عقیدہ علم غیب

عقیدہ علم غیب

(۱)’’ عَنْ عُمَرَ قَالَ قَامَ فِینَا رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَقَامًا فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْء الْخَلْقِ حَتَّی دَخَلَ أَہْلُ الْجَنَّۃِ مَنَازِلَہُمْ وَأَہْلُ النَّارِ مَنَازِلَہُمْ حَفِظَ ذَلِکَ مَنْ حَفِظَہُ وَنَسِیَہُ مَنْ نَسِیَہُ‘‘۔ (1)
حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام ہم لوگوں (کے مجمع) میں کھڑے ہوئے تو حضور نے ابتدائے آفرنیش سے جنتیوں کے جنت میں اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہونے تک کے سارے حالات کی ہمیں خبر دے دی۔ ( حضور سے سننے والوں میں) جس نے اس بیان کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا۔ (بخاری، ج۱ ص۴۵۳، مشکوۃ ص ۵۱۶)
معلوم ہوا کہ سرکار ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مخلوقات کی پیدائش سے لے کر جنتیوں کے جنت میں اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہونے تک کے سارے حالات کا علم ہے ۔
(۲)’’ عَنْ أَبِی زَیْدٍ یَعْنِی عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ الْاَنْصَارِی قَالَ صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّی حَضَرَتِ الظُّہْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّی حَضَرَتِ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّی غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَأَخْبَرَنَا بِمَا
حضرت ابوزید یعنی عمرو بن اخطب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر رونق افروز ہو کر ہمارے سامنے تقریر فرمائی یہاں تک کہ ظہر کی نماز کا وقت آگیا پھر منبر سے تشریف لاکر نمازپڑھائی اس کے بعد منبر پر تشریف لے گئے پھر ہمارے سامنے تقریر فرمائی یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت آگیاپھر

کَانَ وَبِمَا ہُوَ کَائِنٌ فَأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا ‘‘۔ (1)
منبرسے اُتر کر نماز پڑھائی اس کے بعد منبرپر تشریف لے گئے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا تو اس تقریر میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہونے والا ہے تمام واقعات کی حضور نے ہمیں خبر دے دی تو ہم لوگوں میں سب سے بڑا عالم وہ شخص ہے جسے حضور کی بتائی ہوئی خبریں زیادہ یاد ہیں۔ (مسلم، جلد دوم ص ۳۹۰)
معلوم ہوا کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ’’مَاکَان وَمَا یَکُونُ‘‘ کا علم ہے یعنی آپ گزشتہ اور آئندہ کے تمام واقعات جانتے ہیں۔
(۳)’’ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّہَ زَوَی لِی الْأَرْضَ فَرَأَیْتُ مَشَارِقَہَا وَمَغَارِبَہَا‘‘۔ (2)
حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی تو میں نے مشرق سے مغرب تک زمین کا تمام حصہ دیکھ لیا۔ (مسلم، مشکوۃ ص ۵۱۲)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ پورب سے پچھم تک زمین کا ہر حصہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نگاہ کے سامنے ہے ۔
(۴)’’ عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ وَاللَّہِ مَا أَدْرِی أَنَسِیَ أَصْحَابِی أَمْ تَنَاسَوْا وَاللَّہِ مَا تَرَکَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ قَائِدِ فِتْنَۃٍ إِلَی أَنْ تَنْقَضِیَ الدُّنْیَا یَبْلُغُ مَنْ مَعَہُ ثَلَاثَ مِائَۃٍ فَصَاعِدًا إِلَّا قَدْ سَمَّاہُ لَنَا بِاسْمِہِ وَاسْمِ أَبِیہِ وَاسْمِ قَبِیلَتِہِ‘‘(3)
حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم میں نہیں کہہ سکتا کہ میرے ساتھی بھول گئے ہیں یا بھول جانے کا اظہار کرتے ہیں( آج سے ) دنیا کے ختم ہونے تک جتنے فتنے انگیز لوگ پیدا ہوں گے جن کے ساتھیوں کی تعداد تین سو سے زائد ہوگی خدائے تعالیٰ کی قسم حضور نے ہمیں ان کا نام ان کے

باپ کا نام اور ان کے خاندان کا نام ( سب کچھ) بتادیا۔ (ابوداود، مشکوۃ ص ۴۶۳)
معلوم ہوا کہ حضور کا علم تمام کلیّات اور جزئیات کو گھیرے ہوئے ہے ۔ کہ آپ نے آئندہ پیدا ہونے والے فتنہ انگیزوں کے نام، ان کے باپ کا نام اور ان کے قبیلہ کا نام لوگوں سے بیان فرمایا۔
(۱)’’ عَنْ أَنَسٍ قَالَ نَعَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَیْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَۃَ لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ یَأْتِیَہُمْ خَبرُہُمْ فَقَالَ أَخَذَ الرَّایَۃَ زَیْدٌ فَأُصِیبَ ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِیبَ ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَۃَ فَأُصِیبَ وَعَیْنَاہُ تَذْرِفَانِ حَتَّی أَخَذَ الرَّایَۃَ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِ اللَّہِ یَعْنِی خَالِدَ بْنَ الْوَلِیْدِ حَتَّی فَتَحَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ‘‘۔ (1)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ سرکار ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت ابن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی شہادت کی خبر آنے سے پہلے ان لوگوں کے شہید ہوجانے کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا کہ زید نے جھنڈا ہاتھ میں لیا اور شہید کیے گئے پھر جھنڈے کو جعفر نے سنبھالااور وہ بھی شہید ہوئے پھر ابن رواحہ نے جھنڈے کو لیا اور وہ بھی شہید کیے گئے ۔ آپ یہ واقعہ بیان فرما رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اس کے بعد جھنڈے کو اس شخص نے لیا جو خدائے تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے یعنی حضرت خالد بن ولید ( نے جھنڈا لیا اور خوب گھمسان کی لڑائی لڑتے رہے ) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ (بخاری، مشکوۃ ص ۵۳۳)
معلوم ہوا کہ ساری دنیا کے حالات حضور کی نگاہ کے سامنے ہیں کہ جنگ موتہ جو ملک شام میں ہورہی تھی حضور اس کے حالات مدینہ منورہ میں بیٹھے ہوئے ملاحظہ فرمارہے تھے ۔
(۶)’’ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِیطَانِ الْمَدِینَۃِ أَوْ مَکَّۃَ فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَیْنِ یُعَذَّبَانِ فِی قُبُورِہِمَا فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
حضرتِ ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم مدینہ یا مکہ کے باغات میں سے کسی باغ میں تشریف لے گئے تو دوآدمیوں کی آواز سنی جن پر ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا تھا

مَا یُعَذَّبَانِ فِی کَبِیرٍ ثُمَّ قَالَ بَلَی کَانَ أَحَدُہُمَا لَا یَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِہِ وَکَانَ الْآخَرُ یَمْشِی بِالنَّمِیمَۃِ ثُمَّ دَعَا بِجَرِیدَۃٍ فَکَسَرَہَا کِسْرَتَیْنِ فَوَضَعَ عَلَی کُلِّ قَبْرٍ مِنْہُمَا کِسْرَۃً فَقِیلَ لَہُ یَا رَسُولَ اللَّہِ لِمَ فَعَلْتَ ہَذَا قَالَ لَعَلَّہُ أَنْ یُخَفَّفَ عَنْہُمَا مَا لَمْ تَیْبَسَا‘‘۔ (1)
آپ نے فرمایا ان دونوں پر عذاب ہورہا ہے ۔ مگر کسی بڑی بات پر نہیں۔ پھر فرمایا ہاں (خدائے تعالیٰ کے نزدیک بڑی بات ہے ) اِن میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کھایا کرتا تھا۔ پھر آپ نے کھجور کی ایک تر شاخ منگوائی اور اس کے دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک کی قبر پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا۔ حضور سے عرض کیا گیا یارسول اللہ ! یہ آپ نے کیوں کیا؟فرمایا امید ہے کہ جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوجائیں ان دونوں پر عذاب کم رہے گا۔ (بخاری، ج۱ ص ۳۵)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ:
(۱)… حضور کی نگاہ کے لیے کوئی چیز آڑ نہیں بن سکتی یہاں تک کہ زمین کے اندر جو عذاب ہوتا ہے اسے آپ ملاحظہ فرماتے رہتے ہیں۔
(۲)… حضور مخلوقات کے ہر کھلے اور چھپے کام کو دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت کون کیا کررہا ہے اور پہلے کیا کرتا تھا چنانچہ آپ نے فرمادیا کہ ایک چغلی کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔
(۳)…حضور ہر گناہ کا علاج بھی جانتے ہیں کہ قبر پر شاخیں رکھ دیں تاکہ عذاب ہلکا ہو۔
(۴)…قبروں پر سبزہ اور پھول وغیرہ ڈالنا سنت سے ثابت ہے کہ اس کی تسبیح سے مردہ کو راحت ہوتی ہے ۔
(۵)…قبر پر قرآن پاک کی تلاوت کے لیے حافظ بٹھانا بہتر ہے کہ جب سبزہ کے ذکر سے عذاب ہلکا ہوتا ہے تو انسان کے ذکر سے ضرور ہلکا ہوگا۔
(۶)…اگرچہ ہر خشک وترچیز تسبیح پڑھتی ہے مگر سبزے کی تسبیح سے مردہ کو راحت نصیب ہوتی ہے ایسے ہی بے دین کی تلاوتِ قرآن پاک کا کوئی فائدہ نہیں کہ اس میں کفر کی خشکی ہے اور مومن کی تلاوت مفید ہے کہ اس میں ایمان کی تری ہے ۔
(۷)…سبزہ گنہگاروں کی قبر پر عذاب ہلکا کرے گا اور بزرگوں کی قبروں پر ثواب و درجہ بڑھائے گا۔

(۷)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ہَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِی ہَاہُنَا فَوَاللَّہِ مَا یَخْفَی عَلَیَّ خُشُوعُکُمْ وَلَا رُکُوعُکُمْ إِنِّی لَأَرَاکُمْ مِنْ وَرَاء ظَھْرِیْ‘‘۔ (1)حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میرا قبلہ یہ ہے بخدا مجھ پر نہ تمہارا خشوع پوشیدہ ہے اور نہ رکوع۔ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ (بخاری، ج۱ ص ۱۰۲)
معلوم ہوا کہ حضور کی مقدس آنکھیں عام آنکھوں کی طرح نہ تھیں۔ بلکہ حضور آگے پیچھے اوپر نیچے اور اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھتے تھے یہاں تک کہ خشوع جو دل کی ایک کیفیت کا نام ہے حضور اسے بھی ملاحظہ فرماتے تھے ۔
(۸)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ جَائَ ذِئْبٌ إِلَی رَاعِی غَنَمٍ فَأَخَذَ مِنْہَا شَاۃً فَطَلَبَہُ الرَّاعِی حَتَّی انْتَزَعَہَا مِنْہُ قَالَ فَصَعِدَ الذِّئْبُ عَلَی تَلٍّ فَأَقْعَی وَاسْتَثْـفَرَ وَقَالَ عَمَدْتُ إِلَی رِزْقٍ رَزَقَنِیہِ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَخَذْتُہُ ثُمَّ انْتَزَعْتَہُ مِنِّی فَقَالَ الرَّجُلُ تَاللَّہِ إِنْ رَأَیْتُ کَالْیَوْمِ ذِئْبٌ یَتَکَلَّمُ فَقَالَ الذِّئْبُ أَعْجَبُ مِنْ ہَذَا رَجُلٌ فِی النَّخَلَاتِ بَیْنَ الْحَرَّتَیْنِ یُخْبِرُکُمْ بِمَا مَضَی وَبِمَا ہُوَ کَائِنٌ بَعْدَکُمْ قَالَ فَکَانَ الرَّجُلُ یَہُودِیًّا فَجَائَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَہُ وَأَسْلَمَ ‘‘۔ (2)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ایک بھیڑیا بکریوں کے چرواہے کی جانب آیا پھر اس کے ریوڑ میں سے ایک بکری اٹھالے گیا۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ بکری کو اس سے چھین لیا۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ پھر وہ بھیڑیا ایک ٹیلہ پر چڑھ کر اپنی دم پر بیٹھا اور بولا کہ میں نے اپنے رزق کا قصد کیا تھا جو مجھ کو خدائے تعالیٰ نے دیا میں نے اس پر قبضہ کیا تھا لیکن اے چروا ہے !تو نے اس کو مجھ سے چھین لیا۔ چرواہے نے کہا خدا کی قسم ( ایسی عجیب بات) میں نے آج کی طرح کبھی نہ دیکھی کہ بھیڑیا بولتا ہے ۔
بھیڑیئے نے کہا اس سے زیادہ عجیب ان صاحب ( یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کا حال ہے جو دو سنگستانوں کے

درمیانی نخلستان ( مدینہ) میں تشریف فرما ہو کر تم لوگوں سے ان تمام ( غیبی) واقعات کو بیان کررہے ہیں جو گزر چکے اور جو واقعات تمہارے بعد ہونے والے ہیں ان کو بھی بتاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ وہ چرواہا یہودی تھا بھیڑیئے سے یہ بات سُن کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ واقعہ بیان کیا اور مسلمان ہوگیا۔ (مشکوۃ ص ۵۴۱)
معلوم ہوا کہ جانور کا بھی عقیدہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ’’مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘ کا علم ہے ۔
(۹)’’ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُرِینَا مَصَارِعَ أَہْلِ بَدْرٍ بِالْأَمْسِ یَقُولُ ہَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَائَ اللَّہُ وَہَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّہُ قَالَ عُمَرُ فَوَالَّذِی بَعَثَہُ بِالْحَقِّ مَا أَخْطَئُوا الْحُدُودَ الَّتِی حَدَّہَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فَجُعِلُوا فِی بِئْرٍ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ‘‘۔ (1)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے جنگ بدر سے ایک روز پہلے ہم لوگوں کو وہ تمام مقامات دکھا دیئے تھے جہاں بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والے مشرکین قتل ہوئے چنانچہ آپ نے فرمایا دیکھو کل ان شاء اللہ تعالیٰ یہاں فلاں مشرک گر کر مرے گا اور کل ان شاء اللہ تعالیٰ یہاں فلاں شخص قتل ہو کر گرے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ جو مقامات حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے بتادیئے تھے ان سے ذرا بھی تجاوز نہیں ہوا۔ یعنی وہ کافر اسی جگہ مارے گئے جو جگہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے بتادی تھی۔ پھر ان کافروں کو کنوئیں کے اندر تلے اوپر ڈال دیا گیا۔ (مشکوۃ ص ۵۴۳)
معلوم ہوا کہ حضور کو ’’بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ‘‘کا بھی علم ہے چنانچہ میدانِ بدر میں آپ نے فرمادیا کہ ان شاء اللہ کل یہاں فلاں شخص قتل ہوگا۔ اور یہاں فلاں شخص مرے گا۔ پھر دوسرے روز حضور کے فرمانے کے مطابق ہوا یعنی جو مقامات آپ نے بتادیئے تھے ان سے ذرا بھی تجاوز نہیں ہوا۔
اِنتباہ:
(۱)… علمِ غیب ان باتوں کے جاننے کو کہتے ہیں جن کو بندے عادی طور پر اپنی عقل اور اپنے حواس سے
معلوم نہ کرسکیں۔ تفسیر کبیر جلد اول ص: ۱۷۴ میں ہے :’’ اَلْغَیْبُ ھُوَالَّذِی یَکُوْنُ غَائِبًا عَنِ الْحَاسَّۃِ ‘‘۔ اہـ (1)
(۲)…قرآن مجید پارہ ۲۹ ، رکوع بارہ میں ہے { عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ } یعنی غیب کا جاننے والا ( اللہ تعالیٰ) تو وہ صرف اپنے پسندیدہ رسولوںکو ہی غیب پر قابو دیتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولو ں کو غیب پر قابو دیتا ہے ۔ اور جسے غیب پر قابو ہوتا ہے وہ غیب ضرور جانتا ہے تو ثابت ہوا کہ رسول غیب ضرور جانتے ہیں۔ ا س لیے کہ آیت ِ کریمہ کا خلاصہ ۔ ’’اَلرَّسُوْلُ مُظْھَرٌ(صغریٰ) عَلَی الْغَیْبِ‘‘ہے اور اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ’’کُلُّ مُظْھَرٍ(کبریٰ)عَلَی الْغَیْب یَعْلَمُ الْغَیْبَ‘‘تو ثابت ہوا کہ ’’الرَّسُوْلُ یَعْلَمُ الْغَیْبَ‘‘۔
(۳)…امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں۔ ’’إِنَّ لَہُ صِفَۃً بِھَا یُدْرِکُ مَا سَیَکُوْنُ فِی الْغَیْبِ‘‘ یعنی نبی کے لیے ایک ایسی صفت ہوتی ہے کہ جس سے وہ آئندہ غیب کی باتیں جان لیا کرتے ہیں۔ (2) (زرقانی، جلد اول ص ۲۰)
بارگاہِ رب العالمین جل جلالہ میں دعا ہے کہ اے مولائے کریم! احادیث و مسائل کے اس مجموعہ کو پیارے مصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقہ میں اپنی رضا کے لیے قبول فرما۔ ہمیں اور ہمارے تمام برادرانِ اہل سنت کو اتباعِ سنت کی توفیق عطا فرما۔ اور اس مجموعہ سے بدمذہبوں اور بے عملوں کو توبہ کی توفیق عطا فرما کر ایمان وعمل کی نعمت نصیب فرما۔ ’’ إِنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ وَبِاِجَابَۃِ دُعَائِنَا جَدِیْرٌ‘‘۔ ’’أَللَّھُمَّ بَدِیْعَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْاکْرَامِ خَالِقَ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ أَسْئَلُکَ أَنْ تُصَلِّیَ وَتُسَلِّمَ عَلَی أَوَّلِ خَلْقِ اﷲِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِن الْمُصْطَفَی وَعَلَی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَأُصُوْلِہِ وَفُرُوْعِہِ وَابْنِہِ الْغَوْثِ الْأَعْظَمِ الْجِیْلَانِیِّ أَجْمَعِیْنَ وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ ﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘۔
جَلَال الدِّین اَحمد الامجدی
خادم دارالعلوم فیض الرسول برائون شریف ضلع بستی
۲۱ جمادی الاخری ۱۳۹۱؁ ہـ مطابق ۱۶ اگست ۱۹۷۱ ؁ ء روز دوشنبہ مبارک
_____

Exit mobile version