محمد عارف رضا نیّر الاشفاقی
جنرل سیکریٹری: تحریک فروغِ اسلام ٹائیں، میوات، ہریانہ
شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے سچے وارث
اس خاکدانِ گیتی پر لاکھوں انسان روزانہ آتے ہیں، پر سب یکساں نہیں ہوتے۔ کچھ من مانی زندگی گذارتے ہیں اور کچھ اللہ عزوجل اور اس کے رسول علیہ التحیۃ والثناء کی مرضی کے مطابق زندگی بسر فرماتے ہیں۔ ایسے ہی نیک بندوں کو ولی اللہ کہا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت اولیاء کے بارے میں فرماتا ہے: الذین اٰمنوا وکانوا یتقون۔ ترجمہ: (ولی وہ ہوتے ہیں) جو ایمان لائے اور پرہیزگای کرتے ہیں۔ (یونس ۶۳) زبدۃ الواصلین حضرت علامہ مولانا عبد السمیع بیدلؔ رامپوری مصنف انوارِ ساطعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ؎
جو خدا کے دوست ہیں وہ ہیں ولی
جو گناہوں سے بچیں ہیں متقی
(حمدِ باری، ص: ۲)
اللہ تبارک و تعالیٰ اسے ہی اپنا محبوب بناتا ہے جو اس کے محبوب کی اتباع کرکے محبوب کا محبوب بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ۔ ترجمہ: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ۔ اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔ (آلِ عمران، ۳۱)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: من یطع اللہ ورسولہ یدخلہ جنت تجری من تحتھا الانھر خٰلدین فیھا ط وذالک الفوز العظیم۔ ترجمہ: اور جو حکم مانے اللہ اور اللہ کے رسول کا اللہ اسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی ہے بڑی کامیابی۔ (النساء ۱۳)
ان آیاتِ مقدسہ سے ظاہر ہوا کہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کا نام ہی ولایت ہے۔ غوث الصمد فرد الاحد حضرت میاں راج شاہ قادری سوندھوی (۱۲۱۶ھ؍
۱۳۰۶ھ) فرماتے ہیں: ’’اتباعِ شریعت اور پابندیٔ اسلام ہی کا نام درویشی ہے۔‘‘ (ملّت راجشاہی ص: ۱۲۶) اور شیخ شیرازی (۵۸۹ھ؍ ۶۹۱ھ) سمندر کو کوزے میں سماتے ہوئے فرماتے ہیں ؎
خلاف پیمبر کسے راہ گزید
کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید
مپندار سعدی کہ راہ صفا
تواں رفت جز برپئے مصطفیٰ
(بوستاں، ص: ۴)
اللہ عزوجل اور اس کے پیارے مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کرکے رب کے محبوبوں میں شامل ہونے والوں میں ایک ذات شیخ الاسلام والمسلمین حجۃ الاصفیاء تاج الاولیاء برھان الملّت والدین زبدۃ المقربین عمدۃ الواصلین حضرت علامہ سیّد محمد مدنی میاں اشرفی الجیلانی دامت برکاتھم القدسیہ زیب سجادہ آستانۂ عالیہ محدث اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کچھوچھہ مقدسہ کی ہے۔ آپ کی ولادت باسعادت یکم رجب المرجب ۱۳۵۷ ہجریہ قدسیہ مطابق ۲۸؍ اگست ۱۹۳۸ء میں بمقام کچھوچھہ مقدسہ محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ (۱۳۱۱ھ؍ ۱۳۸۱ھ) کے عرفان و ایقان اور علم و فضل سے پُر گھرانے میں ہوئی۔ آپ محبوبِ سبحانی قطبِ ربانی حضور غوث الاعظم سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ (۴۷۰ھ؍ ۵۶۱ھ) کی نسلِ پاک سے ہیں۔ شیخ الاسلام کا خاندان کیا کہنا والد محدثِ اعظم ہند، والدۂ ماجدہ ولیۂ عصر، شہزادیٔ سلطان المناظرین ،دادا حکیم الاسلام سیّدنا شاہ نذر اشرف (متوفی ۱۳۵۸ھ) دادی صاحبہ رابعۂ وقت شہزادیٔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں، پردادا تاجدارِ ولایت سیّدنا فضل حسین (متوفی ۱۳۳۸ھ) نانا سلطان المناظرین حضرت سیّدنا شاہ احمد اشرف (۱۲۸۶ھ؍ ۱۳۴۳ھ) پرنانا سیّدنا اعلیٰ حضرت اشرفی میاں (۱۲۶۶ھ؍ ۱۳۵۵ھ) اور حقیقت تو یہ ہے کہ شیخ الاسلام سے مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تک ولایت کا ایک سلسلۃ الذھب ہے۔
بچپن:۔ بچپن سے ہی جبینِ سعادت پر نورِ ولایت تاباں تھا ؎
بالائے سرش ز ہوشمندی
می تافت ستارۂ سربلندی
شروع ہی سے لہو و لعب سے نفرت تھی۔ زبان پر اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ کا پیارا نام رہتا تھا اور شوق تھا تو فقط تعلیم کا۔
تعلیم و تربیت:۔ آپ کی والدۂ ماجدہ فضل و کمال والی تھیں، آپ کی تعلیم و تربیت میں والدۂ ماجدہ کا کلیدی کرادار رہا۔ تعلیم کا آغاز والدۂ ماجدہ سے کیا اور چودہ سال کی عمر شریف تک اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے قائم کردہ جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ میں تعلیم حاصل کی۔ پھر حضرت محدثِ اعظم علیہ الرحمہ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے اعلیٰ حضرت اشرفی میاں ہی کے قائم کردہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے پیارے و چہیتے مرید و خلیفہ حافظ ملّت علیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ؍ ۱۳۹۶ھ) کی بارگاہ میں بھیجا۔ خوب محنت و لگن سے آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، ماہِ رمضان میں گھر پر والد ماجد محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ کی زیرِ نگرانی تعلیم حاصل کرتے۔ دورانِ طالب علمی ہی میں ۱۶؍ رجب ۱۳۸۱ھ مطابق ۲۵؍ دسمبر ۱۹۶۱ء بروز دوشنبہ مبارکہ کو محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ واصل بحق ہوگئے۔ محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ کے چہلم کے موقع پر مشائخ کرام نے محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ کی جانشینی کا تاج آپ کے سرِ مبارک پر رکھا۔ تعلیم جاری رہی، جنوری ۱۹۶۳ء میں آپ کو دستارِ فضیلت سے نوازا گیا۔ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۶۴ء کو آپ کا نکاح مخدومہ سیّدہ شمیمہ خاتون رحمۃ اللہ علیہا بنت حضرت سیّد اختر حسین صاحب قبلہ موضع دوست پور ضلع سلطان پور سے ہوا۔ نکاح شیخ المشائخ غوث زماں حضور سرکار کلاں علیہ الرحمہ (۱۳۳۴ھ؍ ۱۴۱۷ھ) نے پڑھایا۔
بیعت وخلافت:۔ شیخ الاسلام نے اپنے والد ماجد محدثِ اعظم علیہ الرحمہ کے حکم سے اپنے ماموں قطبِ دوراں غوثِ زماں سرکار کلاں حضرت مفتی سیّد محمد مختار اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ سجادہ نشین کچھوچھہ مقدسہ سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ حضور سرکار کلاں نے ان تمام سلاسل کی خلافت و اجازت جو آپ کو اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ سے حاصل تھیں، شیخ الاسلام والمسلمین کو عطا فرمائی۔
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ والرضوان نے یوں تو مشائخ عرب و عجم سے اکتسابِ فیض فرمایا مگر یہاں پر صرف وہ فیضان بیان کیا جاتا ہے جسے پاکر اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا میں فیض کے اثرات سے مالامال ہوا اور یہ فیضان قطبِ عالم فردِ وقت حضرت میاں راج شاہ قادری سوندھوی علیہ الرحمہ کی بارگاہ سے ملنے والا فیضان تھا۔ تحائفِ اشرفی سیّدنا اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کا مبارک دیوان ہے جو کہ پہلی مرتبہ ۱۳۳۳ھ مطابق ۱۹۱۵ء میں اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے چہیتے مرید و خلیفہ حضرت سیّد غلام بھیک نیرنگ اشرفی انبالوی علیہ الرحمہ (۱۸۷۶ء؍ ۱۹۵۲ء) کی کوشش سے اشاعت پذیر ہوا۔ اس کے ابتدا میں حضرت سیّد غلام بھیک نیرنگ علیہ الرحمہ نے اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے مختصر حالات بھی درج کیے ہیں۔ اسی میں وہ فیضانِ راجشاہی کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’اعلیٰ حضرت قبلہ و کعبہ نے باطنی علوم کی تعلیم اپنے برادرِ بزرگوار حاجی الحرمین سیّد شاہ ابو محمد اشرف حسین مدظلہ العالی سے (جن کو علاوہ خاندانِ اشرفیہ کے تمام مشائخ ہم عصر سے فیض صوری و معنوی حاصل ہوا ہے) پائی ہے۔ شغل وجودیہ اور بعض اذکارِ مخصوصہ کی تعلیم حضرت سیّد شاہ عماد الدین اشرف اشرفی عرف لکڑشاہ کچھوچھوی قدس سرہ سے پائی۔ حضرت لکڑشاہ صاحب خاندانِ اشرفیہ میں مشاہیر مشائخ سے گذرے ہیں۔ اسی طرح دیگر اوراد و وظائف کی اجازت اکثر علماء مشائخ ہندوستان سے حاصل فرمائی۔ چنانچہ جناب حضرت راج شاہ صاحب سوندھوی قدس سرہ ضلع گڑگاواں سے اجازت و خلافت خاندانِ قادریہ و خاندانِ زاھدیہ حاصل کی اور تعلیم سلطان الاذکار و شغل محمود و دیگر اشغالِ مخصوصہ سے مشرف ہوئے۔‘‘ (تحائفِ اشرفی ۴۲؍۴۳ مطبوعہ جامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ)
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ فنا فی الشیخ امام النحو صدر العلماء علامہ سیّد غلام جیلانی اشرفی میرٹھی علیہ الرحمہ (۱۳۱۹ھ؍ ۱۳۹۸ھ) اپنی شہرۂ آفاق تصنیف بشیر القاری شرح بخاری کے دیباچہ میں فیضانِ راجشاہی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے پیر و مرشد اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو فیضانِ راجشاہی کیا ملا کہ فتوحات کے دروازے وا ہوگئے۔ خود صدر العلماء کی زبانی سنیے۔
’’سیّد الفقراء امام العرفاء ولایت پناہ حقیقت آگاہ حضرت میاں راج شاہ قدس سرہ کی خدمت میں بھی آپ (اعلیٰ حضرت اشرفی میاں) سوندھ شریف ضلع گڑگاواں حاضر ہوئے تھے۔ جن کا وصال ۸؍ رمضان المبارک ۱۳۰۶ھ میں ہوا۔ وصال کا سن ہجری ہائے ہائے آفتاب معرفت سے نکلتا ہے۔ آپ نے بھی خلافت سے نوازا۔ اور ایک دو اَنّی عطا فرمائی تھی۔ جس کے بعد فتوحات کے دروازے ایسے کھل گئے کہ کوئی سائل کسی وقت محروم واپس نہ ہوتا تھا۔‘‘ (بشیر القاری دیباچہ ص: ۱۸، مطبوعہ مکتبۃ الجیلانی سنبھل یوپی)
جس طرح اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ نے فیضانِ راجشاہی پایا تو فتوحات کے دروازے کھل گئے۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ جس وقت حضور سرکار کلاں کے توسل سے شیخ الاسلام والمسلمین کو فیضانِ راجشاہی حاصل ہوا اسی وقت سے آپ کے لیے بھی فتوحات کے دروازے کھول دئیے گئے اور حق ہے کہ شیخ الاسلام کی بارگاہ سے بھی کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا ہے۔
خود صدر العلماء امام النحو علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے مرشد برحق اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ نے اکتسابِ فیض کے لیے قطبِ عالم حضرت میاں راج شاہ قادری سوندھوی علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ سرکار سراوہ حضرت حافظ سیّد ابراہیم قادری کے سپرد فرمایا۔ امام النحو اکتسابِ فیض کا حال بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’چونکہ طلبِ صادق تھی اس لیے مرشد برحق (اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ) کی روحانیت پھر متوجہ ہوئی اور اپنے برادرِ طریقت غواص بحر معرفت آقائے نعمت رہبر حقیقت فقیر کامل عارف واصل حامل اخلاق نبوی کاشف اسرار لم یزلی سیّدی و مولائی حضرت شاہ حافظ سیّد محمد ابراہیم صاحب قادری قدس سرہ القوی ساکن قصبہ سراوہ ضلع میرٹھ کے سپرد فرما دیا۔ آپ کی خدمت اقدس میں پہنچ کر بفضلہ تعالیٰ سات سال تک کشف و کرامات کا جی بھرکر مشاہدہ کیا۔ طرح طرح کی کراماتیں نظر کے سامنے آئیں۔ حضرت مولانا روم قدس سرہ کے ارشاد ؎
اولیاء را ہست قدرت ازالٰہ
تیرجستہباز گرداند ز راہ
پر اب تک ایمان بالغیب تھا اس بارگاہ ولایت پناہ میں حاضری کے بعد مشاہدہ سے سرفراز فرمایا گیا۔ بلکہ الحمدللہ علیٰ احسانہ کہ اس دربارِ گہربار سے دین بھی ملا اور دنیا بھی۔ اب تک اس سیاہ کار پر نظرِ کرم فرماتے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ابد الآباد تک فرماتے رہیں گے۔‘‘ (بشیر القاری دیباچہ ص: ۱۸) شیخ الاسلام والمسلمین کے والد ماجد حضور محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ کو بھی صدر العلماء کے ہمراہ سرکار سراوہ علیہ الرحمہ (متوفی شب چہار شنبہ بعد نمازِ مغرب ۲۲ محرم ۱۳۷۱ھ) سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ آپ سے بے حد متاثر ہوئے تھے۔ (حیات صدر العلماء ص: ۲۵۵؍ ۲۵۶)
خود اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ قطبِ عالم حضرت میاں راج شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ کی حاضری و اکتسابِ فیض کے پُرکیف لمحات کا تذکرہ فرماتے ہوئے یوں تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک روز فقیر ابو احمد المدعو محمد علی حسین سجادہ نشین اشرف السمنانی ساکن کچھوچھہ شریف خدمت میں برائے زیارت حضرت فردِ وقت میاں راج شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حاضر ہوا۔ چند ساعت خدمت میں شرفِ باریابی حاصل کرنے کے بعد ارشاد ہوا کہ اچھا آرام کیجیے۔ درِ دولت سے مرخص ہوکر گاؤں کی مسجد میں آیا جہاں کہ صاحبزادے صاحب حضرت عبداللہ شاہ صاحب مقیم تھے۔ ٹھہرا صحبت گرم ہوئی عجیب پایہ کا شخص دیکھا، خدا عمر میں برکت کرے۔ نہایت منکسر المزاج مہمان نواز محبت کرنے والا پایا۔ صبح کو جب اٹھے اور میں حجرہ سے نکلا تو صاحبزادے صاحب نے میری صورت غور سے دیکھ کر کہا قبلہ پیرجی صاحب جناب کا گردن سے اور یہ چہرہ کا حصہ حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ سے بالکل مشابہ ہے۔ میں نے کہا جزاک اللہ پھر کہا گردن سے نیچے کا حصہ نہیں ملتا۔ میں نے کہا درست ہے اور پھر کہا کہ یہ عمامہ بھی ویسا نہیں۔ میں نے کہا بالکل صحیح ہے میں ان کی اولاد سے ہوں اور میں نے دوسری نشانی ریش بلند کرکے بتائی کہ یہ حصہ بالکل ان کے مطابق ہے سرِمو فرق نہیں۔ شاباش سینہ سے لپٹ گیا اور کہا کیوں نہ گوہ کے جائے تو کھردرے ہی ہوں گے۔ زاں بعد میں حضور قبلہ میاں راج شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اللہ اللہ کی خواہش ظاہر کی۔ نہایت شفقت اور کمالِ محبت سے جو کچھ عطا فرمانا تھا وہ دیا۔ میں نے شجرہ طیبہ سلسلہ قادریہ کا طلب کیا۔ فرمایا مولانا سے لکھالو، صاحبزادے صاحب سے حسب ارشاد شجرہ لیا گیا اور میں نے شجرہ مع اشغال معمولی و مخصوصی انہیں دے کر مجاز مختار سلسلہ قادریہ رزّاقیہ کا کیا اور خواہش اجازت طلبی کی۔ صاحبزادے نے غلوئے محبت سے ٹھہرانا چاہا۔ اصرار پر کہا کہ حضور قبلہ سے اجازت لے لیجیے، اگر وہ ارشاد فرمائیں تو تشریف لے جائیے۔ چنانچہ حضرت قبلہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اجازت طلب کی فرمایا کہ حق مہمانی ابھی ادا نہیں ہوا آج اور ٹھہرئیے۔ مجبوراً تعمیلِ ارشاد کرنی پڑی، واپس گاؤں کی مسجد میں آیا۔ صاحبزادے صاحب انتظار میں تھے میں نے دیکھتے ہی کہا ؎
گفتۂ او گفتہ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
بھائی باوا بیٹوں کی تار برقی کھڑک گئی کون جانے دیتا ہے۔ غرض اس روز ٹھہرا اور علی الصباح باہزاراں درد و انبساط روانہ ہوا۔ سبحان اللہ مردانِ راہِ خدا ایسے ہی ہوتے ہیں۔ انہیں نفوسِ قدسیہ کی برکت سے اس عالم کی عالم آرائی ہورہی ہے۔‘‘ (ملّت راجشاہی مصنفہ معین قادری ص: ۱۸۶؍ ۱۸۷)
مذکورہ بالا اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی تحریر دل پذیر سے سب کچھ روشن ہوگیا کہ قطب عالم میاں راج شاہ قادری سوندھوی علیہ الرحمہ نے اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو سلسلۂ قادریہ کی خلافت و اجازت عطا فرمائی۔ ’’نہایت شفقت و کمالِ محبت سے جو کچھ عطا فرمانا تھا وہ دیا‘‘ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے اس جملہ میں کیسے کیسے اسرار و رموز مخفی ہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ قطب عالم میاں راج شاہ علیہ الرحمہ سے خلافت حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے مجدد وقت حضرت مولانا عبداللہ شاہ قادری راج شاہی سوندھوی علیہ الرحمہ (۱۲۴۷ھ؍ ۱۳۴۲ھ) کو سلسلۂ قادریہ رزاقیہ کی خلافت و اشغال مخصوصہ کی اجازت سے نوازا۔ ذیل میں وہ شجرہ طیبہ قادریہ درج کیا جاتا ہے جو اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو قطب عالم میاں راج شاہ علیہ الرحمہ کی بارگاہ سے ملا:
سلسلۂ عالیہ قادریہ رزّاقیہ راج شاہیہ
شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی عن شیخہ و خالہ غوث زماں سرکار کلاں حضرت سید مفتی محمد مختار اشرف اشرفی الجیلانی عن شیخہ وجدہ قطب الارشاد اعلیٰ حضرت سید ابو احمد المدعو محمد علی حسین اشرفی میاں عن شیخہ قطب الاقطاب غوث الصمد فرد الاحد حضرت میاں راج شاہ قادری سوندھوی عن شیخہ شیخ المشائخ حضرت مولانا محمد اسماعیل صدیقی قادری مہمی عن شیخہ سرتاج زھّاد حضرت شاہ غلام جیلانی صدیقی قادری مہمی ثم رھتکی عن شیخہ وابیہ زبدۃ العارفین حضرت شاہ بدر الدین اوحد صدیقی قادری مہمی ثم رھتکی ثم لکھنوی عن شیخہ محدث اعظم حضرت الحاج شاہ محمد فاخر قادری محدث الٰہ آبادی عن شیخہ وابیہ تاج الاصفیاء حضرت شیخ محمد یحییٰ المعروف بہ شاہ خوب اللہ قادری الٰہ آبادی عن شیخہ و عمّہ قطب العارفین حضرت شیخ محمد افضل قادری الٰہ آبادی عن شیخہ قطب اکمل حضرت میر سید محمد ترمذی کالپوی عن شیخہ حضرت سید شاہ جمال الاولیاء کڑوی عن شیخہ حضرت شیخ قاضی ضیاء الدین عرف قاضی جیا عن شیخہ حضرت سید ابراہیم ایرجی عن شیخہ حضرت شیخ بہاؤ الدین قادری عن شیخہ حضرت میر سید احمد جیلانی عن شیخہ وابیہ حضرت میر سید حسن شاہ عن شیخہ وابیہ حضرت سید موسیٰ عن شیخہ وابیہ حضرت میر سید علی عن شیخہ وابیہ حضرت سید محمد دوم عن شیخہ وابیہ حضرت سید حسن عن شیخہ وابیہ حضرت سید احمد عن شیخہ وابیہ حضرت سید محمد عن شیخہ وابیہ حضرت سید محی الدین ثانی ابو نصر محمد عن شیخہ وابیہ حضرت سید ابو صالح عبداللہ نصر عن شیخہ وابیہ حضرت تاج الدین سید عبد الرزاق عن شیخہ وابیہ حضرت غوث الاعظم سید ابو محمد محی الدین عبد القادر جیلانی حسنی عن شیخہ حضرت شیخ ابو سعید مبارک مخزومی عن شیخہ حضرت شیخ ابو الحسن علی بن محمد بن یوسف القرشی الہکّاری عن شیخہ حضرت شیخ ابو الفرح محمد یوسف طرطوسی عن شیخہ حضرت شیخ ابو الفضل عبد الواحد تمیمی عن شیخہ حضرت شیخ جعفر ابوبکر شبلی عن شیخہ حضرت شیخ سید الطائفہ جنید بغدادی عن شیخہ حضرت شیخ سرّی سقطی عن شیخہ حضرت شیخ معروف کرخی عن شیخہ حضرت امام علی رضا بن موسیٰ کاظم عن شیخہ وابیہ حضرت امام موسیٰ کاظم عن شیخہ وابیہ حضرت امام جعفر صادق عن شیخہ وابیہ حضرت امام محمد باقر عن شیخہ وابیہ حضرت امام زین العابدین عن شیخہ وابیہ سید الشھداء حضرت امام حسین عن شیخہ وابیہ حضرت امیر المؤمنین مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم عن سید المرسلین احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ‘‘
اس شجرۂ مبارکہ کے بعد اب وہ شجرہ طیبہ قادریہ رزاقیہ اشرفیہ ملاحظہ فرمائیں جو اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے اپنے دستِ مبارک سے تحریر فرما کر مجدد وقت حضرت مولانا عبداللہ شاہ قادری سوندھوی علیہ الرحمہ کو عطا فرمایاتھا۔ مصنف ملّت راج شاہی لکھتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کا وہ تحریر کردہ شجرہ قبلہ مجدد صاحب علیہ الرحمہ کے خاندان میں بطور تبرک موجود ہے۔ (ملّت راج شاہی ص: ۱۸۷) شجرہ طیبہ یہ ہے۔
سلسلۂ عالیہ قادریہ رزاقیہ اشرفیہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمدللہ رب العٰلمین والصلوٰۃ علی رسولہ واٰلہ وصحبہ اجمعین۔ اما بعد ہذا ۔
فقیر سراپا جرم و تقصیر سید ابو احمد المدعو محمد علی حسین حسنی القادری سجادہ نشین درگاہ حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی ارادت و اجازت در سلسلۂ عالیہ قادریہ رزاقیہ از حضرت اخوی الاعظم سید حاجی ابو محمد اشرف حسین مدظلہ العالی عن جدہ حضرت شاہ نیاز اشرف رحمۃ اللہ علیہ عن عمّہ حضرت سید شاہ داؤد علی عرف پلٹ شاہ رحمۃ اللہ علیہ عن خالہ حضرت سید شاہ توکل علی رحمۃ اللہ علیہ عن اخیہ حضرت سید شاہ بہاء الدین عامل رحمۃ اللہ علیہ عن والدہ حضرت سید شاہ احمد رحمۃ اللہ علیہ عن والدہ حضرت سید شاہ راجو رحمۃ اللہ علیہ عن اخیہ حضرت سید شاہ محمود شمس الحق والدین رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ حاجی چراغ جہاں رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ جعفر عرف لاڈکٹہ نواز رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ حسین قتال رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ حاجی الحرمین عبد الرزاق ثانی مخاطب بخطاب نور العین رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ عبد الغفور حسن جیلی رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ احمد شریف رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ ابو الحسن شریف رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ موسیٰ شریف رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ علی شریف رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ محمد شریف رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ سید شاہ حسن شریف رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ احمد شریف رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ محمد شریف رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ ابی نصر محی الدین رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ ابی صالح رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ عبد الزاق رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت محبوبِ سبحانی قطب ربانی غوث الاعظم سرتاج بنی آدم سید محی الدین ابو محمد عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن ابیہ حضرت سید شاہ ابی صالح رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ ابی عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ سید شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ داؤد رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت شاہ موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت شاہ عبداللہ محض رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سید شاہ حسن المثنیٰ رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن ابیہ حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن حضرت سید عالم محمد رسول اللہ ﷺ۔
معلوم اربابِ طریقت و اصحابِ حقیقت بادکہ دریں سلسلہ عالیہ قادریہ رزاقیہ حسب درخواست برادر اعزاز سلمہ مولوی عبداللہ صاحب خلف اعظم حضرت مخدومی راج شاہ صاحب را اجازت دادم و باشغال معمولی و مخصوصی مجاز نمودم۔ اللہ تعالیٰ مرا وایشاں را ہدایت صراطِ مستقیم عطا فرماید یوم بعث و نشور در زمرۂ قادریاں برانگیزد۔ آمین یامجیب السائلین۔ راقم فقیر ابو احمد المدعو محمد علی حسین سجادہ نشین اشرف السمنانی ۔ ساکن مقام کچھوچھہ شریف ضلع فیض آباد ڈاک خانہ بسکھاری۔
المرقوم بست و یکم ماہ جمادی الاول ۱۳۰۴ہجری۔‘‘ (ملّت راج شاہی ص: ۱۸۷؍۱۸۸)
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی مذکورہ تحریر میں ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کو جہاں مشائخ زمانہ نے ہم شبیہ غوث الثقلین فرمایا وہیں مجدد وقت مولانا عبداللہ شاہ قادری نے بھی آپ کو ہم شبیہ غوث الاعظم فرمایا۔ مجدد وقت کا ہم شبیہ بتانا کئی معنی کر اہمیت کا حامل ہے۔ اول یہ کہ اس کے راوی خود اعلیٰ حضرت اشرفی میاں ہیں، دوم تحریر مبارک بھی آپ کی ہے۔ سوم مجدد وقت کے فیض کا تعلق براہِ راست دربارِ غوث پاک رضی اللہ عنہ سے تھا جیسا کہ ملّت راجشاہی میں درج ہے۔ ’’جگہ جگہ کی ودیعتیں جو حضرت قبلہ فردِ وقت میاں راج شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اکٹھی کی تھیں خدا نے وہ حصہ حضرت کو پہنچا دیا، باقی امورِ باطنیہ کا تعلق براہِ راست دربارِ غوث پاک رضی اللہ عنہ سے تھا۔ (ملّت راج شاہی، ص: ۱۹۷)
مشائخ زمانہ کے اور آپ کے ہم شبیہ بتانے میں بھی نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ مشائخ عصر فقط یہ فرماکر خاموش ہوگئے کہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں ہم شبیہ غوث الاعظم ہیں۔ لیکن مجدد وقت کے بتانے کا نرالا انداز ملاحظہ کیجیے۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کا جو حصہ غوث الاعظم کی طرح ہے اسے بھی بتایا اور جو حصہ غوث الاعظم سے نہیں ملتا اسے بھی بتایا۔ بڑی لطف کی بات یہ کہ مجدد وقت بتاتے جاتے تھے اور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں اس پر مہر تصدیق ثبت فرماتے جاتے تھے کہ شہزادے تم نے درست کہا۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے سراپا کو کسی نے اس طرح واضح کیا ہو کہ یہ حصہ غوث الاعظم سے ملتا ہے، یہ نہیں ملتا۔ مذکورہ واقعہ کے علاوہ نظر سے نہیں گزرا۔
اعلیٰ حضرت کی قطب عالم میاں راج شاہ کے مزار پر حاضری
قطب عالم میاں راج شاہ علیہ الرحمہ کے مزار پُر انوار پر اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی حاضری کا آنکھوں دیکھا حال قطب عالم کے پوتے حضرت مولانا محمد عمر شاہ قادری (متوفی ۵؍ ذی الحجہ ۱۳۷۲ھ برو ز یک شنبہ ،مزار شریف: موضع سرانوالی، ڈسکہ، ضلع: سیالکوٹ، پاکستان) یوں بیان فرماتے ہیں:
’’حضرت قبلہ و کعبہ ہادیِ دین متین پیر جی علی حسین صاحب کچھوچھہ شریف والے عرصہ آٹھ یا نو سال کا ہوا وہ سوندھ تشریف لائے تھے۔ دو اشخاص ایک میرٹھ کے اور ایک صاحب جھاڑسہ تحصیل گڑگاؤں کے ہمراہ تھے اور آنجناب کا خادم خاص بھی ہم رکاب تھا۔ جو صاحب جھاڑسہ کے باشندہ تھے، وہ پہلے آئے اور خبر کی۔ حضور مولانا قبلۂ ام مرشدی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ بھائی محمد عمر تم جاؤ! وہ ہمارے مرشد زادہ ہیں۔ صاحبزادۂ اولاد ِغوث اعظم ہیں۔ چنانچہ عاجز عمر اور نور احمد دونوں روانہ ہوئے۔ پہاڑ کے قریب جب پہنچے تو حضور قبلہ پیر جی صاحب پیدل تھے۔ احقر نے قدم بوسی حاصل کی اور عرض کیا: حضور! گاڑی میں سوار ہوجائیں۔ فرمایا: کہاں سے آئے ہو۔ عرض کیا: سوندھ سے۔ اور حضور کے خادم زادہ ہیں۔ خوش ہوئے، سینہ سے لگایا اور فرمایا کہ حقِ خدمت ادا کیا۔ چلو ، پیدل چلوں گا۔ اصرار کیا۔ فرمایا: کعبہ کو پیدل جانا موجب ازدیادِ ثواب ہے۔ میرا کعبۂ مقصود ہے(سوار ہونا) ترکِ ادب ہے۔ پہلے بھی بزمانۂ حیات حضرت قبلہ میاں راج شاہ صاحب علیہ الرحمہ سُہنہ سے پیدل حاضر ہوا تھا۔ فیض کے اثرات سے مالا مال ہوا۔ اب بھی یہی ارادہ ہے۔ عاجز نے ہاتھ جوڑے اور عرض کیا کہ آپ ہمارے سر کے تاج ہیں، بلکہ ہماری سات نسلوں کے۔ فرمایا: میاں صاحب زادہ! میں حضرت میاں راج شاہ صاحب سے طالب ہوں۔ وہ ہادی ہیں۔ عرض کیا: یہ سب کچھ صحیح۔ آپ جانیں اور وہ۔ ہم تو حضور کے خانہ زاد غلام ہیں۔ جو کچھ ہے وہ آپ ہی کے بزرگوں کا طفیل ہے۔ غرض بمشکل تمام سوار کرایا۔ میں نے قدم پکڑے اور ہم رکاب چلا۔ فرمایا کہ تم بیٹھو۔ عرض کیا میں تو حضور کے لیے سواری ہوں۔ یہ ترکِ ادب ہے۔ فرمایا: جزاک اللہ۔ پھر سوندھ تشریف لائے۔ بیٹھک میں فروکش ہوئے۔ تھوڑی دیر آرام فرما کر حجرہ میں ملنے کے لیے تشریف لے گئے۔ حضور ’’مجددِ وقت‘‘ اُٹھے۔ ان دنوں طبیعت زیادہ علیل تھی اور کمزوری زیادہ تھی۔ پیر جی صاحب قبلہ نے روک دیا۔ حضرت مولانا عبداللہ شاہ صاحب نیچے بیٹھنا چاہتے تھے اور پیر جی صاحب فرماتے تھے کہ نہیں میں نیچے بیٹھوں گا۔ دیر تک اصرار رہا۔ اس گفت و شنید میں حجرۂ انور دونوں بزرگوں کے انوار سے ایسا منور ہوا کہ محسوس ہونے لگا کرسی دار موڑھا منگایا۔ اس پر پیرصاحب کو بٹھایا اور سب کو علاحدہ کردیا۔ صرف عاجز عمر حاضر رہا۔ فرمایا کہ آپ اس ضعیفی میں کھیت تک تشریف لے گئے۔ یہ آپ کی شانِ بزرگی ہے۔ اپنے صاحبزادہ کو پہاڑ تک بھیجا۔ جزاک اللہ۔ نہایت دل خوش ہوا۔ خدا اس خاندان کو آباد رکھے۔ عزیز نے پیدل نہ چلنے دیا۔ بڑا زبردست ہے۔ حضرت مجددِ وقت نے فرمایا: خادم کا کام خادمی ہے۔ ہم سب آپ کے خادم ہیں۔ آپ پیر صاحب ہمارے آقا ہیں۔ اس پر رقت طاری ہوئی۔ آبدیدہ ہوئے۔ پھر حضرت قبلہ پیر جی صاحب نے فرمایا کہ مولانا جھولی لے کر آیا ہوں اور رومال کی جھولی بنائی اور سامنے کی اور کہا کہ اجازت دیں۔ دعا کریں۔ مدد کریں۔ بھیک ڈالیں۔ عجب ایک سُرور کا عالم دو جانب تھا۔ حضور مولانا دست بدعا ہوئے اور مٹھی بند کرکے بحالت خاموشی جھولی میں ڈالی اور کہا کہ ہم خادم ہیں۔ بسم اللہ کرکے شروع کریں اور کچھ کان میں کہا۔ پھر نشست گاہ پر تشریف لے آئے۔ کچھ دیر بعد حضور نے کہا کہ پیر صاحب سے مل آؤں۔ اُدھر ایسا ہی پیر صاحب نے فرمایا۔ مولانا پہلے پہنچ گئے۔ مصافحہ کیا اور عرض کیاکہ بندہ خادم ہے۔ پیر صاحب نے فرمایا کہ کیا مجھے خادم نہیں جانتے؟ مولانا صاحب نے فرمایا کہ آپ کچھ ہی خیال فرماویں مخدوم تو ہر حالت میں مخدوم ہی رہے گا۔ حضرت مولانا تشریف لے گئے اور پیر جی صاحب مزار (قطب عالم کے مزار) پر تشریف لائے۔ غلاف پر ہاتھ رکھ کر سینہ سے لگایا اور چادر سر پر ڈال کر خاموش دوزانو بیٹھ گئے۔ دیر تک بیٹھ جاری رہی۔ محبت کے کرشمے خوب دیکھے اور احقر بھی شریک رہا۔ عجب حالت تھی۔ پیر جی صاحب کا ایک مرید خاص علی گوہر نامی اس لطف سے زار زار روتا تھا۔ آپ نے پانی دَم کرکے پلایا، پاس بٹھایا ۔ ہوش ہوا۔ دوسری صبح کو ارادہ تشریف بری کا فرمایا۔ حضرت مرشدی مولانا مجددِ وقت صاحب نے عاجز سے فرمایا: رسمِ نذرانہ ادا کرو۔ جب پیر جی صاحب زیارتِ مزار سے واپس آئے، نذرانہ پیش کیا۔ قدم چومے اور عرض کیا کہ کرم کے اُمیدوار ہیں۔ دُعا دی، نذر قبول کی۔ حضور نے بھی پیش کی اور عرض کیا کہ بندہ خادم حاضر ہے۔ فرمایا کہ خدا برکت زیادہ کرے۔ پھر مولانا صاحب نے اپنے لوگوں کو پیش کیا۔ سر پر ہاتھ رکھا۔ دُعا دی۔ پھر آپ نے خادم خاص کو مولانا کی خدمت میں پیش کیا۔ حضور نے سینہ سے لگایا اور دعا دی۔ پھر رخصت ہوئے۔ عاجز ہم رکاب ہوا۔ راستے میں دو نسخے عنایت فرمائے۔ بخشش اور دعا کے ساتھ مجھ کو رخصت کیا۔ یہ ہے کرم بزرگانہ۔ ‘‘ (ملت راج شاہی، ص۲۹۰، ۲۹۱، ۲۹۲)
شیخ الاسلام اخلاق و کردار کے دھنی
مذکورہ واقعہ سے جہاں اعلیٰ حضرت کی قطب عالم سے عقیدت و محبت کا پتہ چلتا ہے وہیں اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اسلاف کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے کس قدر وسعت و محبت ہوتی تھی۔ اعلیٰ حضرت اور مجددِ وقت کے مابین جو عاجزی، منکسر المزاجی، مہمان نوازی، خرد نوازی، اعلیٰ ظرفی کے مشک بار مناظر دیکھنے کو ملے وہ قلوب و اذہان کی پراگندگی کو صاف کرنے اور مشامِ جاں کو معطر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ دورِ حاضر میں اُلفت و محبت کجا عوام الناس کو تو چھوڑیے خواص کو آپسی تنازعات سے فرصت نہیں۔ اسلاف کی راہ پر چلنے والے نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ الحمدللہ اس دور میں جب ہم شیخ الاسلام والمسلمین کی سیرت کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں تو آپ اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آپ اخلاق و کردار کے ایسے دھنی ہیں کہ جو ایک بار ملتا ہے تو بار بار ملنے کا خواہاں رہتا ہے۔ میرے والد ماجد مفتی اعظم ہریانہ و میوات حضرت علامہ مفتی محمد اسحٰق قادری اشفاقی دامت برکاتہم القدسیہ بانی مرکز فروغِ اسلام برکاتِ اشفاق ، ٹائیں میوات، نوح ہریانہ چند برس قبل احمد آباد شیخ الاسلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ شیخ الاسلام نے باوجود عدیم الفرصتی کے کافی وقت عنایت فرمایا۔ کرم نوازی فرمائی اور بڑی محبت سے پیش آئے۔ ’’سید التفاسیر‘‘ کی مکمل دس جلدیں عطا فرمائیں۔ دورانِ گفتگو اہلسنّت کے آپسی انتشار پر گہرے دُکھ کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا: ’’کاش اہلسنّت آپس میں شیر و شکر ہوجاتے اور باہم مل کر دین کا کام کرتے تو ایک عظیم انقلاب برپا ہوجاتا۔‘‘
والد ماجد ‘شیخ الاسلام کے اخلاقِ حمیدہ سے بے حد متاثر ہوئے۔ میں نے والد ماجد سے پوچھا: ابا جی! آپ نے شیخ الاسلام کو کیسا پایا؟ فرمانے لگے: ’’شیخ الاسلام والمسلمین کو بے حد سادہ، منکسر المزاج، مہمان نواز، خرد نواز اور حاملِ اخلاقِ نبوی پایا۔ وہ مردِ قلندر ہیں۔ علم و فضل کے شہنشاہ ہیں۔ مکمل نمونۂ اسلاف ہیں۔ اپنے جدِ امجد اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے مظہر اتم ہیں۔‘‘
پانچ برس قبل راقم نے بموقع عرس سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ شیخ الاسلام کی دست بوسی کا شرف حاصل کیا۔ حضرت نے بڑی شفقت فرمائی اور دعاؤں سے نوازا۔ میرے سامنے اذا رؤوا ذُکراللّٰہ کا نقشہ تھا۔
میرے مرشد برحق اور فیضانِ محدثِ اعظم
مجھ (راقم) کو بھی اشرفی فیضان کی نسبت حاصل ہے۔ وہ یوں کہ میرے مرشد برحق اشفاق العلما بابائے قوم و ملت مفتیِ اعظم راجستھان حضرت علامہ مفتی محمد اشفاق حسین نعیمی علیہ الرحمہ جودھ پور (متوفی ۹؍ ذی الحجہ ۱۴۳۴ھ بروز سہ شنبہ) کو شیخ الاسلام کے والد ماجد حضور محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ اور شیخ الاسلام کے مرشد برحق و ماموں حضور سرکارِ کلاں علیہ الرحمہ سے شرفِ خلافت و اجازت حاصل ہے۔ میں نے بارہا حضرت مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’دارالعلوم اسحاقیہ آج جس ترقی پر ہے یہ محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ و مفتیِ اعظم ہند علیہ الرحمہ (۱۳۱۰ھ / ۱۴۰۲ھ) کی دعائوں و مجاہد دوراں حضرت علامہ سید مظفر حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ (متوفی ۱۰؍ نومبر ۱۹۹۷ ء) کی محنتوں کا ثمرہ ہے۔ مجاہدِ دوراں کی دارالعلوم کے لیے وہ قربانیاں ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کو جودھ پور میں شروع شروع میں کافی دقتیںبرداشت کرنی پڑیں۔ جب ۱۹۵۵ء میں محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ و مفتیِ اعظم ہند علیہ الرحمہ تشریف لائے تو مفتیِ اعظم راجستھان علیہ الرحمہ نے جانے کی اجازت چاہی۔ اس وقت محدثِ اعظم علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا: ’’آپ کو جانے کی اجات نہیں۔ ہم اس ادارے کا مستقبل روشن دیکھ رہے ہیں۔‘‘
اس واقعہ کو مفتیِ اعظم راجستھان کی زبانی سنیے:
’’۱۹۵۵ء میں حسنِ اتفاق کہ حضرت محدثِ اعظم ہند، حضرت مفتیِ اعظم ہند یہ دونوں آفتاب ماہتاب یہاں تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا کہ ’’حضرت حالات ناگفتہ بہ ہیں، وقت پر تنخواہ بھی نہیں ملتی۔ بڑی پریشانی ہے۔‘‘ یہ دونوں بزرگ اس ادارے کے مختصر صحن میں تشریف فرماتھے۔ جب میں نے عریضہ پیش کیا کہ ’’مالی حالت انتہائی کمزور ہے۔ آپ مجھے اجازت دیجیے کہ میں جگہ چھوڑ دوں۔‘‘ان دونوں بزرگوں نے میری گذارشات کو بغور سنا اور سننے کے بعد حضرت محدث صاحب کی زبان سے نکلا ’’آپ جارہے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس ادارے کا مستقبل بہت ہی شاندار ہے۔ یہاں سے ایسے پھول کھلیں گے جو صرف پورے علاقے کو ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو مہکائیں گے۔‘‘
پھر دونوں نے دعا کی اور دعا کے بعد فرمایا: مولانا سنیے! آپ کو یہاں سے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں یہ حضرت صدر الافاضل کا حکم ہے۔ آپ رہیے، اس اِدارے کا مستقبل بہت شاندار ہے۔ (معارفِ مفتی ِ اعظم راجستھان، ص ۴۱۵)
ادارے کا روشن مستقبل اور شیخ الاسلام کا مشاہدہ
روشن ضمیر محدثِ اعظم نے جو فرمایا تھا شیخ الاسلام نے اس کا مشاہدہ فرمایا۔ شیخ الاسلام دارالعلوم اسحاقیہ کے بارے میں یوں تحریر فرماتے ہیں:
حامداً و مصلیاً و مبسملاً
فاضل جلیل مولانا العلام حضرت مفتی اشفاق حسین صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ ولازالت فیوضہم القدسیہ کی دعوت پر جودھ پور آنا ہوا۔ مدرسہ اسحاقیہ میں قیام رہا۔ مدرسہ کے معائنہ کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ بچوں کی قرأت سنی۔ طلبہ کے ذوق و شوق کو دیکھا۔ حساب و کتاب کی باقاعدگی دیکھی اور کیا عرض کروں، کیا کیا دیکھا۔ وہ دیکھا جس نے دل کو سرور بخشا اور نگاہوں کو نور عطا کیا اور یہ سب کچھ دیکھنے سے پہلے دارالعلوم کی پرشکوہ عمارت دیکھی۔ جس سے علم و ہدایت کی روشنی چھنتی ہوئی نظر آئی۔ ایسی روشنی جس نے پورے راجستھان کو بقعۂ نور بنا دیا ہے۔ یقین جانیے کہ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ دارالعلوم صوبہ راجستھان کا وہ منارۂ ہدایت ہے جس کی شعاعیں صرف ملک ہی کے طول و عرض میں نہیں پہنچ رہیں بلکہ افریقہ تک پہنچ چکی ہیں۔ المختصر جو دیکھا خوب دیکھا اور اب صرف یہی نہیں کہ خوب کو خوب تر دیکھنے کی خواہش ہے بلکہ چشم تصور آج ہی اس ادارہ کے مستقبل کو خوب تر دیکھ رہی ہے۔ کاش میں اپنے احساسات کو قلم بند کرسکتا جو اس دارالعلوم کو دیکھنے کے بعد مجھے ہوئے مگر افسوس کے ساتھ اعتراف عجز کرنا پڑ رہا ہے ؎
نقش الفاظ میں احساس کی تصویر کہاں بوئے گل کے لیے فولاد کی زنجیر کہاں
دعا گو ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ اس ادارہ کو دن دونی، رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور علامہ موصوف کے جو ارادے ہوں، اسے پورا فرمائے اور مومنین کے قلوب کو اس کی طرف مائل کردے۔آمین یا مجیب السائلین بجاہٖ سید المرسلین علیہ التحیۃ والتسلیم۔ والسلام علٰی من اتبع الھدیٰ
محمد مدنی اشرفی جیلانی غفرلہٗ
۱۰؍ جون ۱۹۷۱ء نزیل جودھ پور(معارف مفتی اعظم راجستھان صفحہ ۶۷۲)
شیخ الاسلام نے اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی یاد تازہ کردی
بزرگانِ دین کے فیوض و برکات سے مالا مال ہوکر شیخ الاسلام نے جس میدان کا رُخ کیا اسے فتح کرتے چلے گئے۔ خطابت کی دنیا میں قدم رکھا تو شہنشاہِ خطابت نظر آئے۔ آپ کی خطابت نے یورپ (امریکہ، برطانیہ، کینڈا وغیرہ) میںایک عظیم دینی انقلاب برپا کیا۔ سنیت کی جڑیں مضبوط کیں۔ عوام الناس کے قلوب و اذہان میں مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق پیدا کیا۔ درجنوں مسجدیں یورپ میں آپ کی جدوجہد سے بنیں اور آباد ہوئیں۔ شیخ الاسلام نے یورپ میں جو عظیم کام کیا اسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرپائے گی۔ تدریس ہو کہ تصنیف، فتویٰ نویسی کا میدان ہو کہ تحقیق کا، بات رہنمائی کی ہو کہ مریدین و متوسلین کی تربیت کی۔ آپ ہر جگہ ممتاز نظر آتے ہیں۔ آپ بے حد سادہ ہیں۔ ظاہر و باطن آپ کا یکساں ہے۔ قلب محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گنجینہ ہے۔ جو کہ آپ کی عملی زندگی و تصنیف و تالیف سے واضح ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ شیخ الاسلام نے اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے دور کی یاد تازہ کردی، جس طرح اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے ذریعے سلسلۂ اشرفیہ کے فیوض و برکات کا چرچا عرب و عجم میں ہوا اور آپ کے دامنِ ارادت سے عبقری شخصیات کی ایک ایسی لڑی وابستہ تھی کہ جن کی ولایت مسلّم تھی اور ہے۔ اسی طرح شیخ الاسلام کے دور میں آپ کی جہد مسلسل و سعی پیہم اور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے فیضان سے سلسلۂ اشرفیہ کا پرچم یورپ و ایشیا میں شان و شوکت سے لہرا رہا ہے۔ اور آپ کے دامنِ ارادت سے بھی اس دور کی مسلّم شخصیات وابستہ ہیں۔ حق یہ ہے کہ شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے سچّے جانشین و وارث ہیں۔ شیخ الاسلام نے تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی اہل سنّت و جماعت کی ترویج و اشاعت کا زبردست کام انجام دیا اور دے رہے ہیں۔ جب جیسی ضرورت پڑی آپ نے عوام و خواص تک ویسی تصنیف پہنچائی۔ شیخ الاسلام نے قرآنِ مجید کی تفسیر بنام ’’سید التفاسیر‘‘ مکمل دس جلدوں میں لکھ کر اہلِ سنت پر احسان فرمایا ہے اور سید التفاسیر کے مطالعہ کے بعد میرے دل کی آواز یہ ہے کہ اس دور کے مفسرِ اعظم ہند شیخ الاسلام ہیں۔ آپ کی مشہور و معروف تصانیف درج ذیل ہیں:
(۱) سید التفاسیر ، مکمل دس جلدیں (۲) الاربعین الاشرفی فی تفہیم الحدیث النبوی ﷺ (۳) محبت رسول ﷺ روحِ ایمان (۴) تعلیم دین و تصدیق جبرائیل امین (۵) مقالاتِ شیخ الاسلام (۶) انما الاعمال بالنیات کی محققانہ تشریح (۷) نظریۂ ختم نبوت اور تحذیر الناس (۸) اسلام کا تصورِ الٰہ اور مودودی صاحب (۹) فریضۂ دعوت و تبلیغ (۱۰) دین کامل (۱۱) تجلیاتِ سخن (نعتیہ دیوان) (۱۲) خطباتِ برطانیہ (مجموعۂ تقاریر) (۱۳) امام احمد رضا اور اردو تراجم کا تقابلی مطالعہ (۱۴) مسلم پرسنل لاء یا اسلامک لاء (۱۵) دین اور اقامت ِ دین (۱۶) اسلام کا نظریۂ عبادت اور مودودی صاحب۔
ان تصانیف سے آپ کا علمی جاہ و جلال ظاہر ہے۔ شیخ الاسلام پر لکھنے والے لکھیں گے مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوگا۔ آپ کے شمائل پسندیدہ و اوصافِ حمیدہ تحریر کرنے کے لیے دفاتر بھی ناکافی ہیں۔ شیخ الاسلام بیک وقت محدث، مفسّر، فقیہ، مفتی، خطیب، مبلغ، مناظر، شاعر، مصنف، داعی سب کچھ ہیں ؎
ولیس من اللہ بمستنکر ان یجمع العالم فی واحد
مختصر یہ کہ آپ علم و فضل کے وارث و امین اور شریعت و طریقت کے سنگم ہیں۔ آپ جاگتے ہیں تو دین و سنیت کا درد لے کر، سوتے ہیں تو اسی درد و کرب میں۔ شیخ الاسلام کی ذاتِ بابرکات قصرِ سنّیت کے لیے ایک ایسا مضبوط ستون ہے جس کے دم سے قصرِ سنیت محفوظ و مامون ہے۔ مولیٰ تعالیٰ بطفیل مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم شیخ الاسلام والمسلمین کو حیاتِ خضر عطا فرمائے۔ آپ کا سایہ ہم پر تادیر قائم فرمائے۔ آمین یاربّ العالمین۔