حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت پہلے سے اپنی وفات کا علم حاصل ہو گیا تھا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر لوگوں کو اس کی خبر بھی دے دی تھی۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے لوگوں کو یہ فرما کر رخصت فرمایا تھا:”شاید اس کے بعد میں تمہارے ساتھ حج نہ کر سکوں گا۔”(1)
اسی طرح ”غدیر خم” کے خطبہ میں اسی اندازسے کچھ اسی قسم کے الفاظ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے ادا ہوئے تھے اگرچہ ان دونوں خطبات میں لفظ لعل (شاید) فرماکر ذرا پردہ ڈالتے ہوئے اپنی وفات کی خبر دی مگر حجۃ الوداع سے واپس آ کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو خطبات ارشاد فرمائے اس میں لَعَلَّ(شاید)کا لفظ آپ نے نہیں فرمایا بلکہ صاف صاف اور یقین کے ساتھ اپنی وفات کی خبر سے لوگوں کو آگاہ فرما دیا۔
چنانچہ بخاری شریف میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لے گئے اور شہداء احد کی قبروں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے پھر پلٹ کر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ میں تمہارا پیش رو(تم سے پہلے وفات پانے والا) ہوں اور تمہارا گواہ ہوں اور میں خدا کی قسم! اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں۔(2)
(بخاری کتاب الحوض ج۲ ص۹۷۵)
اس حدیث میں اِنِّیْ فَرَطٌ لَّکُمْ فرمایا یعنی میں اب تم لوگوں سے پہلے ہی وفات پا کر جا رہا ہوں تا کہ وہاں جا کر تم لوگوں کے لئے حوض کوثر وغیرہ کا انتظام کروں۔
یہ قصہ مرض وفات شروع ہونے سے پہلے کا ہے لیکن اس قصہ کو بیان فرمانے کے وقت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اسکا یقینی علم حاصل ہو چکا تھا کہ میں کب اور کس وقت دنیا سے جانے والا ہوں اور مرض وفات شروع ہونے کے بعد تو اپنی صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو صاف صاف لفظوں میں بغیر ”شاید” کا لفظ فرماتے ہوئے اپنی وفات کی خبر دے دی۔ چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ
اپنے مرض وفات میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو بلایا اور چپکے چپکے ان سے کچھ فرمایا تو وہ روپڑیں۔ پھر بلایا اور چپکے چپکے کچھ فرمایا تو وہ ہنس پڑیں جب ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہ ن نے اس کے بارے میں حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آہستہ آہستہ مجھ سے یہ فرمایا کہ میں اسی بیماری میں وفات پا جاؤں گا تو میں رو پڑی۔ پھر چپکے چپکے مجھ سے فرمایا کہ میرے بعد میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے تم وفات پا کر میرے پیچھے آؤگی تو میں ہنس پڑی۔(1)
(بخاری باب مرض النبی ج۲ ص۶۳۸)
بہر حال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی وفات سے پہلے اپنی وفات کے وقت کا علم حاصل ہو چکا تھا کیوں نہ ہو کہ جب دوسرے لوگوں کی وفات کے اوقات سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اﷲعزوجل نے آگاہ فرما دیا تھا تو اگر خداوند علام الغیوب کے بتادینے سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی وفات کے وقت کا قبل از وقت علم ہو گیا تو اس میں کو نسا استبعاد ہے؟ اﷲ تعالیٰ نے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو علم ماکان و مایکون عطا فرمایا۔ یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے سب کا علم عطا فرما کر آپ کو دنیا سے اٹھایا۔