قضیہ شرطیہ متصلہ کی اقسام

مقدم اور تالی کے درمیان اتصال میں لزوم پائے جانے یا نہ پائے جانے کے اعتبار سے قضیہ شرطیہ متصلہ کی دوقسمیں ہیں :         ۱۔ لزومیہ         ۲۔ اتفاقیہ
۱۔متصلہ لزومیہ:
    وہ قضیہ شرطیہ جس میں مقدم اورتالی کے درمیان اتصال کاحکم کسی علاقہ کی وجہ سے ہو۔ جیسے اِنْ کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً فَاالنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ  (اگر سورج نکلے گا تو دن موجود ہوگا) ۔
وضاحت:
     اس مثال میں مقدم اور تالی کے درمیان اتصال کا حکم علیّت کے علاقے کی بنا پر ہے۔ کیونکہ سورج کا طلوع ہونا دن کے موجود ہونے کے لئے علت ہے ۔اگرسورج نہیں نکلے گا تو دن بھی موجود نہیں ہوگاواضح رہے کہ قضیہ شرطیہ کے پہلے جز کو مقدم اور دوسرے کو تالی کہتے ہیں۔
۲۔ متصلہ اتفاقیہ:
    وہ قضیہ شرطیہ جس میں مقدم اورتالی کے درمیان اتصال کا حکم کسی علاقہ کی وجہ سے نہ ہو بلکہ یہ دونوں اتفاقا جمع ہوگئے ہوں ۔جیسے اِنْ کَانَ الاِنْسَانُ نَاطِقًا فَالْحِمَارُ نَاھِقٌ  (اگر انسان ناطق ہوگاتوگدھا ناہق ہوگا)۔
وضاحت:
    اس مثال میں گدھے اورانسان کے اندر کوئی ایسا تعلق نہیں کہ انسان کے ناطق ہونے کی وجہ سے گدھے کا ناھق ہونا لازم آئے بلکہ یہ ایک اتفاقی بات ہے کہ گدھا ناہق ہے اور انسان ناطق ۔مذکورہ بالا تعریفات میں علاقہ کا لفظ ذکر کیا گیا ہے لہذا علاقہ کے بارے میں وضاحت کی جاتی ہے۔
علاقہ اور اسکی اقسام
علاقہ کی تعریف:
    ”أَمْرٌ بِسَبَبِہٖ یَسْتَصْحِبُ الْمُقَدَّمُ التَّالِی ” علاقہ وہ سبب ہے جس کی وجہ سے مقدم تالی کے ساتھ رہنا چاہتاہویعنی جب مقدم پایاجائے تو تالی بھی پائی جائے ۔جیسے اِنْ کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً فَالنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ ۔ اس مثال میں مقدم (سورج کے طلوع ہونے) اورتالی( دن کے موجود ہونے) کے درمیان ایسا تعلق ہے کہ اگر مقدم پایا جائے گا تو تالی اس کے ساتھ ضرو رپائی جائے گی لہذا یہی تعلق علاقہ کہلاتاہے۔
علاقہ کی اقسام
اس کی دوقسمیں ہیں :        ۱۔ علیت         ۲۔ تضایف
۱۔ علیت:
    اس کی تین صورتیں ہونگی:
    ۱۔۔۔۔۔۔ مقدم تالی کیلئے علت ہو۔ جیسے: اِنْ کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً فَالنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ  (اگر سورج طلوع ہوگا تو دن موجود ہو گا)۔
وضاحت:
    اس مثال میں سورج کا طلوع ہونا دن کے موجود ہونے کے لئے علت ہے یعنی دن اسی وقت موجود ہوگا جب سورج ہوگا ۔
    ۲۔۔۔۔۔۔ تالی مقدم کیلئے علت ہو۔جیسے کُلَّمَا کَانَ النَّھَارُ مَوْجُوْدًا کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً  ( جب بھی دن موجود ہوگا سورج نکلا ہوگا)۔
وضاحت:
    اس مثال میں سورج کا نکلنا دن کے پائے جانے کے لئے علت ہے یعنی جب بھی دن ہوگا تو سورج نکلا ہوا ہوگا ۔ 
    ۳۔۔۔۔۔۔ مقدم اور تالی دونوں معلول ہوں اور علت کوئی تیسری چیز بنے۔ جیسے اِنْ کَانَ النَّھَارُ مَوْجَوْدًا فَالْعَالَمُ مُضِییئ  (اگر دن موجود ہوتوعالم روشن ہوگا) ۔
وضاحت:
    اس مثال میں دن کا موجود ہونااورسارے جہاں کا روشن ہونایہ دونوں معلول ہیں اورعلت تیسری چیزہے اوروہ سورج کا طلوع ہوناہے۔
۲۔تضایف:
    وہ تعلق جس کی وجہ سے مقدم اورتالی کا سمجھنا ایک دوسرے پر موقوف ہو ۔جیسے ابوۃ (باپ ہونا)بنوۃ (بیٹاہونا) اِنْ کَانَ زَیْدٌ أَبًا لِبَکْرٍ کَانَ بَکْرٌ اِبْناً لَہٗ (اگر زید بکر کاباپ ہے توبکر زید کابیٹاہے) ۔
وضاحت:
    اس مثال میں زید کا باپ ہونا اس پر موقوف ہے کہ بکر اس کا بیٹا ہے اور بکر کا بیٹا ہونا اس پر موقوف ہے کہ زید اس کاباپ ہے اوردونوں میں سے ہر ایک کو سمجھنا دوسرے پر موقوف ہے لہذا اس علاقہ کو تضایف کہیں گے۔
٭٭٭٭٭
Exit mobile version