*آسان رہیے مشکل مت بنیے*
الفاظ اور لہجے کا انسانی طبائع پر گہرا اثر پڑتا ہے، بسا اوقات الفاظ اور جملے وہی رہتے ہیں مگر ان کا اسلوب ادا، تبدیلی لہجہ مختلف النوع کیفیات کا آئینہ دار ہوا کرتا ہے
مثال کے طور پر *کیا بات ہے* کو اگر آپ ہلکے سے ادا کریں اور اس وقت آپ کی پیشانیوں پر نہ کوئی بل ہو نہ آواز میں بلندی تو سامنے والا اس سے یہ سمجھے گا کہ قائل ہم سے کوئی سوال کر رہا ہے مگر اسی جملے کو آپ پیشانی پر بل ڈال کر تیوریاں چڑھا کر آواز میں کرختگی پیدا کرکے بولیں تو مخاطب اس وقت سمجھے گا کہ قائل نہایت غصے میں ہے اور وہ اپنے اس جملے سے کوئی تنبیہ کرنا چاہتا ہے
لیکن آپ یہی جملہ اپنے چہرے پر بشاشت لاکر آواز میں ملائمت پیدا کرکے ہلکے سے ادا کریں تو سامنے والا بندہ سمجھے گا کہ کہنے آپ کسی بات کی تحسین کر رہے ہیں یا اسے شاباشی دے رہے ہیں
دیکھا آپ نے ایک ہی جملہ مختلف انداز و اسلوب میں مختلف معانی کا حامل ہوگیا تو بعینہ ایسے ہی آپ کے الفاظ اور ان کی طرز ادا آپ کی شخصیت سازی کرتے ہیں اور آپ کے درجات کا تعین کرتے ہیں سسامنے والا آپ کے لفظوں سے ہی آپ کا خاکہ ترتیب دیتا ہے
اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس میں جیسا چاہے رنگ بھریں
لہذا آج ہی اپنا لہجہ بدلیے اور ایسا طرز اختیار کیجیے جس سے آپ کی شبیہ اچھی بنے نہ کہ ایک جابر و متکبر کی
اختلاف بھی کیجیے تو شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیجیے نہ الفاظ و انداز میں رعونت پیدا کیجیے
مارئیے مگر پھولوں کی چھڑی سے تاکہ مار بھی پڑ جائے اور مار کھانے والے کا جسم بھی خوشبودار ہوجائے
*اختر نور*