حکایت نمبر272: بیٹے کا قا تل آزا د کرد یا
حضرتِ سیِّدُنا ابو عَمْرو بن عَلَاء اور حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان بن عَلَاء رحمہما اللہ تعالیٰ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا اَحْنَف بن قَیْس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا گیا:” آپ نے حِلم وبرد باری کہاں سے سیکھی ”؟ فرمایا :” حضرتِ سیِّدُنا قَیْس بن عاصم مِنْقَری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے۔ وہ حلم وبر دباری میں یگا نۂ روز گا ر تھے ۔”ہم حلم و برد باری کے حصول کی خاطر ان کی بارگاہ میں اس طرح حاضر رہتے جیسا کہ ایک فقہ کا طالب کسی فقیہ کے پاس حاضر رہتا ہے۔ایک مرتبہ ہم حضرتِ سیِّدُنا قَیْس بن عاصم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، وہ اپنی چادر سے اِحْتِبَاء کئے (یعنی گھٹنے کھڑے کر کے چادر سے باندھ کر سرین پر ) بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک کچھ لوگ آئے، انہوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا:” حضور! آ پ کے بیٹے کو آپ کے چچا زاد بھائی نے قتل کردیا ہے ، یہ دیکھیں آپ کے بیٹے کی لاش اور یہ آپ کا چچا زاد بھائی ہے ،ہم اسے رسیوں سے باندھ کر آپ کے پاس لے آئے ہیں۔”
راوی قسم کھاکرکہتے ہیں کہ”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ غم ناک خبر سن کربالکل چیخ وپکار نہ کی بلکہ لوگو ں کی پوری بات توجہ سے سنی پھر گھٹنوں پربندھی ہوئی چادر کھولی اور مسجد کی طرف چل دیئے۔وہاں پہنچ کر اپنے بڑے بیٹے سے کہا :” جاؤ،میرے چچا زاد بھائی کو آزاد کردو اور اپنے بھائی کی تجہیز وتکفین کرو۔ اور میرے چچا زاد بھائی کی والدہ کے لئے سو اونٹ ہدیۃًلے جاؤ، وہ بیچاری انتہائی غریب وتنگ دست ہے۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے درج ذیل اشعار پڑھے:
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔میں ایسا مرد ہوں کہ جس کی خاندانی شرافت کو کسی بھی گندگی وعیب نے داغ دا ر نہیں کیا۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ میں منقر قبیلے کے انتہائی معزَّز گھرانے کا معزز فرد ہوں اور ٹہنیوں کے گرد ٹہنیاں ہی نکلتی ہیں۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ اور میں ان فصحاء میں سے ہوں کہ جب ان میں سے کوئی کلام کرتا ہے تو بہترین چہرے والا اور فصیح زبان والا ہوتا ہے۔
(۴)۔۔۔۔۔۔وہ پڑوسیوں کے عیبوں کو نظر انداز کردیتے ہیں اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا جانتے ہیں۔
جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا تو کسی شاعر نے آپ کی شان میں یہ اشعار کہے:
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔ اے قیس بن عاصم! تجھ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے سلامتی ہو اور اس کی رحمت ہو جب تک وہ رحم کرنا چاہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔مبارک ہو اُسے جس نے غضب وناراضی اورشدید غصہ دِلانے والا کام کیا لیکن پھر بھی تجھ سے نعمتیں پائیں اور امن وسکون میں رہا۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ قیس کی وفات صرف اس اکیلے کی وفات نہیں بلکہ وہ تو پوری قوم کی عمارت تھا جواس کی وفات سے منہدم ہو گئی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! کیا حلم ہے میرے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے غلاموں کا کہ اپنے بیٹے کے قاتل کو نہ صرف معاف کیا بلکہ اس کی والدہ کو سوا ونٹ تحفۃً بھجوائے حالانکہ انہیں اختیار تھا کہ اپنے بیٹے کے قتل کے بدلے قاتل
سے قصاص لیتے(یعنی قتل کے بدلے قتل کرتے) یا پھر دیت (یعنی سو اونٹوں) پر صلح کرلیتے لیکن یہ دونوں کام نہ کئے بلکہ سو اونٹ ان کے گھر والوں کے لئے بھجوائے۔ یہ بزرگ واقعی حلم وبر دباری کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔یہ بزرگ اس کریم آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے غلام ہیں جو دشمنوں کے لئے بھی چادر بچھا دیتے ، ظلم کرنے والوں کو دعائیں دیتے ، جن کی طرف سے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر مصائب کے پہاڑ ٹو ٹے انہیں پیار ومحبت سے نوازا ، جس نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے قطع تعلق کیا آپ نے ان سے تعلق جوڑا ۔جنہوں نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے کچھ چھینا انہیں بہت کچھ عطا فرمایا۔
(الغرض سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب سینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سراپا حلم تھے اسی لئے ان کے غلاموں نے بھی حلم اپنا کر ایسی مثالیں قائم کیں جن کی نظیر بہت کم ملتی ہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ان بزرگ ہستیوں کے صدقے ہمیں بھی اُس پیارے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی پیاری پیاری سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی تو فیق عطا فرمائے، جن کے خُلق کو خود خالقِ کائنات نے عظیم کہااورجن کی خِلْق کوخالقِ حقیقی نے جمیل کیا اور ہمیں بھی اخلاقِ صالحہ اور حلم وبُر دباری کی تو فیق عطا فرمائے ۔
( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)