حکایت نمبر478: بے وفا دنیا پہ مت کر اعتبار
حضرتِ سیِّدُناابوبَکْرہُذَلِی علیہ رحمۃ اللہ الولی کا بیان ہے: ” ایک مرتبہ ہم حضرتِ سیِّدُنا حسن بَصَری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس حاضر تھے اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا: اے ابو سعید علیہ رحمۃ اللہ المجید ! ابھی کچھ دیر قبل ہم عبد اللہ بن اَہْتَم کے پاس گئے، اس کا آخری وقت تھا۔ ہم نے پوچھا:”اے اَبُومَعْمَر ! اپنے آپ کو کیسا محسوس کر رہے ہو؟”کہا :”بخدا میں اپنے آپ کو بہت مصیبت زدہ محسوس کر رہا ہوں اور میرا گمان ہے کہ شاید! اب زندہ نہ بچ سکوں، اچھا! یہ بتاؤ کہ ان ایک لاکھ دراہم کے بارے میں تم کیا کہتے ہو جو میں نے جمع کر رکھے ہیں؟نہ تو ان کی زکوۃ ادا کی گئی اور نہ ہی کسی قریبی رشتہ دار پر خرچ کئے گئے ۔”ہم نے کہا: ”اے ابو مَعْمَر! تم نے یہ درہم کیوں جمع کئے تھے؟” کہا:”گردشِ ایام ، اہل وعیال کی کثرت اور بادشاہ کی طرف سے جفا کشی کے خوف سے جمع کر رکھے تھے۔” اس شخص کی یہ بات سن کر حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا:”اس غمزدہ پریشان شخص کو دیکھو جس کے پاس سے یہ آرہا ہے۔ دراصل اس مرنے والے کے پاس شیطان آیا اور اسے بادشاہ کی طرف سے جفاکشی، اہل وعیال کی کثرت اور گردشِ ایام کا خوف دلایا اور خوف بھی اس چیز کے بارے میں کہ جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے لئے مقرر فرمادی ہے اور اس دنیا میں اُس کی مدتِ حیات بھی مقرر فرمادی ہے۔ بخدا! وہ شخص اس دنیاسے اس حال میں جائے گا کہ غمگین ،مصیبت زدہ، ملامت کیا ہوا اور پریشان حال ہوگا ۔
توجہ سے سن! تو ا س دنیا سے ہر گز دھوکا نہ کھانا جس طرح کہ تیرا مرنے والا دوست دھوکا کھا چکا۔ تیرے پاس حلال مال پہنچاہے ،مال کے فتنے سے بچتے رہنا ایسا نہ ہو کہ یہ تیرے لئے وبالِ جان بن جائے۔ یا د رکھ! جو شخص مال جمع کرنے میں لگا رہے اور کنجوسی سے کام لے، دن رات مال جمع کرنے کی تدبیر میں مصیبت بھرے سفراورہر طرح کا دکھ برداشت کرے پھر مال کو سنبھال کر گِن گِن کر رکھے، نہ اس کی زکوٰۃ ادا کرے، نہ کسی رشتہ دار پر خرچ کرے تو وہ شخص حسرت زدوں میں ہوگا۔ اور سب سے بڑی حسرت یہ ہے کہ کل بروزِ قیامت جب اعمال کا وزن کیا جارہا ہو تو وہ اپنے مال کو دوسرے کے ترازو میں دیکھے۔ کیا تم جانتے ہو کہ ایسا معاملہ کب ہوتا ہے؟ سنو! یہ سب وبال اس طرح ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ ربُّ العزَّت جَلَّ جَلَالُہٗ نے اپنے خزانوں میں سے مال دیتا اور اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن انسان کنجوسی و بخل سے کام لیتا اور مال جمع کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے موت اُچک لیتی ہے اور اس کا سارا مال وارث لے جاتے ہيں ،اس طرح وہ اپنے مال کو غیر کے ترازو میں دیکھتا ہے یا اسے ایسی ٹھو کرلگتی ہے کہ سنبھلنابہت مشکل ہو جاتا ہے اور توبہ کی دولت بھی اس کے ہاتھ سے جاتی رہتی ہے اور وہ حسرت زدہ توبہ جیسی دولت سے بھی محروم رہتا ہے۔”
( ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عافیت طلب کرتے ہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں مال کے وبال سے بچائے ۔نیکی کے کاموں میں دل کھو ل کر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بخل جیسی خطرناک بیماری سے ہم سب کی حفاظت فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)