حکایت نمبر490: بااختیار درزی اور ظالم افسر
قاضی ابو الحسین محمد بن عبدالواحد ہاشمی علیہ رحمۃ اللہ القوی بیان کرتے ہیں کہ ”خلیفہ مُعْتَضِد باللہ کے دورِ خلافت میں ایک تاجرکا کسی سرکاری عہد یدار پر بہت سا مال قرض تھا۔ جب بھی مطالبہ کیا جاتا وہ حیلے بہانے کرکے تاجر کو واپس کردیتا۔ اس تاجر کا بیان ہے: ” جب میں نے دیکھا کہ میرا مال کسی طریقے سے نہیں مل رہا تو میں نے اہلِ ثروت اور اعلیٰ عہدیداروں سے بات کی، حتی کہ وزیر سے بھی سفارش کروائی، لیکن مجھے میرا مال نہ مل سکا۔ اب صرف خلیفہ تک شکایت پہنچانا باقی تھی، لیکن یہ آسان کام نہ تھا۔ ایک دن مجھے میرے ایک دوست نے کہا:” آؤ! میرے ساتھ چلو،میں تمہیں ایک ایسے شخص کے پاس لے چلتاہوں
جوتمہارامال واپس دلوادے گااورتمہیں خلیفہ کے پاس شکایت کرنے کی حاجت نہ ہوگی ۔ میں اس کے ساتھ چل دیا۔ وہ مجھے ایک درزی کے پاس لے گیا جو قریبی مسجد میں امام بھی تھے۔ میرے دوست نے میراحال بیان کیااورآنے کامقصدبتایاتوامام صاحب فوراًساتھ ہولئے،ہم اس افسرکے گھرکی طرف چل دیئے۔میں نے اپنے دوست سے کہا:”تم نے مجھے،اپنے آپ کو اوراس غریب درزی کومصیبت میں ڈال دیاہے۔ وہ ظالم افسر تو بڑے بڑے لوگوں کی باتوں پر کان نہیں دھرتا ،وزیر جیسے بااثر شخص کی سفارش اس کے سامنے کچھ کام نہ کر سکی ،پھر بھلا اس غریب درزی کی بات کو وہ کیا اہمیت دے گا ۔ میری بات سن کر میرے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا :”تم خاموشی سے دیکھتے رہو ہوتا کیا ہے؟ ” میں خاموش ہوکر چلتا رہا، جیسے ہی ہم اس ظالم افسر کے گھر کے قریب پہنچے ،اس کے غلاموں نے بڑے باادب طریقے سے آگے بڑھ کر درزی کا ہاتھ چومتے ہوئے پوچھا:” عالی جاہ! آپ کی تشریف آوری کا کیا مقصد ہے؟ ہمارا مالک ابھی ابھی سفر سے آیا ہے اگر آپ حکم دیں توہم فوراً اسے بلا لاتے ہیں اور اگر آپ چاہیں تو اندر تشریف لے چلیں اور خدمت کا موقع دیں، ہمارا مالک کچھ ہی دیر میں آجائے گا۔”درزی نے کہا:”چلو ہم اندر چل کر بیٹھ جاتے ہیں۔”
ہم ایک خوبصورت کمرے میں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعدوہ افسر آیا اور درزی کو دیکھتے ہی بہت تعظیم وتوقیر کرتے ہوئے بڑے خوشامدانہ لہجے میں بولا:” حضور! ابھی ابھی سفر سے واپسی ہوئی ہے میں اس وقت تک سفر کے کپڑے تبدیل نہیں کروں گا جب تک آپ کے آنے کا مقصدپورانہ کردوں،حکم فرمائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟” اما م صاحب نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:” فوراََاس کا مال اسے دے دو۔” افسر نے کہا :”عالیجاہ !اس وقت میرے پاس صرف پانچ ہزار(5000)درہم ہیں، آپ اس سے کہیں کہ فی الحال یہی رقم قبول کر لے اور بقیہ رقم کے بدلے میرا سامانِ تجارت رہن (گر و ی ) رکھ لے، میں ایک مہینے کے اندر اندر اس کی رقم واپس کردوں گا۔” درز ی (امام صاحب )نے میری طرف دیکھا تو میں نے فوراً یہ شرط قبول کر لی۔ افسر نے پانچ ہزار (5000)درہم اور سامانِ تجارت میرے حوالے کیا ،میں نے امام صاحب اور اپنے دوست کو گواہ بنایا کہ” اگر ایک ماہ کے اندر اندر اس نے میری رقم واپس نہ کی تو میں اپنی رقم کی مقدار کے مطابق اس کا سامانِ تجارت بیچنے کااختیا رکھتا ہوں۔” پھر دستاویز پر دستخط ہوئے اور ہم واپس آگئے ۔میں اپنا حق ملنے پر بہت خوش تھا اور حیران بھی تھا کہ نہ جانے اس امام صاحب میں ایسی کون سی طاقت ہے جس کی وجہ سے ظالم افسراتنامہربان ہوگیا اور اس کی اتنی تعظیم وتوقیر کی۔ بہرحال ہم واپس درزی کی دکان پر آئے، تو میں نے سارا مال درزی کے سامنے رکھتے ہوئے کہا:”اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کی بَرَکت سے مجھے میرا مال واپس دلوا دیاہے، میں اپنی خوشی سے کچھ مال آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں، آپ اس رقم میں سے تہائی مال یا نصف مال قبول فرمالیں۔”
امام صاحب نے کہا :”کیاتم ایک اچھے کام کا بدلہ بُری چیز سے دیناچاہتے ہو؟ مَیں اس میں سے کچھ بھی نہیں لوں گا۔
جاؤ! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں بَرَکت دے ۔”میں نے کہا:” عالی جاہ !مجھے آپ سے ایک اور کام بھی ہے۔” کہا:”بتاؤ۔”میں نے کہا: ”اس ظالم افسر کے سامنے بڑے بڑے لوگ بے بس ہوگئے ،لیکن آپ کی بات اس نے فوراً مان لی،آخر وہ آپ کی اتنی تعظیم کیوں کرتا ہے ؟”امام صاحب نے کہا :”تمہارا مال تمہیں مل چکا ہے۔ جاؤ!اب اپنا کام کرو اور مجھے بھی کام کرنے دو ۔”میں نے جب بہت اصرار کیا تو امام صاحب نے اپنا واقعہ کچھ یوں بیان کیا:
”ہمارے گھر کے راستے میں ایک ترکی افسر کاگھر ہے۔ ایک مرتبہ جب میں اپنے گھرجارہاتھا تودیکھا کہ نشے میں بدمست ترکی افسر ایک عورت کوپکڑکر اپنے گھر کی جانب کھینچ رہاتھا،وہ بے چاری مدد کے لئے پکارتی رہی، لیکن کوئی بھی اس کی مدد کو نہ آیا۔ وہ رورو کر کہہ رہی تھی:اے لوگو!مجھے اس ظالم سے بچاؤ !میرے شوہر نے قسم کھائی ہے کہ اگر میں نے اُس کے گھر کے علاوہ کسی اور کے ہاں رات گزاری تو وہ مجھے طلاق دے دے گا۔ اگر یہ ظالم مجھے اپنے گھر لے گیا تو میرا گھر برباد ہوجائے گا اور میں رسواہوجاؤں گی، خداکے لئے مجھے اس ظالم سے نجات دلاؤ ۔وہ مظلومہ اسی طرح فریاد کرتی رہی، لیکن کوئی بھی اس کی مدد کو تیار نہ ہوا۔ میں جذبۂ ایمانی کی بدولت اس ظالم کی طرف بڑھا اور عورت کو چھوڑنے کے لئے کہا، اس نے ایک لوہے کا ڈنڈا میرے سر میں مارا اور خوب طمانچے مارے پھراس عورت کو زبردستی اپنے گھر لے گیا۔
میں زخمی حالت میں غمگین وپریشان اپنے گھر آیا زخم سے خون دھوکر پٹی باندھی اور کچھ دیر بستر پر لیٹ گیا۔ پھر عشاء کی نماز پڑھنے مسجد گیا اور نماز کے بعد تمام نمازیوں کو اس ظالم ترکی افسر کی حرکت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا:” تم سب میرے ساتھ چلو! یاتو وہ عورت کو چھوڑ دے گا ورنہ ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔” لوگوں نے میری تائید کی اور ہم اس کے گھر کی جانب چل دیئے۔ وہاں پہنچ کر ہم نے عورت کی رہائی کا مطالبہ کیا تو اس ظالم ترکی افسر کے کئی غلاموں نے مل کرہم پر ڈنڈوں سے حملہ کیا، سب مجھے اکیلا چھوڑ کر بھاگ گئے ،چند غلاموں نے مجھے پکڑ کر خوب مارا اور شدید زخمی کر دیا۔ میرا ایک پڑوسی مجھے اٹھاکر گھر لے آیا۔گھر والوں نے زخموں پر دوائی لگاکر پٹی باندھ دی ،مجھے کچھ دیر نیند آگئی، لیکن کچھ ہی دیر بعد درد کی شدت سے آنکھ کھل گئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس بے چاری کو کس طرح بچایا جائے، اگر فجر طلوع ہونے تک وہ اسی ظالم کے قبضہ میں رہی تو اس کو طلاق ہوجائے گی اور اس کا گھر برباد ہوجائے گا۔ اے کاش !طلوعِ فجر سے قبل ہی وہ ظالم اسے چھوڑ دے۔ پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ اس ظالم نے شراب پی رکھی ہے اسے اوقات کی معلومات بھی نہیں اگر میں ابھی اذان دے دوں تو وہ یہی سمجھے گا کہ فجر کا وقت ہوگیا ہے اور وہ اس عورت کو چھوڑ دے گا۔ اس طرح کم از کم اس بے چاری کا گھر تو بچ جائے گا ۔بس یہ خیال آتے ہی میں گرتا پڑتا مسجد پہنچا اور مینارے پر چڑھ کر بلندآواز سے اذان دی، اور اس ترکی افسر کے گھر کی طرف دیکھنے لگا ۔ ابھی کچھ دیرہی گزری تھی کہ باہر کی ساری سڑک گھوڑوں اور سپاہیوں سے بھر گئی ۔سپاہی بلند آواز سے کہہ رہے تھے :” اس وقت اذان کس نے دی ہے؟” پہلے
تومیں خاموش رہا پھر یہ سوچ کر کہ شاید اس عورت کی رہائی پر یہ سپاہی میری مدد کریں میں نے پکارکر کہا:” میں یہاں موجود ہوں اور میں نے ہی اذان دی ہے۔” سپاہیوں نے کہا:” جلدی نیچے آؤ، تمہیں امیرالمؤمنین بلارہے ہیں۔” میں ان سپاہیوں کے ساتھ خلیفہ مُعْتَضِد باللہ کے پاس آیا ۔اس نے بڑی شفقت سے مجھے اپنے قریب بٹھایا اور تسلی دینے لگا، میرا خوف جاتا رہا اور جب بالکل مطمئن ہوگیا تو کہا:” تجھے کس نے مجبور کیا کہ تو وقت سے پہلے اذان دے کر مسلمانوں کو دھوکہ دے؟ذراسوچ تو سہی کہ مسافر تیری اذان سے دھوکہ کھا کر سفر شروع کر ديں گے، روزے دار کھانے پینے سے رک جائیں گے حالانکہ ابھی سحری کا وقت باقی ہے۔ بتا! کس چیز نے تجھے اس کام پر مجبور کیا؟” میں نے ڈرتے ہوئے کہا:” اگر امیرالمؤمنین مجھے جان کی امان عطا فرمائيں تو میں کچھ عرض کرتا ہوں۔” خلیفہ نے کہا:” تمہیں امان دی جاتی ہے، سچ سچ بتاؤ ۔”
میں نے اس ظالم ترکی افسر اور عورت کا سارا واقعہ کہہ سنایا اور اپنے زخم بھی خلیفہ کو دکھائے۔ خلیفہ نے غضبناک ہوکر سپاہیوں کو حکم دیا کہ” ابھی ابھی اس ترکی افسر اورااس مظلومہ کو میرے سامنے حاضر کرو۔” کچھ ہی دیر میں سپاہی اس ترکی افسر اور عورت کو خلیفہ کے پاس لے آئے ۔خلیفہ نے مجھے ایک کمرے میں بھیج کر عورت سے حقیقتِ حال دریافت کی تو اس نے بھی وہی کچھ بتایا جو میں نے بتایا تھا۔ خلیفہ نے چند قابلِ اعتماد عورتوں اور سپاہیوں کے ساتھ عورت کو اس کے گھر بھیج دیا اور اس کے شوہر کو پیغام بھجوایا کہ اس عورت کے ساتھ احسان اور بھلائی والا معاملہ کیاجائے کیونکہ یہ بے قصور ہے اگر اس پر سختی کی گئی تو سخت سزا دی جائے گی۔ پھر خلیفہ نے مجھے بلایا اور اس ترکی افسر کو مخاطب کر کے پوچھا :”بتا! تجھے کتنی تنخواہ ملتی ہے ؟بتا! تجھے کاروبار سے کتنا نفع ملتا ہے ؟ تیرے پاس کتنی کنیزیں اور لونڈیاں ہیں؟تیری سالانہ آمدنی کتنی ہے ؟”ترکی افسر نے اپنی کثیر آمدنی اور کنیزوں کے بارے میں بتایاتو خلیفہ نے کہا:” اتنی نعمتیں ملنے کے باوجود تو نے اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی ہے ۔ کیا تجھے حلال چیزیں کافی نہ تھیں؟ جو تونے حرام کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اب تجھے دردناک سزا دی جائے گی۔ اے سپاہیو! جلدی چمڑے کا تھیلا اور چونا لے کر آؤ۔” چمڑے کا مضبوط تھیلا اور چونا لایا گیا ،اس ترکی کو تھیلے میں بند کرکے اوپر سے چونا ڈال کر ہتھوڑوں سے ضربیں لگائی گئیں۔کچھ ہی دیر میں اس ظالم کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اوروہ موت کے گھاٹ اُتر گیا۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ” اس نامراد کی لاش دریائے دِجلہ میں پھینک دی جائے۔”
تمام فوجی افسر، وزراء و اعلیٰ عہدیداران یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ افسر جس کے ذمے تیرا مال تھا وہ بھی وہاں موجود تھا۔ خلیفہ نے مجھے مخاطب کرکے کہا:”اے شیخ!ہمارے اس ملک میں آپ جہاں بھی کوئی برائی دیکھیں، جہاں کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں تو اسے روکیں، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔” پھر ایک بڑے افسر کی طرف اشارہ کرکے کہا:” چاہے یہ اعلیٰ افسر ہی کیوں نہ ہو،تم اسے برائی سے روکنا اور اگر کوئی تمہارے خلاف جرأ ت کرے، تمہاری بات نہ مانے تو مجھے فوراً اطلاع کر دینا، ہمارے اور تمہارے
درمیان ”اذان ” نشانی ہو گی۔ تم وقت سے پہلے اذان دے دینا میں سمجھ جاؤں گا اور تیری آواز سنتے ہی تیری مدد کو پہنچوں گا۔ جو تجھے تکلیف پہنچائے گا اس ظالم ترکی افسر کی طرح میں اُسے عبرتناک سزادوں گا۔ اب جاؤ اور اپنے کام کی پابندی کرو۔” خلیفہ کی یہ بات سن کر میں سے وہاں سے آگیا۔ صبح ہوتے ہی یہ خبر پورے شہر میں پھیل گئی ہر خاص وعام کو میرے اختیارات کے متعلق معلوم ہوگیا اس دن سے لے کر آج تک ایک مرتبہ بھی ایسانہ ہوا کہ میں نے کسی کو انصاف دلوایا ہو اور اسے انصاف نہ ملا ہو۔ خلیفہ کے ڈر سے ہر شخص میری ہربات فوراً مان لیتا ہے۔ ابھی تک دوبارہ وقت سے پہلے اذان دینے کی نوبت نہیں آئی۔ یہ ہے میرا واقعہ ۔”یہ کہہ کر درزی اپنے کام میں مصروف ہوگیا اور میں گھر چلاآیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)