اکثر جاہلوں میں رواج ہے کہ بچوں کی پیدائش یا عقیقہ یا ختنہ یا شادی بیاہ کے موقعوں پر محّلہ یا رشتہ کی عورتیں جمع ہوتی ہیں اور گاتی بجاتی ہیں۔ یہ ناجائز و حرام ہے کہ اولاََ ڈھول بجانا ہی حرام۔ پھر عورتوں کا گانا اور زیادہ برا۔ عورت کی آواز نامحرموں کو پہنچنا اور وہ بھی گانے کی۔ اور وہ بھی عشق اور ہجر و وصال کے اشعار اور گیت ظاہر ہے کہ یہ کتنے فتنوں کا سر چشمہ ہے۔ اسی طرح عورتوں کا رتجگا بھی ہے کہ رات بھر عورتیں
گاتی بجاتی رہتی ہیں اور گلگلے پکتے رہتے ہیں پھر صبح کو گاتی بجاتی ہوئی مسجد میں طاق بھرنے کے لئے جاتی ہیں۔ اس میں بہت سی خرافات پائی جاتی ہیں۔ نیاز گھر میں بھی ہو سکتی ہے اور اگر مسجد ہی میں ہوتو مرد لے جاسکتے ہیں۔ عورتوں کو جانے کی کیا ضرورت ہے؟ ان عورتوں کے ہاتھ میں ایک آٹے کا بنا ہوا چار بتیوں والا چراغ بھی ہوتا ہے جو گھی سے جلایا جاتا ہے غور کیجئے کہ جب صبح ہو گئی تو چراغ کی کیا ضرورت؟ اور اگر چراغ کی حاجت ہے تو مٹی کا چراغ کافی ہے۔ آٹے کا چراغ بنانااور تیل کی جگہ گھی جلانا بالکل ہی اسراف اور فضول خرچی اور مال کو برباد کرنا ہے جو شرعاََ حرام ہے۔ دولہا دلہن کو ابٹن ملوانا۔ مائیوں بٹھانا جائز ہے لیکن دولھا کے ہاتھ پاؤں میں زینت کے لئے مہندی لگانا جائز نہیں ہے۔ یوں ہی دولھا کو ریشمی پوشاک یا زیورات پہننا پہنانا حرام ہے۔ خالص پھولوں کا سہرا جائز ہے۔ بلاوجہ اس کو ممنوع نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں سونے چاندی کے تاروں’ گوٹوں’ لچھوں اور کَلابَتُّو وغیرہ کا بنا ہوا ہار یا سہرادولہا کے لئے حرام اور دلہن کے لئے جائز ہے۔ ناچ باجا’ آتش بازی حرام ہیں۔
شادیوں میں دو قسم کے ناچ کرائے جاتے ہیں۔ ایک رنڈیوں کا ناچ جو مردوں کی محفل میں ہوتا ہے۔ دوسرا وہ ناچ جو خاص عورتوں کی محفل میں ہوتا ہے کہ کوئی ڈومنی یا مراثن ناچتی ہے اور کمر کولہے مٹکا مٹکا کر اور ہاتھوں سے چمکا چمکا کر تماشا کرتی ہے۔ یہ دونوں قسم کے ناچ ناجائز و حرام ہیں۔ رنڈی کے ناچ میں جو گناہ اور خرابیاں ہیں ان کو سب جانتے ہیں۔ کہ ایک نامحرم عورت کو سب مرد بے پردہ دیکھتے ہیں۔ یہ آنکھوں کا زنا ہے۔ اس کی شہوت انگیز آواز کو سنتے ہیں۔ یہ کانوں کا زنا ہے۔ اس سے باتیں کرتے ہیں۔ یہ زبان کا زنا ہے۔ بعض اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں یہ ہاتھوں کا زنا ہے۔ بعض اس کی
طرف چل کر داد دیتے ہیں اور انعام کا روپیہ دیتے ہیں۔ یہ پاؤں کا زنا ہے۔ بعض بدکاری بھی کرلیتے ہیں۔ یہ اصل زناہے۔
آتش بازی خواہ شب برات میں ہو یا شادی بیاہ میں ہر جگہ ہر حال میں حرام ہے۔ اور اس میں کئی گناہ ہیں۔ یہ اپنے مال کو فضول برباد کرنا ہے قرآن مجید میں فضول مال خرچ کرنے والے کو شیطان کا بھائی فرمایا گیا ہے اور ان لوگوں سے اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم بیزار ہیں۔ پھر اس میں ہاتھ پاؤں کے جلنے کا اندیشہ یا مکان میں آگ لگ جانے کا خوف ہے اور بلاوجہ جان یا مال کو ہلاکت اور خطرے میں ڈالنا شریعت میں حرام ہے۔
اسی طرح شادی بیاہ میں دولھا کو مکان کے اندر بلانا اور عورتوں کا سامنے آکر یا تاک جھانک کر اس کو دیکھنا، اس سے مذاق کرنا، اس کے ساتھ چوتھی کھیلنا یہ سب رسمیں حرام و ناجائز ہیں شادی یا دوسرے موقعوں پر خاصدان، عطردار، سرمہ دانی سلائی وغیرہ چاندی سونے کا استعمال کرنا، بہت باریک کپڑے پہننا یا بجتے ہوئے زیور پہننا یہ سب رسمیں ناجائز ہیں۔
عقیقہ بس اسی قدر سنت ہے کہ لڑکے کے عقیقہ میں دو بکرے اور لڑکی کے عقیقہ میں ایک بکرا ذبح کرنا اور اس کا گوشت کچا یا پکا کر تقسیم کردینا اور بچے کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کر دینا اور بچے کے سر میں زعفران لگا دینا۔ یہ سب کام تو ثواب کے ہیں باقی اس کے علاوہ جو رسمیں ہوتی ہیں کہ نائی سر مونڈنے کے بعد سب کنبہ و برادری کے سامنے کٹوری ہاتھ میں لے کر اپنا حق مانگتا ہے اور لوگ اس کٹوری میں پیسے ڈالتے ہیں۔ اور برادری کے لوگ جو کچھ نائی کی کٹوری میں ڈالتے ہیں وہ گھر والے کے ذمہ ایک
قرض ہوتا ہے کہ جب ان دینے والوں کے یہاں عقیقہ ہو گا تو یہ لوگ اتنی ہی رقم ان کے نائی کی کٹوری میں ڈالیں گے۔ اسی طرح سوپ میں کچا اناج رکھ کر نائی کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح عقیقہ میں لوگوں نے یہ رسم مقرر کر لی ہے کہ جس وقت بچے کے سر پر استرا رکھا جائے فوراََ اسی وقت بکرا بھی ذبح کیا جائے۔ یہ سب رسمیں بالکل ہی لغو ہیں۔ شریعت میں فقط اتنی بات ہے کہ نائی کو سر مونڈنے کی اجرت دے دی جائے اور بکرا خواہ سر منڈنے سے پہلے ذبح کریں خواہ بعد میں سب جائز و درست ہے۔ اسی طرح ختنہ میں بعض جگہ اس رسم کی بے حد پابندی کی جاتی ہے بچے کا لباس’ بستر’ چادر سب کچھ سرخ رنگ کا تیار کیا جاتا ہے اور چوبیس گھنٹے بچہ کے ہاتھ میں چاقو یا چھری کارکھنا لازم سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب رسمیں من گھڑت خرافات ہیں شریعت سے ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔