نصیحت نامہ امیر خسر و رحمۃ اللہ علیہ ماں کے بارے میں

نصیحت نامہ امیر خسر و رحمۃ اللہ علیہ ماں کے بارے میں

حضرت شاہ عبدالحق دہلوی اخبار الاخیار میں لکھتے ہیں کہ حضرت امیر خسرو سلطان الشعراء اوربرہان ناطق ہیں۔ قوت ناطقہ آپ کے کمالات کے ادراک سے عاجز ہے اورزبانِ قلم ان کی تحریر سے قاصر ۔آپ کاشمار دنیا کے بہت بڑے عالموں میں ہے ۔عالموں میں آپ کی ذات فیض الٰہی کی مظہر اورلامتناہی کمالات کی مصدر ہے۔قسم قسم کے مضامین اورمعنی میں جس قدر دسترس انہیں حاصل تھیں و ہ شعرائے متقدمین اورمتاخرین میں سے کسی کی قسمت میں نہیں ہوئی۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد آپ کا دل دنیا سے اچاٹ ہوگیا اورچھ ماہ بعد اٹھارہ شوال ۷۲۵؁ھ کو وفورِ غم سے جاںبحق تسلیم ہو کر مرشدرحمۃ اللہ علیہکے پاس مدفون ہوئے۔اناللّٰہ وانا الیہ راجعون
حضرت امیر خسرو کی تالیفات میں سے ایک کتاب مطلع الانوار منظوم ۶۹۸؁ھ (بجواب مخزن الاسرار مولانا نظامی گنجوی ) ا س کا بیسواں باب میرے مضمون کا حامل ہے۔ بیٹی کو مخا طب کرکے فرماتے ہیں ۔
’’تومیری چشم وچراغ اورمیرے دل کا ثمر ہے اگرچہ تیرے بھائی تیری ہی طرح نیک اختر ہیں مگر میری نظر میں تجھ سے بہتر نہیں کیونکہ باغبان کے لئے سرو سوسن یکساں ہوتے ہیں اگر لڑکی نہ ہو تو بیٹا کیسے پیدا ہو، سیپ کے بغیر موتی کہاں سے دستیاب ہو، قسمت نے تجھے ہمایوں بابرکت بخت بنایا ہے اورمیں نے تیرانام مستورہ(پردہ نشین)رکھا ہے امید ہے کہ تو اسم بامسمیٰ ثابت ہوگی اورعمل سے اپنے نام کے مظہر کی صداقت بنے گی اس وقت تیر ی عمر سات سال ہے سترہ برس ہونے پر تجھے اپنے پر غور اورمیری نصیحت پر عمل کرنا ہوگا تاکہ میرا نام تجھ سے روشن ہو کہ لوگ کہیں کہ خسرو کیسا نیک مرد تھا کہ جس کی بیٹی ان اوصاف کی مالکہ ہے۔ اُس وقت مر بھی جائوں تو خلقت یہ دیکھ کر کہے کہ خسر و مرانہیں زندہ ہے کیونکہ اس کی بیٹی نے نام زندہ کردیا ہے اس لڑکی پرجان فد ا کردینی چاہئے۔جس پر اس کے باپ کانیک نام قائم رہے۔
تجھے چاہئے کہ تحفظ عصمت کے لئے تواسی طرح پابند عمل رہے جس طرح دامنِ کوہ۔جس کا وقار اسی لئے ہے کہ وہ اپنے مقام پرقائم ہے بلکہ میں تویہاں تک کہوں گا کہ عورت کو خفتہ کی طرح بے حس وحرکت رہنا ہی سود مند ہے جو عورت باہر نکل کر پھرنے کی عادی ہوجائے وہ ہر وقت گھر میں خائف رہتی ہے۔دیکھتے نہیں کہ کفن چور گو رات کو مُردوں کے کفن چراتا ہے مگر دن کو بھی گھر میں خوفزدہ رہتا ہے۔
جو عورت باغوں میں سیر کرنے کی عادت ڈال لے اس کا گریبان کسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے اوردامن کسی کے۔عورت کا اس طرح آزاد پھرنا بڑی خرابی کا باعث ہوتا ہے ۔باہر پھر کر سرخ رنگ ہونے سے گھر میں ر ہ کر سپیدرنگ (زرد) رہنا بہترہے۔ شوخ چشمی سے سپید چشم(اندھا ) ہونااچھا ہے ۔عورت اپنی آنکھوں میں سرمہ نہ لگائے جس سے وہ روسیاہ ہوجائے اوروہ گلگونہ(پائوڈر)سرخ وسپید مرکب جو عورتیں چہرے پر ملتی ہیں ۔ چہرے سے اُتار دیں ۔جوقصد بد سے لگایا جائے بلکہ کوشش کرے کہ وہ بے گلگو سرخروہو اورنیک اعمال ہی سے سرخروہی حاصل کرکے صدق وصفا میں حمیرا(جمیراء کی تصغیر ہے جس کے معنی چھوٹی سی خوش رنگ عورت ۔ اورحضرت عائشہ صدیقہ( ص) کالقب بھی ہے ) کاخطاب حاصل کرے ۔آدمی کو اس گمان میں
نہ رہنا چاہیے کہ عورت پارسا ہے ۔عرق النساء بیماری بڑی تکلیف دہ ہے اسے فارسی میں رگِ زن سے موسوم کیا گیا ہے یعنی عورت کی رگ(مارنے والی رگ)اسی سے عورت سے لاحق ہونے والی تکلیف کا اندازہ کرلو ۔اے مرد توعورت کی حالت تنگ دستی میں نیک پاک ہونے کا خیال مت کر اورخوش حالی میں اس کے فاسقہ ہونے کا دھیان رکھ کیونکہ بھرے گھر میں چورآتا ہے۔ ان شَکَرْ لبوں کے گرد بہت مکھیاں ہیں اُن کو ضرور روکنے کے لیے مگس داں درکار ہے۔جوانی میں عورت بُرا کام کربیٹھتی ہے مگر بڑھاپے میں سوچتی ہے کہ میں نے ایسا ملامت کاکام کیوں کیا اورجو عورت آسودگی میں برے کاموں سے بچی رہے وہ اپنی دین کو بچالیتی ہے جولذت میں غرق ہوجائے وہ خود بھی خراب ہوتی ہے اس کا خانہ بھی خراب ہوتا ہے جب کسی کا پاک بدن شراب سے آلودہ ہوجائے تو درودیوار سے حریف پہنچ جاتے ہیں خواہ حجرے ہی میں بیٹھ کر دورِ جام چلے ۔اس کی بُو پڑوس میں پھیل جاتی ہے شیطانوں سے شہر بھر اپڑا ہے گھرکوقفل لگا کر چابی گم کردو تاکہ خطرئہ فساد نہ رہے کہ پردہ نشینوں پر جب کوئی دِقّت آتی ہے بے پردگی کی وجہ سے ہی آتی ہے۔
اگر عورت چاہتی ہے کہ کوئی اس کو طعنہ نہ دے تونامحرموں سے پردہ رکھے جس کھانے پر سر پوش نہ ہو وہ مکھیوںاورچیونٹیوں سے کب بچ سکتا ہے ۔اگر دیگ کا منہ بند کرکے نہ سوئیں تونعمت کتّے بلی سے کس طرح محفوظ رہ سکتی ہے۔اگر عورت حُسن نمائی کرکے فاسقوں کے کانوں کو شیفتہ نہ کرے تو فرشتے اُس پر قربان ہوں اگر عورت کا روپوش نظرِ بیگانے سے پاک رہے توا ُسے بزرگ اپنے کلاہ کا ابرہ بنالیں ،اُوڑھنی کا ایک پیچ فاجرو فاسق فقیہوں کی دوپگڑیوں سے بہتر ہے ۔
عورتوں کی جلوہ گری اورزیب نمائی یہ ہونی چاہیے کہ وہ مخلوقِ خدا کی شرم اورخدا کے خوف کے پردے میں رہیں اورآدمی ان کی پاکیزگی کے مدح ہوں اگر وہ چاہتی ہے کہ ان کی ہمزادیں (ہم جولیاں)ان کی ہنسی نہ اُڑائیں تووہ نہ صرف بیگانوں سے بلکہ اپنوں سے بھی پردہ کریں۔وہ سورج کی طرح اپنی چمک قائم رکھیں اورہر وقت حیا میں رہیں۔ جس نے نقاب اُلٹ دی گویااس نے اپنی آبرو گنوا دی۔کثرت عصیاں کے سبب پردئہ عصمت بہت جلد فرسودہ ہوجاتاہے انسان بدکاری جتنی چھپا کر کرے آخر ظاہر ہوجاتی ہے اوربدکار مرد بدی کرکے اُسے
مشہورکرنا فخر کی بات سمجھتے ہیںاور ساتھ ہی عورتوں کی پردہ دری کے مرتکب ہوتے ہیں ۔بری عورتوں کی شکل ان کی تباہی کی شہادت دینے لگتی ہے۔جب ستار کو بغل میں دبا کر چھیڑتے ہیں تواس کے تار چغلی کرنے لگتے ہیں کہ وہ بغلی میں دبائی گئی ہے۔ اسی طرح دف کا حال ہے وہ پردہ بندہوکر بیٹھتی ہے مگر اس کا پردہ ہی دفِ زن کی غمازی کرتا ہے برائی خواہ دس پردوں میں کی جائے آخر آشکارا ہوجاتی ہے۔
عورت کوشوہر کے سوا کسی کے سامنے نمائش نہیں کرنی چاہیے خواہ وہ اس کا ماموں ہی کیوںنہ ہو ۔ اس طرح بھائی کے سامنے خلوت میں نہیں بیٹھنا چاہیے اس کے سامنے چاند وسورج بھی آجائے تو اس سے منہ موڑ لے کیوں کہ سایا بھی نامحرم ہوتا ہے ۔عورت کو اپنے شوہر اورکنیزوں کے سواکسی سے بات نہیں کرنا چاہیے تاکہ فاسقوں کے فتنوں میں گرفتار نہ ہو۔ مرد کے لئے بدخواہی عیب ہے اوراگر بدخو عورت خاوند کے پلے پڑ جائے توگھر دوزخ بن جاتا ہے۔نیک عورت وہ ہے جو نادار شوہر کے ساتھ قناعت اختیار کرکے گزارا کرے اگر اس حال میں بھی وہ زیور کی تمنا کرے توپیشانی کے پسینے سے در اوردُوک (تکلے)کے دھاگے سے (زیور) پیدا کرے ، عورت کنگھی اورشیشے کاخیال چھوڑ دے شوہر کے چہرے کوآئینہ تصور کرے اگر عورت تنہا بسر کرتی توکیا بہتر تھا مگر فطرت کے آگے مجبور ہے ۔
بہرحال اسے ایک شوہر پرقناعت کرنی چاہیے ۔ایک مادہ اوردس دس نر،کتیا اورسؤر نی (خنزیر کی مادہ ) کاکام ہے ۔ انسان کا نہیں۔اگر انسان آنکھ کو اس طرح رکھے کہ جس طرح موتی سیپ میں تو کبھی مصیبت کے تیر کانشانہ نہ بنے۔دیکھتے نہیں کہ دیدئہ بادام جب تک پردے میں رہے تو محفوظ ہے لیکن جب پردہ ٹوٹ جائے تو ہر منہ میں آکر پس جاتا ہے اسی طرح غنچہ جب تک بند رہے محفوظ ہے ہوا اس کے گریبان میں نہیں گھس سکتی ۔مگر جوں ہی اس میں سوئی کے ناکے کے برابر سوراخ ہوتوہَوااس میں داخل ہو کر اسے چاک کردے۔
بوڑھی عورت کا سرمے سے آنکھ سیاہ کرنا گائے کی طرح زاغ (کوّا )چشم ہونا ہے جس کی
آنکھیںمرنے پرکالی ہوجا تی ہیں یعنی ایسا کرنا اس کے لئے موت ہے۔ ہر چیز پانی سے پاک ہوجا تی ہے مگر بدکارعورت کوخاک ہی پاک کر سکتی ہے (یعنی موت)بھیڑجب خود چل کر بھیڑئے کے پاس آجائے تو رکھوالا کتّا کیا کرے ۔جس عورت کو خدا نے ادب کی نعمت بخشی ہو وہ جان دے دے گی مگر برائی کے قریب نہ جائے گی۔ ایک بادشاہ نے اپنے اونچے محل سے نظر دوڑائی تو اسے ایک مکان میں نہایت خوبرو ،خوبصورت عورت دکھائی دی اس کادل بیقرار ہوگیا اسکے حسن و جمال پر مفتون ہوگیا۔ پہلے نامہ و پیام سے کام نکالنا چاہا ۔ مگر اس عفیفہ نے اپنی پاکدامنی کی وجہ سے توجہ نہ دی آخر اس نے حکم دیا کہ اس سرکش عورت کو پکڑ کر لائو ۔جب وہ محل میں آئی دل کشی اور دل ہوشربائی کے سارے سامان جمع کر کے کہ اس پا کیزہ عورت کو اس کام پر آمادہ کرے جس کی تعلیم با دشاہ کے نفس نے دی تھی ۔ عیش ونشاط کے تمام سامان فراہم ،نفسانی جذبات اپنے شباب پر اور پیار کی مسلح فو ج سامنے ، تنہائی کا عالم ، سارے دروازے اور کھڑکیاں بند ،تمام خطروں اور کل اندیشوںسے بظاہر اطمینان ، پھر جوانی قیامت کا روپ بھرے کھڑی ، شبا بی قوت وطاقت کا سمندر موجزن ،جنسی میلان کا صبر آزما تلا طم ایسے وقت میں اپنے دیدئہ پُر حسرت کو پُر آب کر کے کہا اے صنم تیری آنکھو ں نے میری نیند کھودی ہے۔ عورت نے عر ض کیا ۔میں ایک غریب بندی ! آپ شہنشاہ ۔
تا جو ر ا ں ر ا بگد ا یا ں چہ کا ر
یعنی بادشا ہوں کو فقیروں سے کیا کام
بادشاہ نے جواب دیا تو حسن کی شہزادی ہے اور میں گدائے حُسن (یعنی حسن کے دروازے کا فقیر ) خدارا سُوئے مشتاقے نگاہے (خدا کے لئے مشتاق کی طرف ایک نظر دیکھئے )
آسمان دیکھ رہا تھا ۔زمین دیکھ رہی تھی ۔ملائکہ دیکھ رہے تھے کہ اس خاتون کا دامنِ عفت کدھر جا تا ہے ۔ برائی کی طرف بلا نے میں شیطا نی قوت نے کو شش کا کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا تھا مگر اللہ کی بندی سب دیکھتی ہے اور چاہتی تو جو کچھ بادشاہ چاہتا تھا کر گزر تی۔ عورت نے کہا بادشاہ سلامت !ذرا صبر کیجئے میںدوسرے کمرے میںآراستہ ہو کر حاضر ہو تی ہوں۔ غرض یہ کہ وہ دوسرے کمرے میں گئی اور دونوںآنکھیں نکال کرایک طشت میںرکھیںاور شاہی خدمتگار کے
ہاتھ خدمت میںارسال کر کے کہلا بھیجا کہ جس چیز کی بڑی چاہ تھی وہ پیشِ حضور ہے۔ ایک کمزور ارادے والی عورت کو اپنی ہوسناکیوںکا تختہ مشق بناتا ہے تونے یہ جرأت کی، رب کا احسان بھول گیا ۔اور اس کی دی ہوئی قوت اس کے ہی حکم کیخلاف استعمال کرنا چاہتاتھا اسی کا نام شیطانیت ہے ۔ شیطان کا قصو ر ہی ا س کے سوا کیا ہے توانائیوں کا جو ذخیرہ تجھے خالقِ کائنات کی طرف سے عطا ہوا ہے بجائے مرضیٔ حق کے ان کواُس کی مرضی کے خلاف استعمال کرتا ہے ۔بادشاہ آنکھوں کو دیکھ کر بڑا شرمندہ ہوا۔
اس پاک دامن خاتون کو بصد معذرت وعطائے انعام عزت واحترام کے ساتھ گھر پہنچادیا ۔ یہ تمام مضمون بیان کرکے حضرت امیر خسر و رحمۃ اللہ علیہ پھر اپنی بیٹی سے مخاطب ہو کرفرماتے ہیں ؎
اے کہ توئی دیدئہ خسرو ہنوز
باش بریں گونہ بہ عصمت صبور
یعنی میری نورِ نظر تمہیں بھی اسی طرح باعصمت رہنا ہوگا ۔خاتون نے جس جوشی،جس عزم اوراستقلال سے جرأتِ ایمانی کا مظاہرہ کیا اُس کی نظیر مشکل سے ملے گی ۔
خاتون کوتقویٰ نے اپنے کنارۂ عاطفت میں جگہ دی ۔یہی وہ چیز ہے جو ایک مردہ صنف نازک کے قالب میں جان ڈال سکتی ہے۔
تبصرۂ اویسی غفرلہٗ
مسلمان عورتیں زمانہ کے حالات سے بدل رہی ہیں ان کے سامنے سعادت مند خاتون کاکوئی اسوہ موجود نہیں اس لئے ان کا راہ سے ہٹنا دوراز عقل نہیںلیکن اگر میری مائیں اوربہنیں حضرت امیر خسرو کی اس نصیحت کو اپنی زندگی کانمونہ بنائیں توانہیں معلوم ہوگا کہ دین داری اورخدا ترسی ،پاکیزگی دنیا وآخرت کی نیکیوں کو اپنے آنچل میں سمیٹ سکتی ہیں۔یہی وہ چیز ہے جو صنفِ نازک کے عظیم الشان گلستان کے لئے چمن آرا ہوسکتی ہے۔جب اس کے باغ تمدن میں بہار آئے گی توایک نیا رنگ وبو پیدا ہوگا ۔

Exit mobile version