حضرتِ سَیِّدُنا اِمام سخاوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْقَوِی نقل فرماتے ہیں : سرکارِ دو عالَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’مَنْ صَلَّی عَلَیَّ صَلَاۃً وَاحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْراً ،جس نے مجھ پر ایک باردُرُودِپاک بھیجا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُس پر دس رَحمتیں نازِل فرماتا ہے ،وَمَنْ صَلَّی عَلَیَّ عَشْراً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ مِاءَۃً اور جو مجھ پر دس بار دُرُودِ پاک بھیجیاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُس پر سو رَحمتیں نازِل فرماتاہے ، وَمَنْ صَلَّی عَلَیَّ مِاءَۃً کَتَبَ اللّٰہُ لَہٗ بَیْنَ عَیْنَیْہِ بَرَاءَ ۃً مِّنَ النِّفَاقِ وَبَرَاءَ ۃً مِّنَ النَّاراور جو مجھ پر سو بار دُرُودِ پاک بھیجے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دیتا ہے کہ یہ بندہ نِفاق اور دوزخ کی آگ سے بَری ہے ،وَاَسْکَنَہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ الشُّہَدَاء اور قِیامَت کے دن اُس کوشہیدوں کیساتھ رکھے گا ۔ ‘‘(القول البدیع،الباب الثانی فی ثواب الصلاۃ علی رسول اللّٰہ…الخ،ص۲۳۳)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے دُرُود وسلام پڑھنے والے پر خُدائے رحمن عَزَّوَجَلَّ کی کیسی کرم نوازیاں ہیں کہ روزِقیامت اُسے شہدا کے ساتھ اٹھایاجائے گا لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ نبیِّ کریم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِوَالتَّسْلِیْم پر کثرت
سے دُرُودِ پاک پڑھاکریں تاکہ ہمارا پڑھاہوادُرُودہماری بخشش و مَغْفِرت کاذَرِیعہ بن سکے ۔ چُنانچہ
حضرت سیِّدُنا شیخ ابو الحسن بِسْطَامِی قُدِّس سرُّہ السَّامِیْ فرماتے ہیں : ’’میں نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں دُعا کی کہ مجھے خَواب میں ابُو صالح مُؤذِّن کی زِیارت ہو جائے ۔‘‘میری دُعا مقبول ہوئی، چنانچہ ایک رات میں نے ان کوخَواب میں بڑی اچھی حالت میں دیکھا ۔ میں نے ان سے دریافت کیا :’’اے ابُو صالح !اپنے یہاں کی کچھ خبر دو ۔‘‘ اُنہوں نے جواب دیا :’’یااَبَاحَسَن! کُنْتُ مِنَ الْہَالِکِیْنَ لَوْلَاکَثْرَۃُصَلَا تِیْ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم،اے ابوالحسن! اگر میں نے سرکار نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُودِ پاک کی کثرت نہ کی ہوتی تو میں ہلاک ہوجاتا ۔‘‘(القول البدیع،الباب الثانی فی ثواب الصلاۃ علی رسول اللّٰہ… الخ ،ص۲۶۰)
میرے اعمال کا بدلہ تو جہنَّم ہی تھا
میں تو جاتا مجھے سرکار نے جانے نہ دیا(سامانِ بخشش،ص۶۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !نبیِّکریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِوَ التَّسْلِیمپر دُرُودِ پاک پڑھنا بے شُمار رَحمتوں اوربَرَکتوں کے حُصُول کا ذَرِیعہ ہے اوراَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ مَذہبِ مُہذَّب اہلِسنَّت وجماعت کا معمول ہے کہ وہ ان بَرَکات کے حُصُول کے لئے اپنی ہرنیک مَحافل میں حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پر کثرت سے دُرُودوسلام پڑھتے ہیں ۔جیساکہ
علامتِ اَہلِ سُنَّت
حضرتِ سَیِّدُنا علی بن حُسین بن علی رَضِیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنْہُم ارشاد فرماتے ہیں : ’’عَلَامَۃُ اَھْلِ السُّنَّۃِکَثْرَۃُالصَّلَاۃِ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہیعنی رسُول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پرکثرت سے دُرُود پڑھنا اہلِ سُنَّت کی علامت ہے ۔ ‘‘(القول البدیع،الباب الاول فی الامر بالصلاۃ علی رسول اللّٰہ…الخ، ص۱۳۱)
اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اللّٰہتبارک وتعالیٰ کے کرم سے سُنّی صحیح العقیدہ مُسلمان اَذان سے پہلے ،اَذان کے بعد،نمازِ جمعہ کے بعداور دیگرکثیر مواقع پر دُرُود وسلام پڑھتے ہیں اور بعض تو ایسے بھی خوش نصیب ہوتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی ان کی زبانوں پر دُرُود وسلام کے نغمے جاری ہوتے ہیں ۔
میں وہ سنی ہوں جمیلِ قادری مرنے کے بعد
میرا لاشہ بھی کہے گا اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام
(قبالۂ بخشش،ص۹۵)
کلامِ الٰہی میں دُرُود وسلام کاحکم مُطلق ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!شیطانِ مَکَّار و عَیَّارجہاں مسلمانوں کو دیگر نیک اَعمال سے روکنے کی کوشش کرتا ہے وہیں اَذان سے پہلے اور بعد دُرُودوسلام کے حوالے سے بھی طرح طرح کے وَسوسے دِلاتا ہے ۔ کبھی کہتا ہے کہ یہ بِدعت ہے
تو کبھی اس اَنداز سے وار کرتا ہے کہ کیا حضرت سَیِّدُنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعالٰی عَنْہ بھی اَذان سے پہلے دُرُود و سلام پڑھا کرتے تھے؟
یادرہے !اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے پارہ 22 سُوْرَۃُالاَحْزابکی آیت نمبر56 میں مُطلق طور پر (یعنی کوئی قید لگائے بغیر ) ارشادفرمایا ہے:
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو ان پر دُرُود اور خوب سلام بھیجو ۔
اور یہ قاعدہ ہے کہ’’اَلْمُطْلَقُ یَجْرِیْ عَلٰی اِطْلِاقِہ، مطلق اپنے اطلاق پرجاری رہتا ہے۔‘‘ یعنی جو چیز شریعت میں بغیر کسی قید وشرط کے بیان کی گئی ہو تواس میں اپنی طرف سے کوئی شرط یا قید لگانا دُرُست نہیں ۔ چونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے مُطلقاً دُرُود وسلام پڑھنے کا حکم فرمایا ہے اس لیے چاہے اَذان سے پہلے پڑھا جائے یا اَذان کے بعد یادونوں جگہ ،اسی حکمِ قرآنی پر عمل کے زُمرے میں آئے گا۔
حضرت سَیِّدُنا عُروہ بن زُبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ بَنِی
نَجَّارکی ایک صحابیہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہانے فرمایا : ’’مسجدِ نَبوِی شریف کے گرد جتنے گھر تھے میرا گھر ان میں سب سے بُلَنْد تھا۔ حضرت سَیِّدُنابلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعالٰی عَنْہفجر کی اَذان اسی پر کہتے تھے ۔وہ پچھلی رات آکر مکان کی چھت پر بیٹھ جاتے اور فجرطُلُوع ہونے کا اِنتظار کرتے رہتے ۔ جب اسے دیکھتے تو انگڑائی لیتے اور کہتے: ’’اللَّہُمَّ اِنِّیْ اَحْمَدُکَ وَاسْتَعِیْنُکَ عَلَی قُرَیْشٍ اَنْ یُّقِیْمُوْا دِیْنَکَ ،اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!میں تیری حمد وثناء بیان کرتا ہوں اور قریش کے مُقابلے میں تیری مَدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دِین کو قائم کریں ۔ ‘ ‘اس کے بعد اَذان کہتے ۔ صحابیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکا بیان ہے کہ خدا کی قسم !میرے علم میں ایسی ایک رات بھی نہیں جب اُنہوں نے یہ اَلفاظ نہ کہے ہوں ۔‘‘(ابو داود،کتاب الصلاۃ ،باب الاذان فوق المنارہ،۱/۲۱۹،حدیث:۵۱۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھاآپ نے کہ حضرت سَیِّدُنا بلالِ حبشی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بلا ناغہ اَذان سے پہلے قریش کیلئے دُعائیہ کلمات ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔ جب اَذان سے پہلے قریش کیلئے دُعائیہ کلمات کہنا ناصرف جائز بلکہ سُنَّتِ بلالی ہے تو پھراَذان سے پہلے سرکارِ مدینہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کیلئے دُعا کرنا یعنی دُرُودوسلام پڑھنا بھی یقیناً جائز بلکہ کثیر اَجر وثواب کا باعث ہے۔
قسمت مجھے مل جائے بلالِ حبشی کی
دم عشقِ محمد میں نکل جائے تو اچھا ہے
بعدِ اذان دُرُود کا ثبوت
یادرہے اَذان سے پہلے دُرُودِپاک پڑھنا اگرچہ اَحادیث سے ثابت نہیں لیکن اَذان کے بعد دُرُودشریف پڑھنے کا حکم تو خُود حُضُور عَلَیْہ السَّلام نے ارشاد فرمایا ہے جیسا کہ سرکارِ مدینہ،راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’اِذَاسَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَیَّ فَاِنَّہُ مَنْ صَلَّی عَلَیَّ صَلَاۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا ،یعنی جب تم مؤذن کو سنو تو تم بھی اسی طرح کہو جس طرح وہ کہہ رہا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک درود بھیجتا ہے اللّٰہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے ۔ (ترمذی،کتاب المناقب عن رسول اللّٰہ،باب ماجاء فی فضل النبی ۵/۳۵۳،حدیث:۳۶۳۴)
مُفسّرِ شہیرحکیم الاُمَّت حضرت مُفْتِی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْقَوِی اس حدیثِ پاک کے تَحت ارشاد فرماتے ہیں : ’’اس سے معلوم ہوا کہ اَذان کے بعد دُرُود شریف پڑھنا سُنَّت ہے بعض مُؤذِّن اَذان سے پہلے ہی دُرُود شریف پڑھ لیتے ہیں اس میں بھی حرج نہیں ، ان کا ماخذ یہ ہی حدیث ہے۔ (حضرتِ علامہ ابنِ عابدین )شامی قُدِّسَ سرُّہُ السَّامِیْنے فرمایا کہ اِقامت کے وَقت دُرُود شریف پڑھناسُنَّت ہے ، خیال رہے کہ اَذان سے پہلے یا بعد بُلَنْد آواز سے دُرُود پڑھنا بھی جائز بلکہ ثواب ہے بلاوَجہ اسے مَنْع نہیں کہہ سکتے ۔‘‘(مراٰۃ،۱/۴۱۱)
اَذان اور صلٰوۃ وسلام میں فَصْل کیجئے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت دَامَت بَرکاتہُم العالیہ فرماتے ہیں :’’اَذان واِقامت سے قبلبِسْمِ اﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِپڑھ کر دُرُود وسلام کے یہ چار صِیغے پڑھ لیجئے ۔
پھر دُرُود و سلام اوراذان میں فَصْل (یعنی وَقفہ)کرنے کے لیے یہ اِعلان کیجئے، ’’اَذان کا اِحتِرام کرتے ہوئے گُفْتُگو اورکام کاج روک کر اَذان کا جواب دیجئے اور ڈھیروں نیکیاں کمائیے‘‘۔اس کے بعد اَذان دیجئے ۔ دُرُود و سلام اور اِقامت کے درمیان یہ اعلان کیجئے ’’اِعتِکاف کی نیَّت کرلیجئے ،مَوبائل فون ہوتو بند کردیجئے۔‘‘
علاَّمہ نَبْہانی قُدِّ سَ سرُّہُ النُّوْرَانیاَذان سے پہلے دُرُود شریف پڑھنے کی حکمت اور اس کا زمانہ بیان فرماتے ہیں کہ اَذان کے وَقت دُرُود و سلام کی اِبتدا کس نیک ہَسْتی نے کی اور کیوں کی اور یہ کب سے تمام دُنیا کے مسلمانوں میں رائج چلتی آرہی ہے چنانچہ فرماتے ہیں :’’اَلْقَوْلُ الْبَدِیْع میں ہے کہ اَذان کے
بعد مُؤذِّنوں نے رسُول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر دُرُود و سلام پڑھنا شُروع کیا اور مُؤذِّن صُبح اور جُمُعہ کی اَذان سے پہلے پڑھتے ہیں اور مغرب کی اذان میں وقت کی تنگی کی بناء پر عام طور پر نہیں پڑھتے اور اس کی اِبتدا مسلمانوں کے مشہور اور محبوب حکمران ، سپہ سالار سُلْطان صلاح ُالدِّین ایُّوبی رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِکے دورِ حکومت میں اس کے حکم پر ہوئی تھی ، رہی اس سے پہلے کی بات تو وہ یہ ہے کہ جب حاکم بن عبد العزیز کو قتل کیا گیا تو اس کی بہن نے حکم دیا کہ اس (حاکم بن عبد العزیز)کے بیٹے ظاہرپر سلام بھیجا جائے تو اس پر ان اَلفاظ کے ساتھ سلام کہا جانے لگا ’’اَلسَّلامُ عَلَی الِامَامِ الظَّاہِر‘‘پھراس کے بعد آنے والے خُلفاء میں سلام کی رسم چل نکلی، یہاں تک کہ سُلْطان صلاح ُالدِّین رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس رَسم کوخَتْم کیا اور اس کی جگہ رسُول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُودوسلام کا طریقہ جاری کیا ۔ ‘‘( سعادۃ الدارین ،الباب الخامس فی المواطن التی تشرع فیہا الصلاۃ علی النبی، ص۱۸۳)
وسوسہ:’’اَذان سے قبل دُرُود وسلام پڑھنا چُونکہ دورِ رسالت میں مُرَوَّج نہ تھا اسلئے بِدعت اور ناجائز ہے۔‘‘
جواب: اس وَسْوَسے کا جواب دیتے ہوئے امیرِ اَہلسنَّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ارشاد فرماتے ہیں : ’’اگریہ قاعِدہ تسلیم کرلیاجائے کہ جوکام اُس دور میں نہیں ہوتا تھا وہ اب کرنا بُری بِدعت اورگُناہ ہے توپھر فی زَمانہ نظام درہم برہم ہوجائیگا ۔ بیشُمار مثالوں میں سے فقط12مثالیں پیشِ خدمت ہیں کہ جو کام اُس مُبارَک دور میں نہیں تھے اوراب ان کوسب نے اپنایا ہوا ہے ۔‘‘
(۱)قرآنِ پاک پرنُقطے اور اِعراب حَجّاج بن یوسُف نے ۵ ۹ ھ میں لگوائے۔ (۲) اُسی نے ختمِ آیات پرعَلامات کے طورپرنُقطے لگوائے(۳) قراٰنِ پاک کی چَھپائی (۴) مسجِدکے وَسط میں اِمام کے کھڑے رہنے کیلئے طاق نُمامحراب پہلے نہ تھی ، وَلید مَروانی کے دَورمیں سیِّدُنا عُمربن عبدالعزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعالٰی عَنْہنے اِیجاد کی ۔ آج کوئی مسجِداس سے خالی نہیں ۔ (۵)چھ کلمے (۶)علمِ صَرف ونَحو (۷) علمِ حدیث اور احادیث کی اَقسام(۸)دَرسِ نظامی(۹)شریعت وطریقت کے چار سلسلے (۱۰)زَبان سے نَمازکی نیَّت (۱۱)ہوائی جہاز کے ذَرِیعہ سفرِ حج (۱۲) جَدید سائنسی ہتھیاروں کے ذَرِیعے جہاد ۔ یہ سارے کام اُس مُبارَک دَور میں نہیں تھے لیکن اب ا نہیں کوئی گُناہ نہیں کہتاتوآخِراَذان واِقامت سے پہلے میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپردُرُود و سلام پڑھناہی کیوں بُری بدعت اورگُناہ ہوگیا ! یاد رکھئے ! کسی معاملے میں عدمِ جوازکی
دلیل نہ ہونا خوددلیلِ جواز ہے ۔ یقینا، یقینا، یقینا ہر وہ نئی چیزجس کوشَریعت نے مَنع نہیں کیا وہ بدعتِ حَسَنہ اور مُباح یعنی اچھّی بدعت اور جائزہے اوریہ امر مُسَلَّم ہے کہ اَذان سے پہلے دُرُود شریف پڑھنے کو کسی بھی حدیث میں مَنع نہیں کیا گیا لہٰذا مَنْع نہ ہونا خود بخود ’’اِجازت‘‘ بن گیا اور اچھّی اچھّی باتیں اسلام میں اِیجاد کرنے کی تو خود مدینے کے تاجوَر، نبیوں کے سرور، حُضُورِانور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تر غیب ارشادفرمائی ہے ۔ چُنانچہ
سُلطا نِ دوجہان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکایہ فرمانِ اجازت نشان موجودہے۔’’مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃًحَسَنَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ کُتِبَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَایَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئٌ ،یعنی جس شخص نے مسلمانوں میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا اور اسکے بعد اس طریقے پر عمل کیا گیا تو اس طریقے پر عمل کرنے والوں کا اَجر بھی اسکے ( یعنی جاری کرنے والے ) کے نامۂ اَعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اَجر میں کمی نہیں ہوگی ۔‘‘ (مسلم کتاب العلم ،باب من سن سنۃ حسنۃ اوسیئۃ…الخ، ص۱۴۳۷،حدیث:۲۶۷۳)
مَطْلب یہ کہ جو اسلام میں اچھّاطریقہ جاری کرے وہ بڑے ثواب کا حقدار ہے توبلاشُبہ جس خُوش نصیب نے اَذان واِقامت سے قبل دُرُود وسلام کا رَواج ڈالاہے وہ بھی ثوابِ جارِیّہ کامُسْتَحق ہے ، قِیامت تک جومسلمان اِس طریقے پر
عمل کرتے رہیں گے اُن کوبھی ثواب ملے گااورجاری کرنے والے کو بھی ملتا رہے گا اور دونوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (فیضانِ اذان،نماز کے احکام)
اے ہمارے پیارے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! ہمیں ہروَقت نبیِّ کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر کثرت سے دُرُودِپاک پڑھنے کی توفیق عطافرما اور حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی سُنَّتوں پر چلتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کی سعادت نصیب فرما۔