غرض ۱۰ رمضان ۸ ھ کو رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے دس ہزار کا لشکرِ پرانوار ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ فتح مکہ میں آپ کے ساتھ بارہ ہزار کا لشکر تھا ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مدینہ سے روانگی کے وقت دس ہزار کا لشکر رہا ہو۔ پھر راستہ میں بعض قبائل اس لشکر میں شامل ہوگئے ہوں تو مکہ پہنچ کر اس لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہوگئی ہو۔ بہرحال مدینہ سے چلتے وقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کباررضی اللہ تعالیٰ عنہم روزہ دار تھے جب آپ ”مقام کدید” میں پہنچے تو پانی مانگا اور اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے پورے لشکر کو دکھاکر آپ نے دن میں پانی نوش فرمایا اور سب کو روزہ چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ اور آپ کے اصحاب نے سفر اور جہاد میں ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنا موقوف کردیا۔(3) (بخاری ج۲ ص ۶۱۳ و زرقانی ج۲ ص۳۰۰و سیرت ابن ہشام ج۲ص۴۰۰)
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الفتح،الحدیث:۴۲۷۴، ج۳، ص۹۹
والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳،ص۳۷۸۔۳۹۱
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۳۹۵،۳۹۷