بابرکت اجتماع کے صد قے مغفرت

حکایت نمبر:347 بابرکت اجتماع کے صد قے مغفرت

حضرت سیِّدُنا رَجَاء بِنْ مَیْسُوْر مُجَاشِعِی علیہ رحمۃ اللہ الولی سے منقول ہے: ایک دن ہم حضرت سیِّدُنا صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی محفل میں موجود تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وعظ و نصیحت سے ہمارے دِلوں کو منور فرما ر ہے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے
ایک نوجوان سے فرمایا:” اے بندۂ خدا! قرآنِ پاک کی کچھ آیات تلاوت کرو ۔ نوجوان نے پڑھنا شر وع کیا :

وَ اَنۡذِرْہُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَۃِ اِذِ الْقُلُوۡبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ کٰظِمِیۡنَ ۬ؕ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنْ حَمِیۡمٍ وَّ لَا شَفِیۡعٍ یُّطَاعُ ﴿ؕ18﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اور انہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے جب دل گلوں کے پاس آجائیں گے غم میں بھرے اور ظالموں کانہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کاکہامانا جائے۔(پ24،المؤمن:18)
جیسے ہی نوجوان نے یہ آیت مکمل کی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” بھلا ظالم کا شفیع ودوست کو ن ہوگا ، کیسے کوئی اس کی شفاعت کریگا جبکہ خود ربُّ الْعٰلَمِین اسے سزا دینا چاہے ۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! بروزِ قیامت ظالموں اور گناہ گاروں کا بہت براحال ہوگا ۔ تُو دیکھے گا کہ انہیں بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف کھینچاجائے گا ، وہ ننگے پاؤں ، ننگے بد ن ہونگے ، ان کے چہرے کا لے سیاہ اور آنکھیں نیلی ہوجائیں گی ، وہ پکارتے ہوں گے:” ہائے ہماری بربادی! ہائے ہماری مصیبت! نہ جانے ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ ہمیں کہا ں لے جایاجارہا ہے؟ ہائے بربادی! ہائے ہلاکت !” فرشتے انہیں آگ کے گُرزوں سے مارتے ہوئے ہانکیں گے ، ان کے آنسو ان کے چہروں پر بہیں گے اور اتنے بہیں گے کہ ختم ہوجائیں گے۔ پھر وہ خون کے آنسو روئیں گے اور ان کی حالت اُن خوفزدہ پر ندوں کی طر ح ہوگی جنہیں بہت بڑے خوف نے دہشت میں مبتلا کردیا ہو۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اگر تو ان کی اس حالت کو دیکھ لے تو اس ہولناک منظر سے تیری آنکھیں سلامت نہ رہیں تیرا دل پھٹ جائے ، اس منظر کی ہولناکی سے تیرے قدم ایسے لرزیں گے کہ انہیں قرار نہ آئے گا۔”اتنا کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے پھر ایک زور دار چیخ ماری اور کہا:” ہائے! کتنا برا ہے وہ منظر ہائے !کتنا برا ہے ان کا ٹھکانا!”پھر روتے روتے آپ کی ہچکیاں بندھ گئیں اور وہاں موجود تمام لوگ بھی زاروقطار رو نے لگے ۔”
پھر ایک نوجوان کھڑا ہوا اور کہا :” اے صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی! کیا یہ تمام معاملات قیامت کے دن ہوں گے؟” فرمایا:”ہاں، میرے بھتیجے !واقعی یہ تمام واقعات بر وزِ قیامت ہوں گے بلکہ وہاں کے حالات کی جو خبر مجھے پہنچی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو میں نے بیان کی۔ مجھے خبر پہنچی ہے کہ جہنمی نارِ جہنم میں چیختے رہیں گے یہاں تک کہ ان کی آواز ختم ہوجائے گی پھر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جو اس مریض کی طر ح آہیں اور سسکیاں نہ بھرے جسے بر سوں سے شدید بیماری لاحق ہو ۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبانی جہنم کی ہولناک کہانی سن کر وہ نوجوان اس طر ح گڑ گڑ انے لگا:” ہائے افسوس ! ہائے میری غفلت! میں نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات ضائع کردیئے۔ اے میرے مالک! میں تیری اطاعت سے غافل رہا مجھے ان کوتاہیوں پر افسوس ہے۔ ہائے !میں نے اپنی زندگی غفلت میں گزار دی۔” پھر اس نے اپنا منہ جانب ِ قبلہ کیااور روتے ہوئے بارگاہِ خدا وندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طر ح مناجات کرنے لگا :

”اے میرے پاک پروردْگار عَزَّوَجَلَّ ! آج کے دن میں تیری بارگاہ میں سچی تو بہ کرتاہوں، میری یہ تو بہ اخلاص پر مبنی ہے، میں تیرے علاوہ کسی اور کی طرف متوجہ نہیں۔ اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! مجھ سے آج تک جو عبادت ہوسکی اسے قبول فرمالے ، میری سابقہ خطاؤں کو معاف فرمادے، مجھ سے گناہوں کی گندگی دور فرمادے۔ میرے رحیم وکریم پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! مجھ پر رحم فرما۔ میرے مالک ومولیٰ عَزَّوَجَلّ! اب میں تیری فرمانبرداری اور اطاعت کا پَٹا اپنی گردن میں ڈالتا ہوں ، میرے جسم کا رُواں رُواں تیری بارگاہ میں معافی کا طلب گار ہے۔ میرے مالک عَزَّوَجَلَّ ! اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو میں بر باد ہوجاؤں گا۔” اتنا کہہ کر وہ نوجوان منہ کے بل زمین پر گر پڑا ، لوگوں نے اسے اٹھایا تو بے ہوش ہوچکاتھا ، پھر وہ ایسا بیمار ہو اکہ سنبھل نہ سکا۔ حضرت سیِّدُنا صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی اور آپ کے دیگر رفقاء اس نوجوان کی عیادت کو جاتے رہے۔ بالآ خر وہ نوجوان اس دنیائے فانی سے رخصت ہوکر دارِ بقا کی طرف کُوچ کر گیا۔ اس کے جنازہ میں کثیر لوگوں نے شرکت کی ۔حضرتِ سیِّدُنا صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی اکثر اپنی محفل میں اس کا ذکرکیا کرتے اور فرماتے: ”قرآن کی آیات اور فکر ِ آخرت سے معمور بیان سن کر وہ نوجوان موت کی آغوش میں پہنچ گیا ۔”
مرنے کے کچھ دن بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھ کر پوچھا:” تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟” کہا :” حضرتِ سیِّدُنا صالح مُرِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے بابرکت اجتماع کے صدقے میری مغفرت ہوگئی اور میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُس رحمت کے سائے میں پہنچ گیا جوہر چیز کو گھیر ے ہوئے ہے ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
؎ رحمت دا دریا الٰہی ہر دم وَگْدا تیرا جے اک قطرہ بخشیں مینوں کم بن جاوے میرا
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! نیکوں کی صحبت دنیا وآخرت میں کامیاب وکامران کر دیتی ہے۔ جہاں نیکوں کا تذکرہ ہو وہاں رحمت کی چھما چھم بارش ہوتی ہے ۔ تو جہاں نیک لوگ خود جلوہ افروز ہوں وہاں رحمتِ خداوندی کا کیا عالَم ہو گا۔الحمدللہ عَزَّوَجَلَّ! قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں ہزاروں مسلمان شرکت کرتے ہیں اور جہاں 40) ( مسلمان جمع ہوں وہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ایک ولی ضرورہوتا ہے۔ اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کے فیض سے مستفیض ہونے کے لئے اپنے اپنے شہروں میں ہونے والے دعوت اسلامی کے ہفتہ وارسنتو ں بھرے اجتماع میں پابندیئ وقت کے ساتھ شرکت فرما کر خوب خوب سنتوں کی بہاریں لُوٹئے۔)

Exit mobile version