جو صدقہ وخیرات کر چکا اس کا حکم!

    با لجملہ جس شخص نے آ ج تک جس قدر خیرات کی ،مسجد بنا ئی ،گاؤں وقف کیا ،یہ سب امور صحیح و لازم تو ہو گئے کہ اب نہ دی ہو ئی خیرات فقیر سے واپس کر سکتا ہے نہ کئے ہوئے وقف کو پھیر لینے کا اختیا ر رکھتا ہے ،نہ اس گاؤں کی توفیر ادائے زکٰوۃ ،خواہ اپنے اور کسی کام میں صرف کر سکتا ہے کہ وقف بعد تمامی لازم و حتمی ہو جاتا ہے  جس کے ابطال کا ہر گز اختیا ر نہیں رہتا ۔
    مگر اس کے باوجود جب تک زکوٰۃ پُوری پُوری نہ ادا کرے ان افعال پر امیدِ ثواب و قبول نہیں کہ کسی فعل کا صحیح ہوجانا اور بات ہے اور اس پر ثواب ملنا ، مقبول بارگاہ ہونا اور بات ہے، مثلاًاگر کوئی شخص دکھا وے کے لیے نماز پڑھے نماز صحیح تو ہوگئی فرض اُتر گیا، پر نہ قبول ہوگی نہ ثواب پائے گا، بلکہ الٹا گناہگار ہوگا، یہی حال اس شخص کا ہے ۔
شیطان کے وار کو پہچانئے
     اے عزیز!اب شیطان لعین کہ انسان کاکھلا دُشمن ہے بالکل ہلاک کر دینے اور یہ ذرا سا ڈورا جو قصدِ خیرات کا لگا رہ گیا ہے جس سے فقراء کو تو نفع ہے اسے بھی کاٹ دینے کے لیے یوں فقرہ سُجھائے گا کہ جو خیرات قبول نہیں تو کرنے سے کیا فائدہ، چلو اسے بھی دُور کرو، اور شیطان کی پوری بندگی بجا لاؤ، مگر اﷲعزوجل کو تیری بھلائی اور عذاب شدید سے رہائی منظور ہے، وہ تیرے دل میں ڈالے گاکہ اس حکم شرعی کا جواب یہ نہ تھا جو اس دشمنِ ایمان نے تجھے سکھایا اور رہا سہابالکل ہی متمرد وسرکش بنایا بلکہ تجھے تو فکر کرنی تھی جس کے باعث عذابِ سلطانی سے بھی نجات ملتی اور آج تک کے یہ وقف ومسجد و خیرات بھی سب قبول ہوجا نے کی اُمید پڑتی، بھلا غور کرو وہ بات بہتر کہ بگڑتے ہُوئے کام پھر بن جائیں، اکارت جاتی محنتیں از سرِ نو ثمرہ لائیں یا معاذاﷲیہ بہتر کہ رہی سہی نام کو جو صورتِ بندگی باقی ہے اسے بھی سلام کیجئے اور کھلے ہوئے سرکشوں، اشتہاری باغیوں میں نام لکھالیجئے، وہ نیک تدبیر یہی ہے کہ زکوٰۃ نہ دینے سے توبہ کیجئے ۔
زکوٰۃ ادا کردیجئے
    آج تک جتنی زکوٰۃ گردن پر ہے فوراً دل کی خوشی کے ساتھ اپنے رب کا حکم ماننے اور اسے راضی کرنے کو ادا کر دیجئے کہ شہنشاہِ بے نیاز کی درگاہ میں باغی غلاموں کی فہرست سے نام کٹ کر فرماں بردار بندوں کے دفتر میں چہرہ لکھا جائے۔ مہر بان مولا جس نے جان عطا کی، اعضادئے، مال دیا، کروڑوں نعمتیں بخشیں، اس کے حضور منہ اُجالا ہونے کی صورت نظر آئے اورمژدہ ہو ،بشارت ہو، نوید ہو، تہنیت ہو کہ ایسا کرتے ہی اب تک جس قدر خیرات دی ہے وقف کیا ہے، مسجد بنائی ہے، ان سب کی بھی مقبولی کی اُمید ہوگی کہ جس جُرم کے باعث یہ قابلِ قبول نہ تھے جب وہ زائل ہوگیا انھیں بھی باذن اﷲتعالیٰ شرفِ قبول حاصل ہوگیا۔
زکوٰۃ کا حساب کیسے لگائے ؟
    چارہ کار تو یہ ہے آگے ہر شخص اپنی بھلائی بُرائی کا اختیار رکھتا ہے، مدّتِ دراز گزرنے کے باعث اگر زکوٰۃ کا تحقیقی حساب نہ معلوم ہوسکے تو عاقبت پاک کرنے کے لیے بڑی سے بڑی رقم جہاں تک خیال میں آسکے فرض کر لے کہ زیادہ جائے گا تو ضائع نہ جائے گا ،بلکہ تیرے رب مہر بان کے پاس تیری بڑی حاجت کے وقت کے لیے جمع رہے گا وہ اس کا کامل اجر جو تیرے حوصلہ و گمان سے باہر ہے عطا فرمائے گا، اور کم کیا تو بادشاہ قہار کا مطالبہ جیسا ہزار روپیہ کا ویسا ہی ایک پیسے کا۔
Exit mobile version