حکایت نمبر227: باحیا نوجوان

حکایت نمبر227: باحیا نوجوان

حضرتِ سیِّدُنا احمد بن سعید علیہ رحمۃ اللہ المجید اپنے والد ِ محترم سے نقل کرتے ہیں: ”کوفہ میں ایک عبادت گزار،خوبصورت ونیک سیرت نوجوان رہتا تھا ۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت مسجد میں گزارتااورہر وقت یادِالٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہتا ۔ ایک مرتبہ ایک حسین وجمیل اورعقل مند عورت نے اسے دیکھ لیا۔ دیکھتے ہی اس پر عاشق ہوگئی اوراسی کے خیال میں گم رہنے لگی۔ بالآخرجب اس کی محبت شدت اختیار کرگئی تو وہ راستے میں کھڑی ہوگئی۔ کچھ دیر بعد وہ عبادت گزار نوجوان مسجد کی طرف جاتا دکھائی دیا۔ وہ اس کی طرف لپکی اورکہا : ” اے نوجوان!میں تجھ سے ایک بات کرنا چاہتی ہوں، میری بات سن لو، پھر جو چاہے کرنا ۔”اس شرم وحیا کے پیکر نوجوان نے جب ایک غیر محرم اجنبیہ عورت کی آواز سنی تو اس طرف بالکل متوجہ نہ ہوا اور نگاہیں جھکائے تیزی سے مسجد کی طرف بڑھ گیا۔”
جب مسجد سے گھر کی طرف آنے لگا تو وہی عور ت ملی اور کہنے لگی: ”اے نوجوان ! میری بات سن! میں تجھ سے کچھ کہناچاہتی ہوں ۔”نوجوان نے نگاہیں جھکائے جواب دیا:”یہ تہمت کی جگہ ہے، میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھ پر تہمت لگانے میں

مبتلا ہوں ۔” عورت نے کہا:”وَاللہ عَزَّوَجَلَّ!میں تیری حالت سے اچھی طرح خبردار ہوں ،لیکن میں اپنے نفس کے ہاتھوں مجبو ر ہو کریہاں آئی ہوں، میں خوب جانتی ہوں کہ اتنا معمولی سا تعلق بھی لوگوں کے نزدیک بہت بڑا ہے ، تجھ جیسے نیک خصلت اور پاکیزہ لوگ آئینہ کی مثل ہوتے ہیں کہ ادنی سی غلطی بھی ان کو عیب دار بنادیتی ہے ۔لیکن کیا کروں میں اس معاملے میں بے بس ہوں، میرے دل کا حال یہ ہے کہ ہروقت تیری یاد میں تڑپتا ہے اورمیرے جسم کے تمام اعضاء تیری ہی طرف متوجہ ہیں۔” نوجوان اس کی یہ گفتگو سن کر کچھ کہے بغیر اپنے گھر کی جانب چلا گیا۔ گھر جاکر اس نے نماز پڑھناچاہی لیکن اسے خشوع وخضوع حاصل نہ ہوسکا ۔ بالآخر اس نے ایک خط لکھا اور باہر آیاتو دیکھا کہ وہ عورت اسی جگہ کھڑی ہے ۔ نوجوان نے جلدی سے خط اس کی طرف پھینکا اور واپس چلا گیا۔عورت نے خط اٹھایا اور بے تاب ہوکر پڑھنے لگی تو اس میں لکھا تھا:

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم،

”اے عورت !یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلے کہ بندہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرتاہے تو وہ اس سے درگزر فرماتاہے۔ جب دوبارہ گناہ کرتاہے تو اس کی پردہ پوشی فرماتاہے لیکن جب بندہ اتنا نافرمان ہوجاتاہے کہ گناہوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے سخت ناراض ہوتاہے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی کو زمین وآسمان ،پہاڑ،جانور،شجر وحجر کوئی بھی چیز برداشت نہیں کرسکتی پھر کس میں ہمت ہے کہ وہ اس کی ناراضگی کا سامنا کرے۔اے عورت !اگر تو اپنے بیان میں جھوٹی ہے تو میں تجھے وہ دن یاد دلاتاہوں کہ جس دن آسمان پگھل جائے گااورپہاڑ روئی کی طرح ہوجائیں گے ، اورتمام مخلوق اللہ جبَّار و قہّار کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں تو اپنی اصلاح میں کمزور ہوں پھر بھلا میں دوسروں کی اصلا ح کیسے کرسکتاہوں ؟اوراگر تو اپنی باتوں میں سچی ہے اورواقع تیری کیفیت وہی ہے جو تو نے بیان کی، تو میں تجھے ایک ایسے طبیب کا پتہ بتاتاہوں جواُن دلوں کا بہترین علاج جانتاہے جو مرضِ عشق کی وجہ سے زخمی ہوگئے ہوں اوران زخموں کا علاج کرنا بھی خوب جانتاہے جو رنج واَلم کی بیماری میں مبتلا کردیتے ہیں۔ جان لے! وہ طبیب ِحقیقی ،اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے، تو سچی طلب کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہو جا۔ بے شک میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس فرمانِ عالیشان کی وجہ سے تجھ سے تعلق نہیں رکھ سکتا:

وَ اَنۡذِرْہُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَۃِ اِذِ الْقُلُوۡبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ کَاظِمِیۡنَ ۬ؕ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنْ حَمِیۡمٍ وَّ لَا شَفِیۡعٍ یُّطَاعُ ﴿ؕ18﴾یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوۡرُ ﴿19﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اور انہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے جب دل گلوں کے پاس آجائیں گے غم میں بھرے اور ظالموں کانہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کاکہامانا جائے اللہ جانتاہے چوری چھپے کی نگاہ اورجوکچھ سینوں میں چھپاہے۔(پ24،المؤمن:18۔19)

رکھو۔ جہاں تم دیکھو کہ خرچ کرنا مناسب ہے بلا جھجک خرچ کرنا اورجو تمہیں مستحق نظر آئے اسے دے دینا ۔ ” چنانچہ، میں نے تجارت شروع کردی۔جتنا نفع ہوتا میں اس میں سے نصف اسے بھجوا دیتا اوروہ اتنا ہی مال مزید اس میں شامل کر کے واپس میری طرف بھیج دیتا ۔ اسی طرح کئی سال گزرگئے۔ معاہدے کا آخری سال آیا تو وہ تاجر میرے پاس آیا اورکہا :”میں اکثر سمندری سفر میں رہتاہوں ۔ بے شک مجھے بھی موت آنی ہے جو وقت اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مقرر کیا ہے وہ ضرور مجھ پر بھی آئے گا۔یہ سارا مال تم رکھ لو، اس میں سے صدقہ کرو،مساجد بناؤ اورخیر کے کاموں میں خرچ کرو۔” اتنا کہا اوربے انتہا مال چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ بس اس طرح میرے پاس یہ سارا مال آیااورمیں اسے ایسے ہی نیک کاموں میں خرچ کرتاہوں ۔سارا واقعہ سنانے کے بعد حضرتِ سیِّدُنا دَعْلَج بن احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” اے ابو موسیٰ !جب تک میں زندہ رہوں تب تک یہ بات کسی کو نہ بتانا۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)

اے عورت!جب یہ معاملہ ہے تو خود سوچ لے کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے اورراہِ فرار کیوں کر ممکن ہے؟عورت نے خط پڑھ کر اپنے پاس رکھ لیا۔ کچھ دنوں بعد پھر اسی راستے پر کھڑی ہوگئی ۔ جب نوجوان کی نظر اس پر پڑی تو وہ واپس اپنے گھر کی طرف جانے لگا۔ عورت نے پکار کر کہا:” اے نوجوان!واپس نہ جا، اس ملاقات کے بعد پھر کبھی ہماری ملاقات نہ ہوگی، سوائے اس کے کہ بروزِ قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ہماری ملاقات ہو۔اتنا کہہ کر وہ زور زور سے رونے لگی ۔اور روتے ہوئے کہنے لگی: ”جس پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ کے دستِ قدرت میں تیرے دل کے اختیارات ہیں، میں اسی سے سوال کرتی ہوں کہ تیرے بارے میں مجھ پر جو معاملہ مشکل ہوگیا ہے وہ اسے آسان فرمادے۔”پھر وہ عورت نوجوان کے قریب آئی اوربولی:” مجھ پر احسان کر اور کوئی ایسی نصیحت کر جس پر عمل کرسکوں۔ باحیا نوجوان نے سرجھکائے نگاہیں نیچی کئے جواب دیا: خود کو اپنے نفس سے باز رکھ، نفس کی خواہشات سے بچ ۔ میں تجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا یہ فرمان یاد دلاتاہوں:

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ بِالَّیۡلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمۡ بِالنَّہَارِ

ترجمۂ کنزالایمان:اوروہی ہے جورات کوتمہاری روحیں قبض کرتاہے اورجانتاہے جو کچھ دن میں کماؤ۔ (پ7،الانعام:60)

یہ آیتِ کریمہ سن کر عورت نے اپنا سر جھکا لیا اورپہلے سے بھی زیادہ زور زورسے رونے لگی۔ جب کچھ افاقہ ہوا تو دیکھا کہ نوجوان جاچکا تھا۔ وہ اپنے گھر چلی آئی اور پھر عبادت وریاضت کو اپنا مشغلہ بنالیا۔اورہروقت یادِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہنے لگی۔جب بھی نوجوان کی یاد آتی اس کاخط منگوا کر آنکھوں سے لگا لیتی ۔ ایک مرتبہ کسی نے پوچھا :” تجھے اس طرح کرنے سے کیا ملتاہے ؟” کہا:” کیا کروں ،کیا میرے لئے اس کے علاوہ بھی کوئی علاج ہے ؟”وہ دن بھر یادِ الٰہی عَزَّوَجَلّ میں مصروف رہتی۔ جب رات ہوجاتی تو نوافل میں مشغول ہوجاتی اوربالآخر اسی طرح عبادت وریاضت کرتے کرتے اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئی ۔”
یہ بھی منقول ہے کہ وہ عورت ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہوگئی جس کی وجہ سے اس کے جسم سے متاثرہ حصہ کاٹ دیا جاتا۔ ورنہ وہ بیماری پورے جسم میں پھیل جاتی ۔ طبیب اس کے جسم سے گوشت کاٹتے تو عورت کو بہت تکلیف ہوتی اوروہ انہیں روک دیتی لیکن جب اس کے سامنے نوجوان کا ذکر کیا جاتا تو اسے تکلیف محسوس نہ ہوتی اورطبیب آرام سے اس کا گوشت کاٹ لیتے ۔بالآخر اسی بیماری میں اس کی موت واقع ہوگئی۔

Exit mobile version