الاسلام و المسلمین کچھوچھوی ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ نے شروع سے آخر تک اس بات کا خیال رکھا ہے کہ اس سے پڑھے بے پڑھے سب یکساں طور پر فائدہ حاصل کر سکیں حتیٰ کہ نا خواندہ حضرات کو پڑھ کر صرف سنادیا جا ئے تو وہ بھی اس کو پورے طور سمجھ سکتے ہیں یہ ایک ایسی انفردی خصوصیت ہے جو اس تفسیر اشرفی کو اردو کے سابق تفاسیر پر ممتاز کر دیتی ہے 
                     جس طرح مجدد دین و ملت اعلی حضرت امام احمد رضاخاں فاضل بریلوی قدس سرہ نے اپنے شاگرد رشیدحضور محدث اعظم ہند قدس سرہ کا ترجمہ قرآن کریم ،،معارف القرآن ،،دیکھ کر فرمایاتھا کہ شہزادے اردو میں قرآن لکھ رہے ہو ۔ائے کاش اگر آج امام اہل سنت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ موجودہوتے اور حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی کی اس تفسیر ،،سید التفاسیر معروف بہ تفسیر اشرفی ،، کو دیکھ لیتے تو بلا شبہہ آپ ضرور فرماتے کہ ،،شہزادے آپ اردو میں جلالین لکھ رہے ہو ،،    ؎      
مدت کے بعد ہوتے ہے پیدا کہیں وہ لوگ 
 مٹے  نہیں ہیں دہر سے جن کے  نشاں کبھی 
             ایک مجدد کو صحت مند عقائد ،تقوی آمیز عمل اور علوم شرعیہ کے ساتھ بصیرت اسلامیہ و تفقہ فی الدین بکمال عطا کیا جاتا ہے جو تجدید و احیاء دین کی جان ہے اور یہ وہ نور ہے جس کی روشنی میں اسلامی دائرہ میںرہکر محیر العقول کارنامے انجام دیتا ہے جس سے دوسر اذہان خالی ہو تے ہیں ۔
                الحمد للہ دنیا نے دیکھ لیا کہ رب کریم و رحیم نے حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ کی آرزو و تمناء کو پور ی فرمادیا اور  دنیائے اہلسنت پر بے پایاں احسان و کرم فرمایا کہ پندرھویں صدی ہجری کا تاج مجددیت سے شہزادئہ محدث اعظم ہند حضرت شیخ الاسلام مولانا سید محمد مدنی اشرفی جیلانی کو۴۲ ؍سال ی عمرمبارک میں سرفراز فرمایا جس کا وعدہ مختار دو عالم محمد مصطفیٰ ﷺ کی زبان مبارک پر کیا گیا تھا ۔جس نے اپنی حیرت انگیز انقلاب سے امت مسلمہ کی اصلاح کی خاطر ہر جگہ پہنچ کربادل بن کر جھوم جھوم کر برسے اور تاریکیوں کو دور کر دیا ،اوراسلام و سنیت پر چھاپہ مارٹولیوں، انسانیت کے غارتگروںکو گھیر گھیر کر وہ ضربیں لگائیں کہ وہ دم توڑنے پر مجبور ہو گئے ۔امت مسلمہ کا رشتئہ محبت اس کے محبوب رسول  ﷺ کے ساتھ اسطرح استوار کردیا کہ اس وسا طت سے عبد و معبود کے تعلق میں رخنہ اندزی ختم ہو جائے اور ہر مسئلہ کو صبح روشن کی طرح ایسا عیاں کر دیا کہ حیرانی و پریشانی کافور ہو گئی ۔عاملین اسلام کو ایمانی و روحانی ،علمی و عملی سکون و اطمینان نصیب ہوا     ؎
تمھیں پھیلا رہے ہو علم حق اکناف عالم میں
  امام  اہل سنت  نائب غوث الوری  تم ہو  
            حضرت شیخ الاسلام جب منبر خطابت پر جلوہ گر ہوتے ہیں تو شہنشاہ بغداد کی بھیک برستی ہے ،خواجئہ خواجگاں سرکار اجمیر شریف کا صدقہ نچھاور ہوتے ہیں ۔اعدائے دین کی طرف روئے سخن پھیردے اور ترکش سنبھال لے تو باطل کا دل دہل جاتا ہے ،صف اعداء کو درہم برہم کر دیتے ہیں ،ایک ایک کا سینہ چھید  دیتے ہیں ۔وہ بولے تو با عظمت معلوم ہوتا ہے اور جب چپ ہوجائے تو وقار و طمانیت قدم چومتی ہے۔
           آپ کی خطابت میں علمی نکات و معارف کے پہلو بہ  پہلو خیالات کی پاکیزگی ،افکار کی بلندی ،علمی مصطلحات کی آسان تفہیم کے ساتھ اسلوب بیان کی فراوانی ،برجستگی و چاشنی اور احقاق حق و ابطال باطل کے جوہر کی فراوانی رہا کرتی ہے اور خطابت کی شان وہ کہ اقلیم خطابت کے تاجدار حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ کا طرز تخاطب کا مکمل نمونہ ،وہی اسلوب بیاں ،وہی زور استدلال ،وہی تفہیمات احا دیث       کریمہ ،وہی رموزو اسرار تفاسیر اور جزئیات فقہیہ کے شواہد کا ذخیرہ ۔ایسامعلوم ہو تا ہے کہ حضرت شیخ الاسلام کی زبان ہے اور مضمون حضور
محدث اعطم ہند قدس سرہ کا ہے۔
          حضرت علامہ مولانا شاہد رضا اشرفی صاحب نے حضور شیخ الاسلام کچھوچھوی ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ کی  تبلیغی خدمات یورپ و امریکا کے حوالے سے تفصیلات پیش کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے ۔
            جانشین مخدوم الملت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ ،شیخ الاسلام ،برہان المتکلمین ،دنیائے خطابت کے شہر یار حضرت رہبر شریعت ،ہادئی طریقت ،علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی مد ظلہ العالی کا نام مشرق و مغرب میں اہل اسلام کے حلقہ میں معروف و مشہور ہے ۔آپ نے بر صغیر کے سرحدوں سے نکل کر مغرب ممالک میں بھی تبلیغ دین کا نا قابل فراموش کارنامہ انجام دیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق مغربی دنیا میں آپ کی تبلیغی مساعی کا آغاز  ۱۹۷۴ ؁ ء میں آپ کے دورئہ برطانیہ سے ہوتا ہے ۔
             حضرت علامہ شاہد رضاشرفی صاحب نے حضور شیخ الاسلام کے غیر ممالک دینی تبلیغی اسفارو دور وں کو تین پہلوئوں سے ایک جائزہ پیش کیا ہے کہ ۔(۱)حضور شیخ الاسلام کا طرز تبلیغ و ہدایت (۲)حضور شیخ الاسلام کے دینی تبلیغی دوروں کی انفرادیت (۳)حضور شیخ الاسلام کے دینی تبلیغی دوروں کے اثرات ۔
حضور شیخ الاسلام کا طرز تبلیغ و ہدایت:  آپ کی تبلیغی سرگرمیوں اور اشاعت اسلام کے حوالے سے آپ کی کاوشوں کا مرکزی محور عوامی جلسوں سے آپ کا خطاب اور دینی اجتماعات میں آپ کی تقاریر ہیں ۔ان تقاریر میں آپ زیادہ تر اہل سنت و جماعت کے اعتقادیات اور معمولات پر گفتگو فرمائے ہیں ۔ آپ کے طرز خطابت کی یہ خصوصیت ہے کہ عوام و خواص یکساں طور پر مستفید و مستفیض ہوتے ہیں ۔تقریر کو تدریس اور تدریس کو تقریر بنانے کا فن عصر حاضر میں کے مبلغین میں آپ نے ہی متعارف کرایا ہے ۔عقائد پر گفتگو کے دوران علم کلام کے بعض علمی مسائل کو عوامی ذہن میں اتار دینے کا فن آپ کو بخوبی آتا ہے ۔اس باب میں تفہیم و تسہیل کے مختلف مراحل سے گزرنے کے لئے آپ بیحد دلچسپ مثالیں پیش کرتے ہیں اسطرح کہ بعض مثالوں کے آپ خود ہی موجد ہیں ۔
            آپ کا پیرایئہ بیان آسان بھی ہے اور دلنشیں بھی ۔آپ کے وعظ کا سامعین کے دل و دماغ پر بیحد گہرا اثرمرتب ہوتا ہے ۔لاکھوں ذہنوں کو آپ کے خطاب دل نواز نے دینی و روحانی انقلاب سے دو چار کیا ہے ۔آپ کے طرز تبلیغ و ہدایت کی یہ خصوصیت ہے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو آپ ،،قائل ،،کے ساتھ ساتھ ،،مائل ،،بھی فرمالیتے ہیں ،،از دل خیزد و بر دل ریزد،، کا ،،جلوہ،،آپ کے جلسوں میں بڑی آسانی سے دیکھا جاسکتاہے۔
        اپنی تقریر وں میں بسا اوقات آپ مذہب حق اہل سنت و جماعت کے حریفوں اور اکابرین اہل سنت و جماعت کے رقیبوں کابڑے  شدو مد کے ساتھ تعاقب کرتے ہیں اور سامعین و حاضرین پر اپنے اکابرین کی حقانیت و صداقت کو مدلل انداز سے ثابت کر دیتے ہیں ۔
         آپ کے طرز تبلیغ و ہدایت ایک بڑی خوبی ،،طنزو مزاح ،،کے وہ لطیف اور تیکھے اشارے ہیں جن سے آپ اپنی تقریر کو سامعین کے لئے پر کشش بناتے ہین اور جاذبیت کے پیرایہ کو زعفران زار بنا کر دل و نگاہ کو اپنی گفتگو کا اسیر بنالیتے ہیں ۔لیکن کمال یہ کہ آپ کی شائستگی کے معیار پر کبھی کوئی آنچ بھی نہیں آنے دیتے ہیں ۔علمی و لسانی لطائف سے محفلوں کو تفریح طبع فراہم کرنا اور ساتھ ساتھ مقاصد و مطالب کے حدودکا مکمل خیال رکھنا حضور شیخ الاسلام کچھوچھوی ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ کے عوامی خطابات ایک منفرد اور فقید المثال وصف و کمال ہے ۔
 حضور شیخ الاسلام کے دینی تبلیغی خطابات اور دوروں کی انفرادیت: 
 برطانیہ و دیگر ممالک میں حضرت شیخ الاسلام کے دینی تبلیغی خطابات اور مجالس سے ہزاروں افراد کو رب قدیر نے ہدایت عطا فرمائی ہے ۔فکر و نظر اور گفتار و کردار و سلوک کے اصلاح و تزکیہ کا ایک تحریکی نظام آپ کی بدولت اس خطہ میں آباد مسلمانوں کو میسر آیا ہے ۔
          مغربی ممالک میں سیکولر نظام تعلیم اور نسبتاً زیادہ لچکدار معاشرہ رہنے کے باعث ذہنوں میں اٹھنے والے بہت سے اہم یا غیر اہم سوالات کے جوابات کی ضرورت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے ۔ حضور شیخ الاسلام کچھوچھوی ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ نے مغربی معاشرہ کی اس ضرورت کو ایک مدبر اور دور اندیش مبلغ اسلام کی حیثیت سے تسلیم کر کے اپنی دینی تبلیغی دوروں میں اپنے نیاز مندوں کے گھروں پر سوال و جواب کی ان بے حد مفید مجالس کے قیام  کو ضروری قرار دیا اور ابتدائی پندرہ سالوں میں عوامی خطابات کے ساتھ ساتھ ان مجالس میں بڑی پابندی سے حصہ لے کر ہزاروں مشکوک ذہنوں کا تزکیہ فرمایا اور بیشمار پیاسوں کو عقائد اہل سنت و معمولات اہل سنت و اعمال صالحہ کی ارشاد ہدایت کے جام سے سیراب کیا۔لیسٹر Leicester  برطانیہ میں اپنے بارہ ؍۱۲ سال قیام کے دوران میں نے خود ان مجالس کے انعقاد میں حصہ لیا ہے ۔جہاں عموماًکسی عقیدت مند کے گھر پر نماز عشاء کے بعد کھانے کا اہتمام ہوتا ،بڑی تعداد میں لوگوں کو دعوت دی جاتی ۔علماء ائمئہ مساجد ،تاجر پیشہ حضرات،ڈاکٹر ز،وکلا،اساتذہ بزرگ و نوجوان جمع ہوتے اور کھانے کے بعد دو سے تین گھنٹون کی طویل نشست ہوتی ،جس میں مختلف نوعیت کے سوالات پوچھے جاتے اورحضور شیخ الاسلام کچھوچھوی ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ علم و عرفان کی مسند ارشاد و افتاء سے اشرفی فیوض وبرکات تقسیم فرماتے ۔تسلسل کے ساتھ منعقد ہونے والی ان کارنر میٹنگ نے برطانیہ بھر میں اہل سنت و جماعت کو بے حد فائدہ پہنچایا ۔انہیںاپنی مذہبی شناخت میسر آئی ۔عوامی جلسوں اور ان میں علمائے اہل سنت کی تقاریر کی اہمیت و ضرورت اپنی جگہ پر مسلم ہے ۔لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ حضور شیخ الاسلام کچھوچھوی ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ کی ان مجالس نے برطانیہ و دیگرمغربی ممالک میں ایک با شعور سنی معاشرہ کی تشکیل میں ایک تاریخی اور منفرد کردار ادا کیاہے ۔
            مجدد اسلام حضور شیخ الاسلام کچھوچھوی ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ کی علمی مجالس برطانیہ کے بہت سے شہروں مثلاً۔ لندن  London  برمنگھم  Birmingham  مانچسٹرManchester  بولٹن   Bolton  بلیک برن Black  burn  پریسٹن  Preston  لنکاشائر  Lancashire بریڈ فورڈ  Bradford  ڈیوزبری Dewsbruy  وغیرہ میں منعقد ہوتی رہی ہیں جہاں بعض اوقات سیکڑوںمیل کی دوری سے بھی اصحاب ذوق شرکت کے لئے آتے رہے ہیں ۔
          سنی دینی رہنمائی ،روحانی فیوض و برکات اور مذہبی ارشاد و ہدایت کا یہ اشرفی حلقہ مجدد اسلام حضور شیخ الاسلام کچھوچھوی ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ نے شمالی امریکہ میں  نیو یارک Newyork     نیوجرسی Newjersey   شکاگو Chicago  اور ہیوسٹن Houston   میںکناڈا کے مشہور شہر ٹورانٹو Toronto   ہالینڈ کے شہروں ،ایمسٹر ڈیم میں بلجیم کی راجدھانی برسلز Brussels   اور فرانس کے دار الحکومت پیرس Paris  میں بھی اپنے دینی تبلیغی دوروں کے دوران اسی شان سے فکرو نظر،گفتار و رفتار ،کردار و سلوک کے اصلاح و تزکیہ کا تحریکی نظام کو قائم رکھا جس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد کو دیار غیر میں بھی عقیدہ و مسلک اہل سنت و جماعت کی سلامتی حاصل ہوئی ہے نیز انہیں اخلاقی و روحانی اعتبار سے صراط مستقیم پر چلنے کا حوصلہ ملا ہے۔
 مجدد اسلام حضور شیخ الاسلام کچھوچھوی ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ منبر ارشاد و ہدایت سے تقریر کر رہے ہوں یا مسند عرفا و سلوک و طریقت سے نجی مجالس میں محو گفتگو ہو ں انہوں نے ہمیشہ تحقیق و اعتبار کے معیار کو مد نظر رکھا ہے ۔دلائل و حوالوں سے عاری اور تحقیق و تدقیق سے خالی نہ آپ کا خطاب ہوتا ہے نہ ہی آپ کی گفتگو ۔آپ کی محفلوں کے شرکااس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اپنے نقطئہ نظر کو بیان کرنے کے لئے آپ الفاظ سے کھیلنے کے بجائے قر آنی آیات کی تلاوت اور حدیثوں کے مختصر و طویل متن کو روانی سے اپنی گفتگو کا حصہ بناتے ہیں ۔مفسرین و محدثین کی کتابوں کی عربی عبارات اور پھر ان کا سلیس ترجمہ بے تکلفی سے اپنے خطاب کا جز بناکر اہل علم کو تسکین فراہم کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے مغربی ممالک میں بھی اپنے سامعین و شائقین کا ایک مخصوص حلقہ بنیا ہے ۔
اس میں علماء و مشائخ ،بیرسٹر ،وکلا و پروفیسر ز و ڈاکٹرز،طلبہ و اساتذہ، عوام و خواص سبھی شامل ہیں ۔ مجدد اسلام حضور شیخ الاسلام کچھوچھوی نے اپنی تبلیغی کاوشوں سے مغربی تعلیم یافتہ نو جوانوں کو اکابرین اہل سنت و جماعت سے روشناس کرانے کا ایک منفرد کار نامہ انجام دیا ہے ۔
   مغربی ممالک میں مجدد اسلام حضور شیخ الاسلام کچھوچھوی کے تبلیغی دوروں کا جائزہ لینے والوں نے ایک اور بات واضح طور نوٹ کی ہے کہ آپ کا تعلق مبلغین کے اس حلقہ سے ہے جن کے یہاں قول و عمل اور کردار و گفتار کی انتہائی محکم مطابقت پائی جاتی ہے ۔مغرب میںآباد مسلمانوں کو عقائد و ایمان کے تحفظ کے ساتھ ساتھ کردار و تہذیب کے بچائو کی بھی سخت فکر لاحق ہے ،وہ ایسے رہنمائوں کے متلاشی ہیں جو اسلام کی تبلیغ اپنے علمی جاہ و جلال کے ساتھ اپنے کردار و عمل سے بھی کرسکیں ۔مغرب کی وادیوں میں عشق مصطفیٰ کی کی تبلیغ کرنے والوں میں اس لحاظ سے حضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی کو بڑی پذیرائی ملی ہے کہ وہ شکل و صورت ،لباس و پوشاک ،وضع و قطع،نشست و بر خاست ،پاک بازی ،پاک دامی ،راست گوئی و نرم خوئی ،شفقت و محبت کا ایک جاذب نظر مرقع ہیں ۔صوم و صلوۃکے پابند ہیں،اسلاف کی یادگار ہیں ۔آپ کی محفل میں شریک ہونے والے حضرات آپ کی زیارت و ملاقات سے بھی بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں ۔ صوفیہ کے یہاں غالباًاسی کو ،،فیضان صحبت ،،کا نام دیا گیا ہے ۔ڈاکٹر اقبال کے الفاظ میںحضرت شیخ الاسلام کچھوچھوی کے یہاں ،،فیضان نظر ،،بھی ہے اور ،،مکتب کی کرامت ،،بھی ۔
   آپ کے دینی تبلیغی دورے کے حوالے سے ایک بات یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عموماً حضور شیخ الاسلام کے پروگراموں میں شریک ہونے والوں کا اور آپ سے ملاقات کرنیوالوں کا یہ متفقہ تبصرہ ہے کہ آپ اپنی ذات اوراپنی دینی و روحانی شخصیت میں ایک منظم و مرتب حیثیت کے حامل ہیں ۔آپ کا طریقئہ کار آپ کی فکر  اور آپ کا نصب العین کسی بھی طرح کے تضادکا شکار نہیں ہے۔
   آپ کی تمام تقریروں کا ،آپ کی مجالس کی گفتگو کا ،آپ کی دعوتی تحریک کا مقصد و محور تغیر و تبدل سے بالا ہے ۔آپ جہاں جاتے ہیں وہاں آپ کا پیغام اور آپ کی دعوت کا منشاء ایک ہی ہوتاہے ۔اسی کے ساتھ آپ اپنے نظام الاوقات کے پابند ہیں ۔ جلسوں اور دعوتوں میں آپ کی تشریف آوری سے تقریباًگھڑیاں ملائی جاسکتی ہیں ۔آپ کو کسی پروگرام میںمنتظمین نے خطاب کرنے کا وقت اگر ۵ بجے کا دیاہے تو آپ ۵۵۔۴ پر وہاں موجود ہو جاتے ہیں ،اگر آپ کو تقریر کا وقت ایک گھنٹہ بیس منٹ دیا گیا تو اپنی پوری گفتگوآپ ایک گھنٹہ انیس منٹ میں مکمل فرما لیں گے ۔وقت اور نظام الاوقات کی یہ پابندی آپ اپنی تبلیغی زندگی کے پہلے روز سے ہی کر رہے ہیں    ؎
 وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے  
مغربی ممالک میں شخ الاسلام کی دینی تبلیغی دوروں کے اثرات: 
 حضرت شیخ الاسلام گزشتہ ۴۰ سالوں سے مغربی ممالک کے دورے کر رہے ہیں ۔اس طویل عرصہ میں انھوں نے مغربی ممالک میں آباد بر صغیر سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ہیں ۔اردوبولنے اور سمجھنے والی مسلم آبادی کا وہ حصہ جن کا علم و روحانی رشتئہ صوفیہ بر صغیر سے جڑاہوا ہے حضرت مجدد وقت شیخ الاسلام کے دینی تبلیغی کاوشوں کا براہ راست محورہے بالواسطہ نو مسلم انگریز وں تک بھی آپ کا پیغام ایک محدود سطح پر پہنچتا رہا ہے ۔آپ کے نوجوان تعلیم یافتہ ایشیائی نیازمندوں کا ایک گروہ آپ کی تقاریر کا خلاصہ انگریزی میں منتقل کر کے اسلام میں دلچسپی رکھنے والے انگریزو ںتک پہنچانے کی کوشش کرتا رہا ہے اس وقت سنیت جو نکھراہوا تصور اس خطہ میں آباد ایشیائی مسلمانوں کی آبادی میں موجود ہے اس میں حضرت مجدد وقت شیخ الاسلامکی دینی و روحانی قیادت کا حصہ ہے ۔ الحمد للہ آج برطانیہ میں اہل سنت و جماعت کے سیکڑوں علماء و مشائخ ،ائمہ و حفاظ ،مقررین و مبلغین اور مصنفین و اساتذہ دینی خدمات دے رہے ہیں ۔آج دین و سنیت کے گلشن میں یہاں جو بہارآئی ہے اس میں مجدد مائۃ حاضرہ ،مؤید ملت طاہرہ حضرت شیخ الاسلام و المسلمین علامہ سیدمحمد مدنی اشرفی جیلانی ادمہ اللہ المنان علی رئوس الانس و الجان بطول حیاتہ کا خون جگر شامل ہے ۔
بارگاہ خداوندی میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و عافیت کے ساتھ رکھے اور آپ کا سایہ تمام اہل سنت و جماعت پر دراز فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ ۔   فقط  
Exit mobile version