اولاد کے حقوق
(۱)’’عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَأَنْ یُؤَدِّبَ الرَّجُلُ وَلَدَہُ خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ‘‘۔ (1)
حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃوالسلام نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو اس کے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے ۔ (ترمذی)
(۲)’’ عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ مُوْسَی عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدَہُ مِنْ نُّحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ‘‘۔ (2)
حضرت ایوب بن موسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ اولاد کے لیے باپ کا کوئی عطیہ اچھی تربیت سے بہتر نہیں ہے ۔ (بیہقی، مشکوۃ)
(۳)’’عَنْ أَنَسٍِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتَّی تَبْلُغَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنَا وَہُوَ ہَکَذَا وَضَمَّ أَصَابِعَہُ‘‘۔ (3)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جس کی پرورش میں دو لڑکیاں بلوغ تک رہیں تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ بالکل پاس پاس ہوں گے ، یہ کہتے ہوئے حضور نے اپنی انگلیاں ملا کر فرمایا کہ اس طرح۔ (مسلم)
(۴)’’عَنْ سُرَاقَۃَ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَلا أَدُلُّکُمْ عَلَی أَفْضَلِ الصَّدَقَۃِ ابْنَتُکَ مَرْدُودَۃً إِلَیْکَ لَیْسَ لَہَا
حضرت سراقہ بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ کیا میں تم کو یہ نہ بتادوں کہ افضل صدقہ کیا ہے ؟ اور وہ اپنی اس
کَاسِبٌ غَیْرُکَ‘‘۔ (1)
لڑکی پر صدقہ کرنا ہے جو تمہاری طرف (مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب) واپس لوٹ آئی اور تمہارے سوا کوئی اس کا کفیل نہیں۔ (ابن ماجہ، مشکوۃ)
(۵)’’ عَنِ ابْنِ عَبََّاس قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ عَالَ ثَلاثَ بَنَاتٍ أَوْمِثْلَھُنَّ مِنَ الاخَوَاتِ فَأَدَّبَھُنَّ وَرَحِمَھُنَّ حَتَّی یُغْنِیَھُنَّ اﷲُ أَوْجَبَ اﷲُ لَہُ الجَنَّۃَ فََقَالَ رَجُلٌ أَوْاِثْنَتَیْنِ قاَلَ أَوْ اِثْنَتَیْنِ حَتَّی لَوْ قَالُوا أَوْ وَاحِدَۃً لَقَالَ وَاحِدَۃً ‘‘۔ (2)
حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی پرورش کرے پھر ان کو ادب سکھائے اور ان کے ساتھ مہربانی کرے یہاں تک کہ خدا ان کو مستغنی کردے (یعنی وہ بالغ ہوجائیں اور ان کا نکاح ہوجائے ) تو پرورش کرنے والے پراللہ تعالی جنت کو واجب کردے گا ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! اور دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی پرورش پر کیا ثواب ہے ؟ حضور نے فرمایا دو کا ثواب بھی یہی ہے (راوی کہتے ہیں) اگر صحابہ ایک بیٹی یا ایک بہن کے بارے میں دریافت کرتے تو ایک کی نسبت بھی حضور یہی فرماتے ۔ (شرح السنۃ، مشکوۃ)
انتباہ:
بچہ کا اچھا سا نام رکھے بُرا نام نہ رکھے کہ بُرے نام کا برا اثر ہوگا تو تربیت قبول نہ کرے گا، ماں یا کسی نیک نمازی عورت سے دو سال تک دودھ پلوائے ، پاک کمائی سے ان کی پرورش کرے کہ ناپاک مال ناپاک عادتیں پیدا کرتا ہے ، کھیلنے کے لیے اچھی چیز جو شرعاً جائز ہو دیتا رہے ، بہلانے کے لیے ان سے جھوٹا وعدہ نہ کرے ، جب کچھ ہوشیار ہو تو کھانے پینے ، اٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے ، ماں باپ اور استاد وغیرہ کی تعظیم کا طریقہ بتائے ، نیک استاد کے پاس قرآن مجید پڑھائے ، اسلام و سنت سکھائے ، حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعظیم و محبت ان کے دل میں ڈالے کہ یہی اصل ایمان ہے ۔ جب بچہ کی عمر سات برس ہوجائے تو نماز کی تاکید کرے اور
جب دس برس کا ہوجائے تو نماز کے لیے سختی کرے اگر نہ پڑھے تو مار کر پڑھائے ۔ وضو ، غسل اور نماز وغیرہ کے مسائل بتائے ۔ لکھنے اور تیرنے کی تعلیم دے ۔ فنِ سپہ گری بھی سکھائے ۔ بری صحبت سے بچائے ۔ عشقیہ ناول اور افسانے وغیرہ ہر گز نہ پڑھنے دے ۔ جب جوان ہوجائے تو نیک شریف النسب لڑکی سے شادی کردے اور وراثت سے اسے ہر گز محروم نہ کرے ۔
اور لڑکیوں کو سینا پرونا ، کاتنا اور کھانا پکانا سکھائے ، سورئہ نور کی تعلیم دے اور لکھنا ہر گز نہ سکھائے کہ فتنہ کا احتمال غالب ہے ۔ بیٹوں سے زیادہ ان کی دلجوئی کرے ۔ نو برس کی عمر سے ان کی خاص نگہداشت شروع کرے ۔ شادی برات میں جہاں ناچ گانا ہو وہاں ہرگز نہ جانے دے ۔ ریڈیو سے بھی گانابجانا ہر گز نہ سننے دے جب بالغ ہوجائے تو نیک شریف النسب لڑکے کے ساتھ نکاح کردے ۔ فاسق و فاجر خصوصًا بدمذہب کے ساتھ ہر گز نکاح نہ کرے ۔ (1)
٭…٭…٭…٭