اولاد کی تربیت اور اس کی تاکید
دورِحاضرہ میں اولاد کی تربیت کی طرف توجہ نہیں ،شاید اِسے ایک معمولی اَمر سمجھاجاتا ہو ۔کوئی صاحبِ دل خود ہی غور فرمائے توبات واضح ہوجائے گی بالخصوص مائیں خصوصیت سے توجہ فرمائیں کہ قرآن وحدیث کی رُو سے اولاد کی تربیت کی اکثر ذمہ داری والدہ پر عائد ہوتی
ہے۔چنانچہ بہت سے ائمہ کرام اِس کی تائید کرتے ہیں مثلاًعلّامہ ابنِ الجماعہ رحمۃ اﷲ علیہ اپنے زمانہ کی عورتوں کی تربیت کاتذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج کل سب سے اہم کام بچوں کی تربیت ہے ۔اِس لیے مائوں کو صبح صادق سے لے کر شام تک اِسی کام کے لیے محنت کرنی چاہیے۔علّامہ ممدوح رحمۃ اﷲ علیہ اس سلسلے میں مزید لکھتے ہیں کہ مائوں کوچاہیے کہ بچوں کو آہستہ بولنا اورراستہ میں نظر جھکا کرچلنا سکھائیں۔
علّامہ ابنِ خلدون رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں تربیت اولاد سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں اوربچوں کی دماغی صلاحیتوں کی حفاظت جس قدر ضروری ہے اتنی اورکوئی چیز نہیں ۔اِسی وجہ سے ایک مسلمان ماں دن رات اِسی کام میں مُنہمک رہتی ہے اوروہ اپنے بچے کی تربیت اِس غرض سے نہیں کرتی کہ اُس کا بچہ اُس کے مستقبل کاسہا را بنے گا بلکہ اِس لیے کرتی ہے کہ یہ اِس کی قوم کی امانت ہے اور یہ اِس کا اسلامی فرض ہے۔
امام راز ی رحمۃ اﷲ علیہ اپنے فلسفہ میں کہتے ہیں کہ مائوں کو اولاد کی تربیت کرتے وقت یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہ بچے اِن کے ہیں بلکہ یہ اِن کی قوم کے ہیں اِن کی خرابی اِن کی اپنی نہیں بلکہ قوم کی خرابی ہے اوربچے کوخراب تربیت دینا قوم کی خیانت ہے جس کابدلہ چکایا نہیں جاسکتا۔اِس لیے بچے کو شروع سے ہی صحیح عقائد وعبادات‘ حسنِ اخلاق ‘حسنِ معاشرت اورحسنِ سلوک وحسنِ عمل کا ایسا مجموعہ بنادینا چاہیے کہ تاعمر اُس سے اِن صفات کاظہور ہوتا رہے۔
امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ اپنے مقالات میں لکھتے ہیں کہ ماں کی گود بچے کا اِبتدائی مکتب ہے اگر اِبتدا سے ہی بہتر تربیت ہوجائے توآخر تک اسی طرح تعلیم بہترین ہوتی جائے گی ورنہ دوسری صورت میں بچے کی اِصلاح بعد میں ناممکن ہے۔
مذکورہ بالا تمام اَقوال سے اِس بات کی تائید ہوتی ہے کہ تربیتِ اولاد کی یہ ذمہ داری سب سے زیادہ ماں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ بچے کا اکثر وقت ماں کے پاس ہی گزرتا ہے اورماں کی گود ہی بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے کیونکہ وہی بچے کو اُٹھنا بیٹھنا کھانا پینا سکھاتی ہے ۔اگربچے کو یہی حرکات وسکنات اِسلامی تعلیمات کے مطابق سکھادی جائیں تو اِسی کانام ’’تربیتِ اسلامی‘‘ ہے۔