عرب میں عورت کی زبوں حالی
دوسرے ممالک کی طرح عرب میں بھی عورت کا حال زبوں تھا لیکن یاد رہے عرب کے مختلف قبائل اورخاندانوں کو ایک طرح سے اَہلِ عرب کہہ کر تمام لوگوں کومذہبی تمدنی اوراَخلاقی حالت میں یکجا کردیتے ہیں ۔ مثلاً چند قبائل اگر اپنی لڑکیوں کو زندہ درگو رکردیتے تھے اورعورتوں پر شبانہ روز ظلم وستم کی اِنتہا کردیتے تھے توہم تمام عربوں کو اِس میں شامل کرلیتے ہیں۔حالانکہ قطعاً ایسی بات نہیں ہے۔عورت کے متعلق اہلِ عرب کے خیالات،احساسات اورنظریات کہیں پر نہایت ہی سادہ اورطبعی اورکہیں نہایت ہی غلط قسم کے تھے۔قبل اَز اِسلام اہل عرب کسی شریعت کے پیروکار نہ تھے اورنہ ہی باقاعدہ طور پر کسی خاص ضابطہ اَخلاق کے پابند تھے ،بدلتے ہوئے حالات اوروقتی ضرورتوں کے پیشِ نظر اِن کے نظریات وخیالات بدلتے رہتے تھے۔یعنی دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ چڑھتے سورج کے پرستار تھے جیسے کہ آج کل بھی ہیں،عورت سے میل جول اوررکھ رکھائو کے لیے ہرمذہب اورہر قبیلہ نے اپنے طور پر علیٰحدہ علیٰحدہ نظریات اورقوانین بنائے ہوئے تھے ۔ہر قبیلہ کے ہر فرد کو اپنے قوانین کی پابندی کرنا پڑتی تھی اور عرب جن میں زیادہ ترخانہ بدوش تھے نہ توکسی قاعدے اورقانون کے پابند تھے اورنہ ہی اپنے نظریات کودوسری قوموں کے نظریات کے سانچے میں ڈھال کریکجا کرسکتے تھے۔
قرون اُولیٰ میں’’ عورت‘‘ مرد کی نظر میں ’’بدی کامجسمہ‘‘ تھی اور اکثر مذاہب کا خیال تھا کہ یہ عورت ہی ہے جس نے انسان کے جدِ اَمجد حضرت آدم ںکوجنتُ الفردَوس سے نکلواکر تمام بنی نوعِ انسان کومصائب و آلام اور مشکلات میں پھنسادیا ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا اُن کے لیے ناممکن ہے ۔
عورت کونہ صرف بدی کابلکہ ’’ناپاکی کا مجسمہ ‘‘بھی کہاجاتا تھا ۔اُن کے خیال میںلوگوں میں شہوانی جذبات اُبھارنے اوربھڑکانے والی ذات صرف اورصرف عورت کی ہے اورانسان جس سے شیطانی اَفعال سرزد ہوتے ہیں ،اُن سب کی ذمہ داری’’ عورت ‘‘پر ہے لیکن عرب اِس نقطۂ نظر سے
قطعی طور پر ناآشنا تھے اورانہوں نے کبھی غیر قوموں کی تقلید میں عورت کوناپاکی اور بدی کا مجسمہ ٹھہرانے اورمحض اِس بنا پر اِس سے تحقیر آمیز سلوک کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی۔
روسیوں کی طرح عربوں نے عورت کے متعلق کوئی مخصوص اِجتماعی پالیسی وَضَع نہیں کی ۔ رومی ایک وسیع وعریض سلطنت کے مالک اور حاکم تھے اوراُن کے لیے سلطنت کے باشندوں اوراُن کے مختلف طبقات کے حقوق وواجبات کا تعین کرناضروری تھا ۔چنانچہ بنیادی حقوق وَضع کرتے وقت انہوں نے عورت کو اُن لوگوں کے زُمرے میںرکھاجوہرطرح کمزور اوردوسروں کی مدد کے ہر ہر وقت محتاج ہوتے ہیں ۔اُنہیں عورت کی ذات سے کوئی دشمنی نہ تھی،لیکن اِس کی خلقی کمزوری اِس کے لیے وبالِ جان بن گئی اورکمزوروں، ضعیفوں اور محتاجوں کے ساتھ جوسلوک ممکن ہوسکتاہے وہی عورت سے کیا گیا۔
لیکن عرب اُس تہذیب وتمدن سے بھی بالکل ناواقف تھے ،جواُن کے ہمسایہ ممالک میں رائج تھی اورجس میں باشندوں کو کئی طبقات میں تقسیم کرکے اُن کے ساتھ الگ الگ سلوک کیا جاتاتھا۔اُن کی طبیعت بَدویانہ تھی اوروہ ملکی قوانین کے بجائے اپنے نفس کی خواہشات کے پابند تھے اورنفسانی خواہشات وقت اورحالات کے مطابق رنگ بدلتی رہتی تھیں۔کبھی تو وہ عورت سے لونڈیوں سے بھی بَدتر سلوک کرتے تھے اورکبھی اِس قدر تعظیم سے پیش آتے تھے کہ بیٹے کی نسبت باپ کے بجائے ماں سے کیا کرتے تھے۔ تاریخِ عرب میں خال خال ہمیں یہ واقعات بھی ملتے ہیں کہ کسی شخص نے عورت کی عزت بچانے کی خاطر اپنے رقیبوں سے کچھ اِس طرح انتقام لیا کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں چنانچہ بنوبکر اوربنوتغلب کی باہمی لڑائی اِس کی مثال ہے۔یہ جنگ چالیس سال جاری رہی۔
یہ اَمر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ عرب تھے جو اپنی عزت وناموس کی حفاظت کی وجہ سے غربت کے باعث اپنی لڑکیوں کوزندہ دفن کرتے تھے اوریہ سلسلہ قیس بِن عاصم سے شروع ہوا ۔ ایک جنگ کے دوران اُس کی نہایت ہی خوبصورت اورجوان بیٹی کو اُٹھا کرکے لے گئے ۔قیس نے اُس کو بچانے کی کوشش کی اورجب وقت آیا تو اُس کی بیٹی نے ساتھ جانے سے انکار کردیا
۔اُس نے خانہ کعبہ کی دیواروں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ اُس کے ہاں جو بھی بیٹی پیدا ہوگی اُس کو زندہ درگور کردے گا۔چنانچہ اُس نے ایسا کیا۔
عربوں کی حالت نہایت خراب تھی۔ترکے میں سے اُن کو کچھ نہ ملتا تھا۔ عرب کی کہاوت تھی کہ میراث صرف اُس کا حق ہے جوہاتھ میں تلوار پکڑ سکتا ہو۔اِسی بنا پر چھوٹے بچوں سمیت عورتوں کو بھی وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا ۔ لڑائیوں میں مَفتوحہ قبیلہ کی عورتیں عین میدان جنگ میں فاتحین کے تصَرُّف میں آجاتی تھیں،اگر صُلح ہوجاتی تو عورتیں واپس کردی جاتیں۔
جہاں عربوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جو اپنی عزت وناموس کی خاطر بیٹیوں کوزندہ درگور کردیا کرتے تھے۔وہاں ایسے لوگ بھی موجود تھے جوفاقہ کشی ، غربت اورعیال داری کے باعث بیٹیوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرتے تھے۔اِس کا بیِّن ثبوت یہ ہے کہ صعصعہ بِن ناجیہ نے نوزائیدہ بچیوں کو اُن کے والدین سے خرید لیا کرتاتھا اورخود اُن کی پرورش کرتاتھا ۔چنانچہ بعض روایات میں مذکور ہے کہ ُاس نے اِس طرح لڑکیوں کو خرید کر اُن کی جانیں بچائیں اگر عرب محض عزت وناموس کی حفاظت کی خاطر لڑکیوں کوقتل کیاکرتے تھے تووہ کبھی انہیں مذکورہ بالاشخص کے پاس ہرگز ہرگز نہ بیچتے کیونکہ اپنی عزت وناموس کی حفاظت کرنے والوں کے نزدیک اِس سے زیادہ اورکیابات عار کا موجب ہوگی کہ وہ اپنی لڑکی کودوسرے آدمی کے ہاتھ فروخت کردیں۔
خود قرآن کریم بھی اِس اَمر کی تصدیق کرتا ہے کہ عرب اپنی لڑکیوں کو مفلسی کے باعث بھی قتل کیا کرتے تھے چنانچہ ارشاد خداتعالیٰ ہے: {وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ}’’اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے۔‘‘(پارہ ۱۵،سورۃ بنی اسرائیل، اٰیت۳۱)عرب جوکہ ایک جزیرہ نما صحرا تھا ۔ وہاں دور دور تک پانی کا نام ونشان تک نہ ملتا تھا ۔عرب قبائل جہاں کہیں کوئی چشمہ اورنخلستان دیکھتے وہاں ڈیرہ لگا لیتے چونکہ چشمے بہت کم تھے اورآبادی زیادہ تھی اِس لیے ہر قبیلہ کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ دوسرے قبیلے پر حملہ کرکے چشمہ پرخود قبضہ کرلے۔لیکن چشمہ پر قابض قبیلہ بھی آسانی سے اپنی شکست تسلیم کرنے کوتیار نہ ہوتا تھا جگہ چھوڑنا اِن کے لئے موت اورہلاکت کوخود آواز دینے کے مترادف تھی یہی وجہ تھی اِس قسم کے قبائل میں قومی غیرت بدرجۂ اَتَم پائی جاتی تھی ۔وہ
اپنی اپنی عورتوں کی عزت وناموس کواپنی جان سے بھی زیادہ عزیز خیال رکھتے تھے۔ انہیں بجا طور پر یہ خیال رہتا کہ آج اگر ہم اپنی اور اپنی عورتوں کی عزت وناموس کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے توکل کوہم اپنے قبیلے کی حفاظت کرنے میں بھی ناکام رہیں گے ۔ ہمارے دشمن ،ہمیں تپتے ہوئے صحرائوں میں دھکیل کرہماری ہلاکت کو نزدیک تَرلے آئیں گے۔
جہاں عزت وناموس کی حفاظت پر کمر بستہ رہنے کاسبب تنگی ٔ رزق تھا وہاں لڑکیوں کوزندہ دَرگور کرنے کا سب سے بڑا سبب یہ بھی سمجھا جاسکتا تھا کہ اگر دشمنوں نے ہم پر حملہ کیا تو ہوسکتا ہے ہم اپنی عورتوں کی عصمت اوران کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں اوردشمنوں کے ہاتھ آجائیں۔اِس صورتحال سے عہدہ بر آں ہونے کا بہترین طریقہ اُنہوں نے یہی سوچا کہ لڑکیوں کوپیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا جائے تاکہ آئندہ اِن کی عزت وناموس پر کوئی حرف نہ آسکے۔
اِسلام کی آمد سے پیشتر یہودیوں کے عقائد کے مطابق عورت کی معاشرتی حیثیت اِنتہائی پست تھی ۔اُن کے ہاں عورت کی گواہی کوسِرے سے تسلیم ہی نہیں کیا جاتاتھا۔یہودی قانون کے مطابق تعددِ اِزْدِواج میں بیویوں کی کوئی تعدادمقرر نہیں اورشادی شدہ عورت اپنے مال میں تصّرف نہیں کرسکتی ۔کیونکہ وہ کسی کے ساتھ عَقد (معاہدہ ) کرنے کی اَہل نہیں ہے اورجو کچھ اِس کی ملکیت میں ہے وہ اِس کے شوہر کا ہے۔
بھارت کے قدیمی باشندے‘ عورت کوبھی شُودَرہی تصور کرتے تھے ۔ ایک بھارتی وِدوان کابیان ہے کہ عورت کے دوہی کام ‘ہندو دَھرم کے مطابق تھے ایک یہ کہ عورت دل بہلاوہ ہے ، شُغل ہے اورمَرد کو خوش رکھنے کے بغیر اورکچھ بھی نہیں۔دوسرے جب عورت فارغ ہو تو وہ خاوند کے قدموں کی طرف بیٹھے۔یاپھر اُس کے پائوں دبائے تاکہ اِس کے خاوند کی رَحمت ہمیشہ اِس بدنصیب پررہے اوروہ دُھتکاری نہ بن جائے پس وہ ایک تو شغل کاسامان ہے اوردوسرے چرنوں کی داسی ہے…ویدانتی ہندوشاستر نے عورت کوزندہ اورکثیف ظاہر کیا ہے ۔‘‘ (ترجمہ اَز رسالہ سنت سپاہی امرتسر ،اکتوبر ۱۹۵۲ء)
بسااوقات عورت کو پیدا ہوتے ہی اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے پڑتے تھے ۔ ضربُ المثل مشہور تھی ؎
ڈھول، گنوار، شودر، ناری
یہ سب تاڑن کے ادھیکاری
یعنی ڈھول ،جاہل ،شودر ،حیوان اورعورت سے کام لینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اِنہیں مار پیٹ کی جائے۔اِسی قسم کے خیالات کی بناء پرعورت کو پائوں کی جوتی‘قرار دیا جاتاتھا ۔باپ کی ، خاوند کی یااپنی اَولاد کی وراثت میں سے وہ کوئی حصّہ نہیں پاسکتی تھی۔پراچین زمانے کے ہندوؤں میں یہ رواج تھا کہ ایک عورت جس شخص سے بیاہی جاتی تھی ،اِس کے مرنے پر اُسے اِس کے ساتھ زندہ جلنے پرمجبور کیا جاتاتھا۔