حکایت نمبر250: امیرِ قافلہ ہو توایسا۔۔۔۔۔۔!
حضرتِ سیِّدُنامُصْعَب بن احمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد فرماتے ہیں: ایک مرتبہ زمانے کے مشہور ولی حضرتِ سیِّدُنا ابو محمد عبداللہ رِبَاطَی علیہ رحمۃ اللہ الکافی بغداد تشریف لائے، ان کا مکۂ مکرمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا جانے کا ارادہ تھا۔ کافی عرصہ سے میری خواہش تھی کہ ان کی رفاقت میں سفرِ حرمینِ شریفین کیا جائے۔ اب موقع اچھا تھا میں فوراً آپ کی بارگاہ میں حاضرہو گیا اورعرض کی: ”حضور! مجھے اپنی رفاقت میں سفر کرنے کی اجازت عطافرما دیں۔” مگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سال مجھے اپنی رفاقت عطا نہ فرمائی۔ دوسرے سال بھی مجھے یہ سعادت نصیب نہ ہوسکی۔تیسرے سال میں پھرحاضر ہوا اوراپنی خواہش کا اظہار کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ”اس شرط پر تم میرے ساتھ سفرکرسکتے ہوکہ ہم میں سے ایک امیر ہوگا اور اس کی اطاعت لازم ہو گی ۔ میں نے بخوشی یہ شرط قبول کرلی اورکہا: حضور آپ امیرہیں۔ فرمایا:” نہیں، بلکہ تم امیر ہو۔”میں نے پھر عرض کی: ”حضور آپ کا مقام ومرتبہ بڑا ہے لہٰذا آپ ہی امیرہیں ۔”فرمایا:” ٹھیک ہے ،میں ہی امیر ہوں لیکن میری نافرمانی نہ کرنا۔” میں نے کہا:” ٹھیک ہے میں ہرگز آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔”
پھر میں اس ولئ کامل کے ہمراہ سوئے حرم چل دیا ۔ جب کھانے کا وقت ہوا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے بٹھایا اور خود بڑی عاجزی وانکساری کے ساتھ میرے لئے کھانا لائے ۔ میں نے چاہا کہ انہیں روکوں اور ان کی خدمت کروں لیکن معاملہ برعکس تھا۔ وہ مجھے بہت زیادہ تعظیم دے رہے تھے ۔ میں جب بھی انہیں روکنا چاہتا تو فرماتے: کیا تم نے یہ شرط منظور نہ کی تھی کہ تم حکم عدولی نہیں کروگے ؟”اسی طرح وہ میرا سب کام کرتے رہے ۔ میرا ساراسامان بھی انہوں نے اٹھائے رکھا ۔ اب میں دل
میں کہنے لگا میری وجہ سے انہیں بہت تکلیف ہورہی ہے ۔ اے کاش !میں ان کا رفیقِ سفر نہ بنتامگر اب مجبور ہوں، کیاکروں۔
سفر طے ہوتا رہا اوروہ ولئ کامل ہر طرح سے میری خاطر مدارات کرتے رہے۔ پھر ایسا ہوا کہ دوران سفر ہمیں بارش نے آ لیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: اے ابو احمد( رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ) ! میل (یعنی راستے کی پہچان کیلئے بنائے ہوئے نشانات)تلاش کرو ،جب ہم میل (نشان ) کے قریب پہنچ گئے تو مجھے چھوٹی سی بُرجی(یعنی گنبد یا ستون) کی آڑ میں بٹھایا اورخود مجھ پر چادر تان کر کھڑے ہو گئے۔ میرے منع کرنے کے باوجود خود سخت سردی میں بھیگتے رہے لیکن مجھے نہ بھیگنے دیا۔ میں کچھ عرض کرتا تو فرماتے ،میں تمہارا امیر ہوں اورہم نے یہ بات طے کرلی تھی کہ تم میرے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروگے ، لہٰذا جو میں کہوں تمہیں اس پر عمل کرنا ہوگا۔ اب میں ان کی رفاقت پر بہت پچھتارہا تھا کہ میری وجہ سے انہیں کتنی دشواری ہورہی ہے۔ اے کاش!میں ان کا رفیق نہ بنا ہوتا ۔ الغرض بغداد شریف سے مکۂ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًاتک وہ نیک خصلت ولئ کامل میری ہر طرح سے خاطر مدارات کرتے رہے یہاں تک کہ ہم مکہ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْمًا میں داخل ہوگئے۔”
(اللہ عَزَّوَجَلَّ اُن پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اوران کے صدقے ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی خوب خو ب خدمت و خیر خواہی کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔”)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)