کتاب الصلوۃ
کتاب الصلوۃ اذان و اقامت کے مسائل و طریقہ
(۱) عَنْ مُعَاوِیَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ الْمُؤَذِّنُونَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (1)
حضرت معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میں نے رسول علیہ الصلوۃ و التسلیم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مؤذنوں کی گردنیں قیامت کے دن سب سے زیادہ دراز ہوں گی۔ (مسلم)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ:
’’کنایت ست از بزرگی وگردن فرازی ایشاں دراں رُوز‘‘(2) (اشعۃ اللمعات، جلد اول، ص۳۱۲)
یعنی اِس حدیث میں قیامت کے دن مؤذنوں کی بزرگی اور اعلیٰ منصبی سے کنایہ کیا گیا ہے ۔
(۲) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَذَّنَ سَبْعَ سِنِینَ مُحْتَسِبًا کُتِبَتْ لَہُ بَرَائَ ۃٌ مِنْ النَّارِ۔ (3)
حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ جوشخص صرف ثواب کی غرض سے سات برس اذان کہے اس کے لیے دوزخ سے نجات لکھی جاتی ہے ۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
(۳) عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلَالٍ: إِذَا أَذَّنْتَ فَتَرَسَّلْ و أَقَمْتَ فَاحْدُرْ وَاجْعَلْ بَیْنَ أَذَانِکَ وَإِقَامَتِکَ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا کہ جب اذان کہو توٹھہر ٹھہر کر کہو اور جب تکبیر
قَدْرَ مَا یَفْرُغُ الْآکِلُ مِنْ أَکْلِہِ وَالشَّارِبُ مِنْ شُرْبِہِ وَالْمُعْتَصِرُ إِذَا دَخَلَ لِقَضَائِ حَاجَتِہِ وَلَا تَقُومُوا حَتَّی تَرَوْنِی۔ (1)
کہو توجلدی جلدی کہو اور اذان و تکبیر کے درمیان اتنا فاصلہ رکھو کہ فارغ ہوجائے کھانے والا اپنے کھانے سے اور پینے والا اپنے پینے سے اور قضائے حاجت کرنے والا اپنی حاجت کو رفع کرنے سے اور تاوقتیکہ مجھے دیکھ نہ لو نماز کے لیے کھڑے نہ ہو۔ (ترمذی)
عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَقَّاصٍ قَالَ إِنِّی لَعِنْدَ مُعَاوِیَۃَ إِذْ أَذَّنَ مُؤَذِّنُہُ فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ کَمَا قَالَ مُؤَذِّنُہُ حَتَّی إِذَا قَالَ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ قَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ فَلَمَّا قَالَ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ قَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ وَقَالَ بَعْدَ ذَلِکَ مَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِکَ۔ (2)
حضرت علقمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ میں حضرت معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کے مؤذن نے اذان پڑھی۔ حضرت معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھی وہی الفاظ کہے جو مؤذن نے کہے ۔ یہاں تک کہ جب مؤذن نے حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ کہا تو حضرت معاویہ نے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِکہا اور جب مؤذن نے حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِکہا تو حضرت معاویہ نے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَإِلَّا بِاللَّہِ
الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِکہا اور اس کے بعد حضرت معاویہ نے وہی کہا جو مؤذن نے کہا۔ پھر حضرت معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ میں نے حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام سے سنا کہ آپ اسی طرح فرماتے تھے ۔ (احمد ، مشکوۃ)
انتباہ :
(۱)… اذان مئذنہ پر یا خارج مسجد پڑھی جائے ۔ داخل مسجد اذان پڑھنا مکروہ ومنع ہے ۔ خواہ اذان پنچ وقتی نماز کے لیے ہو یا خطبہ جمعہ کے لیے دونوں کا حکم ایک ہے ۔ (3) (عالمگیری، فتح القدیر، بحرالرائق، طحطاوی، وغیرہ)
(۲)…ناسمجھ بچے ، جُنب اور فاسق اگرچہ عالم ہی ہو ان کی اذان مکروہ ہے لہذا ان سب کی اذان کا اعادہ کیا جائے ۔ (1) (درمختار، بہارشریعت)
(۳)…اذان میں حضور پُر نور شافع یوم النشور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام مبارک سُن کر انگوٹھے چومنا اور آنکھوں سے لگانا مستحب ہے ۔
طحطاوی علی مراقی الفلاح مصری ص ۱۲۲، اور ردالمحتار جلد اول مصری ص:۲۷۹میں ہے :
یُسْتَحَبُّ أَنْ یُقَالَ عِنْدَ سَمَاعِ الْأُولَی مِنْ الشَّہَادَۃِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْک یَا رَسُولَ اللَّہِ، وَعِنْدَ الثَّانِیَۃِ مِنْہَا قَرَّتْ عَیْنِی بِک یَا رَسُولَ اللَّہِ، ثُمَّ یَقُولُ أَللَّہُمَّ مَتِّعْنِی بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ بَعْدَ وَضْعِ ظُفْرَیْ الْإِبْہَامَیْنِ عَلَی الْعَیْنَیْنِ فَإِنَّہُ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکُونُ قَائِدًا لَہُ إلَی الْجَنَّۃِ، کَذَا فِی ’’کَنْزِ الْعِبَادِ‘‘ ’’قُھُسْتَانِی‘‘ وَنَحوِہِ فِی ’’الْفَتَاوَی الصُّوْفِیَّۃ‘‘(2)
یعنی مستحب ہے کہ جب اذان میں پہلی بار اَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْل اللَّہ سُنے تو صَلَّی اللَّہُ عَلَیْک یَا رَسُولَ اللَّہِکہے اور جب دوسری بار سنے توقَرَّتْ عَیْنِی بِک یَا رَسُولَ اللَّہِ اور پھر کہے اللَّہُمَّ مَتِّعْنِی بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ اور یہ کہنا انگوٹھوں کے ناخن آنکھوں پر رکھنے کے بعد ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اپنی رکابِ ا قدس میں اسے جنت لے جائیں گے ایسا ہی کنزالعباد میں ہے ۔ یہ مضمون جامع الرموز علامہ قہستانی کا ہے اور اسی کے مثل فتاوی صوفیہ میں ہے ۔
(۴)…اذان و اقامت کے درمیان صلوۃ پڑھنا یعنی بلند آواز سے الصَّلَوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللَّہِ جائز ومستحب ہے ۔ اس صلاۃ کا نام اصطلاح شرح میں تثویب ہے اورتثویب کو فقہائے اسلام نے نماز مغرب کے علاوہ باقی نمازوں کے لیے مستحسن قر ار دیا ہے جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص:۵۳میں ہے ’’وَالتَّثْوِیبُ حَسَنٌ عِنْدَ الْمُتَأَخِّرِینَ فِی کُلِّ صَلَاۃٍ إلَّا فِی الْمَغْرِبِ ہَکَذَا فِی شَرْحِ النُّقَایَۃِ
لِلشَّیْخِ أَبِی الْمَکَارِمِ وَہُوَ رُجُوعُ الْمُؤَذِّنِ إلَی الْإِعْلَامِ بِالصَّلَاۃِ بَیْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَۃِ. وَتَثْوِیبُ کُلِّ بَلْدَۃٍ عَلَی مَا تَعَارَفُوہُ إمَّا بِالتَّنَحْنُحِ أَوْ بِالصَّلَاۃَ الصَّلَاۃَ أَوْ قَامَتْ قَامَتْ؛ لِأَنَّہُ لِلْمُبَالَغَۃِ فِی الْإِعْلَامِ وَإِنَّمَا یَحْصُلُ ذَلِکَ بِمَا تَعَارَفُوہُ. کَذَا فِی الْکَافِی‘‘ .(1)
مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے ۔ وَیُثَوِّبُ بَعْدَ الْأَذَانِ فِی جَمِیْعِ الْأَوْقَاتِ لِظُھُوْرِ التَّوَانِی فِی الْأُمُوْرِ الدِّیْنِیِِّۃِ فِی الْأَصَحِّ وَتَثْوِیْبُ کلِّ بلَدٍ بِحَسَبِ مَاتَعَارَفَہُ أَھلُھَا‘‘.(2)
اور مرقاۃ شرح مشکوۃ لملا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی جلد اول ص:۴۱۸میںہے وَاسْتَحْسَن الْمُتَأَخِّرَوْنَ التَّثْوِیْبَ فِی الصَّلَوَاتِ کُلِّھَا۔ (3)
اور درمختار مع ردالمحتار جلد اول ص:۲۷۳ میں اذان کے بعد خاص صلاۃ وسلام پڑھنے کے متعلق تصریح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’التَّسْلِیمُ بَعْدَ الْأَذَانِ حَدَثَ فِی رَبِیعٍ الْآخَرِ سَنَۃَ سَبْعِ مِئَۃٍ وَإِحْدَی وَثَمَانِینَ وَہُوَ بِدْعَۃٌ حَسَنَۃٌ اھ مُلخَّصاً ‘‘ یعنی اذان کے بعد أَلصَّلَوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللَّہِ ‘‘ پڑھنا ماہِ ربیع الاخر ۷۸۱ھ میں جار ی ہوا اور یہ بہترین ایجاد ہے ۔ (4)
(۵)… اقامت کے وقت کوئی شخص آیا تو اسے کھڑے ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ بیٹھ جائے اور مکبّر جب حَیَّ عَلَی الصَّلَوۃ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ پر پہنچے تو اس وقت کھڑا ہو۔
فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص:۵۳میں ہے ۔ ’’إذَا دَخَلَ الرَّجُلُ عِنْدَ الْإِقَامَۃِ یُکْرَہُ لَہُ الِانْتِظَارُ قَائِمًا وَلَکِنْ یَقْعُدُ ثُمَّ یَقُومُ إذَا بَلَغَ الْمُؤَذِّنُ قَوْلَہُ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کَذَا فِی الْمُضْمَرَاتِ‘‘۔ (5)
اور ردالمحتار جلد اول ص:۳۸۰میں ہے : ’’وَیُکْرَہُ لَہُ الانْتِظَارُ قَائِمًا، وَلَکِنْ یَقْعُدُ ثُمَّ یَقُومُ إذَا بَلَغَ
الْمُؤَذِّنُ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ‘‘۔ (1)
(۶)…جو لوگ تکبیر کے وقت مسجد میں موجود ہیں بیٹھے رہیں جب مکبّر حَیَّ عَلَی الصَّلَوۃِ حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ پر پہنچے تو اٹھیں اور یہی حکم امام کے لیے بھی ہے ۔
فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص:۵۳میں ہے :
’’ یَقُومُ الْإِمَامُ وَالْقَوْمُ إذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ عِنْدَ عُلَمَائِنَا الثَّلَاثَۃِ وَہُوَ الصَّحِیحُ‘‘. (2)
یعنی علمائے ثلاثہ حضرت امام اعظم ، امام ابو یوسف اور امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ م کے نزدیک امام اور مقتدی اس وقت کھڑے ہوں جب کہ مکبر حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ کہے اور یہی صحیح ہے ۔
اور شرح وقایہ جلد اول مجیدی ص:۱۳۶ میں ہے :
یَقُومُ الْإِمَامُ وَالْقَوْمُ عَنْد حَیَّ عَلَی الصَّلَوۃِ. (3)
یعنی امام اور مقتدی حَیَّ عَلَی الصَّلَوۃکہنے کے وقت کھڑے ہوں۔
اور مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد اول ص:۴۱۹ میں ہے ۔ یَقُومُ الْإِمَامُ وَالْقَوْمُ عَنْد حَیَّ عَلَی الصَّلَوۃِ۔ (4)
اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اشعۃ اللمعات جلد اول ص:۳۲۱ میں فرماتے ہیں کہ:
فقہا گفتہ اند مذہب آن ست کہ نزد حی علی الصلوۃ باید برخاست۔ (5)
یعنی فقہائے کرام نے فرمایا کہ مذہب یہ ہے حَیَّ عَلَی الصَّلَوۃِ کے وقت اُٹھنا چاہیے ۔
٭…٭…٭…٭
________________________________
1 – ’’صحیح مسلم‘‘ ، کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان وھرب إلخ، الحدیث: ۱۴۔ (۳۸۷)ص۲۰۴.
2 – ’’اشعۃ اللمعات‘‘، کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان، الفصل الأول، ج۱، ص ۳۳۴.
3 – ’’سنن الترمذی‘‘، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی فضل الأذان، الحدیث: ۲۰۶، ج۱، ص۲۴۸، ’’سنن ابن ِ ماجہ‘‘، کتاب الأذان والسنۃ فیہا، باب فضل الأذان إلخ، الحدیث: ۷۲۷، ج۱، ص۴۰۲.