غزوۂ بدر

غزوۂ بدر 

ازاعلیٰ حضرت آقائے نعمت پیرسیدمقبول احمدشاہ قادر ی سہروردی علیہ الرحمہ


غزوہ بدر حق وباطل کاول اورفیصلہ کن معرکہ تھا۔خداکابرگزیدہ پیغمبرایک سایہ دارجگہ کے نیچے اپنی محدود جماعت کے ساتھ حق وصداقت کی حمایت میں سرگرم کارزارتھا۔
اوروہی پیرمرد جس نے اپنے وعظ وپند سے عثمان بن عفان، ابوعبیدہ بن الجراح اورعبدالرحمٰن بن عوف جیسے اولوالعزم واکابر صحابہ کوحلقہ بگوش اسلام بنالیاتھا۔نہایت جانبازی کے ساتھ تیغ بکف اپنے ہادی کی حفاظت میں مصروف تھا۔
کفارومشرکین ہرطرف سے نرغہ کرکے آتے رہے اوریہ ہر ایک کو اپنی خداداد شجاعت سے بھگادیتاتھا۔
رسول اللہ ﷺکفار ی کثرت دیکھ کر محزوں ہوتے اورسربسجدہ ہوکرخداسے دعافرماتے۔’’ اے اللہ مجھ کو بے یارومدد گار نہ چھوڑ، اوراپناعہد پورا کر، اے خدا کیا تو چاہتا ہے 
کہ آج سے تیری پرستش نہ ہو؟ اس عالم حزن ویاس میں حضورﷺکا قدیم مونس باوفا اور ہمدم غمگسار شمشیربرہنہ آپ کی حفاظت میں مصروف ہوتا اورتسلی ودلدہی کے کلمات اس کی زبان پرجاری ہوتے۔
 اس خوفناک جنگ میں بھی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ حضورﷺ کی خدمت گزاری سے غافل نہ ہوئے۔ ایک دفعہ ردائے مبارک شانۂ اقدس سے گرگئی۔ فوراً تڑپ کر آئے اوراٹھاکر شانہ پر رکھ دی۔پھر رجز پڑھتے ہوئے غنیم کی صف میں گھس گئے۔
یہی وہ وارفتگی جوش اورحب رسول ﷺ کاجذبہ تھا۔ جس نے قلت کوکثرت کے مقابلہ میں سربلند کیا۔
اس جنگ میں مال غنیمت کے علاوہ تقریباً ستر 70قیدی ہاتھ آئے۔ حضورﷺ نے ان لوگوں کے متعلق کبارصحابہ مشورہ کیا۔ حضرت عمر فاروق کی رائے تھی کہ سب قتل کردئے جائیں۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یہ سب اپنے ہی بھائی بند ہیں۔ اسلئے ان کے ساتھ رحم وتلطف کا برتاؤ کرنا چاہئے اورفدیہ لے کر ان کوآزاد کردینا چاہئے ۔رحمۃ للعالمین ﷺ کو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی رائے پسند آئی۔
Exit mobile version