حکایت نمبر371: اجنبی مسافروں کی زبردست خیرخواہی
حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن جَعْفَر علیہ رحمۃاللہ الرَّب کے غلام بُدَیْح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ” ایک سفر میں، مَیں حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن جَعْفَر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ تھا ۔ ہم نے بالوں سے بنے ایک خیمے کے قریب قیام کیا جو قبیلہ بنی عُذْرَہ کے ایک شخص کا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص عمدہ اونٹنی لے کر ہمارے پاس آیا اور کہا:” اے قافلے والو! اگر تمہارے پاس چُھری ہو تو مجھے دو۔” ہم نے اسے چُھری دی ،اس نے فوراً اپنی اونٹنی کو” نَحْر(یعنی ذَبح )” کیا اور کہا :” میرے بھائیو! یہ گوشت تمہارے لئے ہے۔” اتنا کہہ کر وہ چلا گیا ۔ ہم سب نے سیر ہو کرگوشت کھایا لیکن پھر بھی بہت سابچ گیا۔ دو سرے دن وہی شخص ایک اور بہترین اونٹنی لے کر آیا اور کہا :” اے لوگو ! مجھے چُھری دو ۔”ہم نے کہا:” ہمارے پاس کل کا گو شت کافی مقدار میں موجود ہے، تم یہ اونٹنی ذبح نہ کرو۔”اس نے کہا:”تم میرے مہمان ہوکر باسی گوشت کھاؤ، یہ نہیں ہوسکتا، لاؤ!مجھے چُھری دو۔” ہم نے چُھری دے دی۔ اس نے اونٹنی نحر کی اور کہا:” کھاؤ !یہ سب تمہارے لئے ہے ۔”تیسرے دن پھرایک اونٹنی لے کر آیا اور کہا:” اے اہلِ قافلہ! مجھے چُھری دو۔” ہم نے کہا :”اے بھائی! ابھی ہمارے پاس بہت گوشت ہے، تم یہ اونٹنی ذبح نہ کرو ۔”اس نے کہا:” یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم میرے مہمان ہو کر باسی گوشت کھاؤ، یہ مُرُوَّت کے خلاف ہے ، لاؤ! چُھری دو ۔” ہم نے چُھری دی تو اس نے فوراً اونٹنی نحر کی اور کہا: ” کھاؤ! یہ سب تمہارے لئے ہے ۔ ‘ ‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
سب قافلے والے اس عُذْرِی کی مہمان نوازی دیکھ کر بہت حیران ہو رہے تھے کہ اس نے تین دن متواتر ہماری ضیافت کے لئے عمدہ تر ین اونٹنیاں ذبح کیں ۔یہ واقعی تعجب خیز بات تھی ۔ بہر حال اب کوچ کا وقت ہوچکا تھا۔ہم نے تیاری شرو ع کر دی۔ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن جَعْفَر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے خادم سے کہا :” تمہارے پاس کیا کچھ ہے؟” اس نے کہا:” حضور! کپڑوں کی ایک گٹھڑی اور چار سو دینار ۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :” جاؤ! یہ سب چیزیں ہمارے اس عُذْرِی میزبان کو تحفتاً دے آؤ ۔” خادم کپڑوں کی گٹھڑی اور چار سودینار لے کر خیمے کی جانب گیا۔ وہا ں ایک کنیز ملی، خادم نے سامان اس کی طرف بڑھاتے ہوئے
کہا: ”یہ ہمارے آقا عبداللہ بن جَعْفَررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی جانب سے آپ لوگوں کے لئے ہدیہ ہے ۔”
کنیزنے کہا:”یہ سامان واپس لے جاؤ، ہم لوگ مہمان نوازی پر قیمت نہیں لیتے ۔” خادم واپس آگیا اور حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن جَعْفَر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو صورتحال سے آگاہ کیا ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” دوبارہ جاؤ !اگر وہ یہ مال قبول کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ خیمے کے پاس رکھ کرواپس چلے آنا ۔” خادم دوبارہ آیا تو لونڈی نے سامان لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا:”واپس لے جاؤ! اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اس میں برکت دے۔ ہم مہمان نوازی کی قیمت نہیں لیتے ۔خدا را! جلدی سے چلے جاؤ، اگر ہمارے شیخ نے تمہیں یہاں دیکھ لیاتو بہت ناراض ہوں گے ۔”خادم کپڑوں کی گٹھڑی اور دیناروں کی تھیلیاں خیمے کے قریب رکھ کر واپس آگیا ۔ ہم نے سفر شروع کردیاا بھی تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ اپنے پیچھے خاک اڑتی دیکھی ۔ کوئی سوار بڑی تیزی سے ہماری جانب چلا آرہا تھا ۔ جب قریب آیاتووہ ہمارا عُذْرِی میزبان تھا ۔اس نے دینار اور کپڑے ہماری جانب پھینکے اور فوراً واپس پلٹ گیا۔ ہم اسے جاتا دیکھتے رہے لیکن اس عظیم میزبان نے ایک مرتبہ بھی پیچھے مڑکر نہ دیکھا ۔ اس عُذْرِی میزبان کی مہمان نوازی کا انوکھا طر زِ عمل دیکھ کر حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن جَعْفَر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بے اختیار پکار اُٹھے:” ہم پر آج تک کوئی غالب نہ آسکاسوائے اس عُذْرِی میزبان کے ، کہ آج یہ ہم پر سبقت لے گیا۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)