چکھنا کسے کہتے ہیں؟
چکھنے کے معنٰی وہ نہیں جو آج کل عام مُحَاوَرہ ہے یعنی کسی چیز کا مزہ دَرْیافْتْ کرنے کیلئے اُس میں سے تھوڑا کھالیا جاتا ہے!کہ یُوں ہو تو کراہِیَّت کیسی روزہ ہی جاتا رہے گا ۔بلکہ کَفّارہ کے شرائط پائے جائیں تَو کَفّارہ بھی لازِم ہوگا۔چکھنے سے مُراد یہ ہے کہ صِرف زَبان پر رکھ کر مزہ دَرْیافْتْ کرلیں اور اُسے تُھوک دیں۔ اُس میں سے حَلْق میں کچھ بھی نہ جانے پائے۔
کوئی چیز خریدی اور اُس کا چکھنا ضَروری ہے کہ اگر نہ چکھا تَو نقصان ہوگاتَو ایسی صُورت میں چکھنے میں حَرَج نہیں ورنہ مَکْرُوْہ ہے۔ (دُرِّمُخْتارج۳ص۳۹۵)
بیوی کا بَوسہ لینا اور گلے لگانا اور بَدَن کو چُھونا مکروہ نہیں۔ہاں اگر یہ اَندیشہ ہوکہ اِنْزال ہوجائے گایا جِماع میں مُبتَلا ہوگا اور ہَونٹ اور زَبان چُوسنا روزہ میں مُطْلَقاًمکروہ ہیں ۔یُوں ہی مُباشَر تِ فاحِشہ( یعنی شرمگاہ
سے شرمگاہ ٹکرانا) (رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۳۹۶) ۱؎
گُلاب یا مُشک وغیرہ سُونگھنا ،داڑھی مُونچھ میں تیل لگانا اور سُرمہ لگانا مکروہ نہیں۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص۳۹۷)
روزے کی حالت میں ہر قِسْم کا عِطْر سُونگھ بھی سکتے ہیں اور کپڑوں پرلگا بھی سکتے ہیں۔ (رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۳۹۷)
روزے میں مِسواک کرنا مکروہ نہیں بلکہ جیسے اور دِنوں میں سُنَّت ہے وَیسے ہی روزہ میں بھی سُنَّت ہے ،مِسواک خُشک ہویا تَر ،اگر چِہ پانی سے تَر کی ہو،زَوال سے پہلے کریں یا بعد ،کسی وَقْت بھی مکروہ نہیں۔ (رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۳۹۹)
اکثر لوگوں میں مشہور ہے کہ دوپہر کے بعد روزہ دار کیلئے مِسواک کرنا مکروہ ہے یہ ہمارے مَذہبِ حنفیہ کے خِلاف ہے۔ (اَیْضاً)
اگر مِسواک چَبانے سے رَیشے چُھوٹیں یا مزہ مَحسُوس ہو تو ایسی مِسواک روزے میں نہیں کرنا چاہئے۔ (فتاویٰ رضویہ تخریج شدہ ج۱۰ ص ۵۱۱ )
اگر
روزہ یاد ہوتے ہوئے مسواک کا ریشہ یا کوئی جُزحلْق سے نیچے اتر گیا تو روزہ فاسِد ہو جائے گا۔
وُضو وغُسل کے عِلاوہ ٹھنڈک پہنچانے کی غَرَ ض سے کُلّی کرنا یا ناک میں پانی چڑھانا یا ٹھنڈک کیلئے نہانا بلکہ بَدَن پر بِھیگاکپڑا لپیٹنا بھی مکروہ نہیں۔ہاں پریشانی ظاہِر کرنے کیلئے بِھیگا کپڑا لَپیٹنا مکروہ ہے کہ عِبادَت میں دِل تنگ ہونا اچھّی بات نہیں۔ (رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۳۹۹)
بَعض اِسلامی بھائی روزہ میں بار بار تُھوکتے رہتے ہیں شایَد وہ سمجھتے ہیں کہ روزے میں تُھوک نہیں نِگلنا چاہئے،ایسا نہیں۔ البتّہ مُنہ میں تُھوک اِکٹّھا کرکے نِگل جانا،یہ تَو بِغیر روزہ کے بھی ناپسند یدہ ہے اور روزہ میں مکروہ ۔ (بہارِشریعت حصّہ ۵ص۱۲۹)
رَمَضانُ الْمُبارَک کے دِنوں میں ایسا کام کرنا جائز نہیں جس سے ایسا ضُعْف (یعنی کمزوری )آجائے کہ روزہ توڑنے کا ظَنِّ غالِب ہو۔لہٰذا نانْبائی کو چاہئے کہ دوپہرتک روٹی پکائے پھر باقی دِن میں آرام کرے۔ (دُرِّمُخْتار ج ۳ص۴۰۰)یِہی حُکْم مِعْمار ومزدور اور دیگر مَشَقَّت کے کام کرنے والوں کا ہے ۔زیادہ ضُعْف (کمزوری) کا اَندیشہ ہو تَو کام میں کمی کردیں تاکہ روزہ ادا کرسکیں۔
؎۱ شادی شدگان نیتوں وغیرہ کی معلومات کیلئے فتاوی رضویہ جلد ۲۳ صفحہ نمبر ۳۸۵،۳۸۶ پر مسئلہ نمبر ۴۲،۴۱ کا معالعہ فرمالیں۔