احسان فراموش

حکایت نمبر444: احسان فراموش

حضرتِ سیِّدُنا عبید اللہ بن محمدتَمِیْمِی علیہ رحمۃ اللہ الغنی سے منقول ہے: ” ایک غریب و نادار شخص کسی کریم ونیک شخص کے پاس گیاتواس نے پریشانیاں دور کر کے اسے خوشحال و غنی کردیا۔ لیکن وہ ناشُکرا کریم کی کثیر عطاؤں کے باوجود ناشکری کرتا۔پھر ایک دن شہرکے امیر کے پاس جاکر شکایت کی:”میں جس کے پاس رہتا ہوں اس میں یہ یہ برائی ہے ،وہ تو بہت ہی بُرا ہے الغرض
اس نے بہت سی ایسی ایسی باتیں اس شخص کے بارے میں کہیں جو اس میں بالکل نہ تھیں بلکہ وہ تو ان تمام برائیوں سے بہت زیادہ دور رہتا تھا۔ شکایت کرنے کے بعد جب وہ بے مُرَوَّت چلا گیا تو حاکمِ شہر نے اس کریم کو بلاکرکہا:” فلاں شخص نے تمہارے خلاف یہ یہ شکایتیں کی ہیں۔” یہ سن کروہ بہت حیران و پریشان ہو گیا۔حاکم نے کہا:”کیا ہوا، تم اتنا پریشان کیوں ہو گئے؟” اس نے کہا:”مجھے خوف ہے کہ میں نے اس کے ساتھ اچھائی و بھلائی میں کمی کی ہے جبھی تو وہ میری برائی پر آمادہ ہوگیا۔ افسوس! میں اس کی صحیح خدمت نہ کرسکا ۔”حاکم نے جب یہ سنا تو کہا: ”سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ !تم دونوں کی طبیعتوں اور عادتوں میں کتنا تعجب خیز فرق ہے۔تم تو اس پر احسان و شفقت کئے جا رہے ہوجبکہ وہ احسان فراموش ولئیم (یعنی کمینہ)ہے ۔”
پھر نیک وکریم شخص نے حاکم سے واپسی کی اجازت چاہی جب واپس جانے لگا تو حاکم نے کہا:”اللہ تبارک وتعالیٰ آپ جیسے نیک سیرت لوگوں کو لمبی عمر عطا فرمائے اور آپ کا فیض تا دیر جاری وساری رہے ۔( احسان فراموش کی مذمت میں شاعرنے کیا خوب کہا ہے:)

؎ جو اپنے محسنوں کو عیاری دکھاتاہے
نارِ حسد کے شُعلوں کوہر دم بڑھاتا ہے
ایسا لئیم ذلت و خواری اٹھاتاہے
اپنی لگائی آگ میں خود کو جلاتا ہے
لیکن کریم پھر بھی کریمی دکھاتا ہے
گرچہ بُروں کی طرف سے سَو غم اُٹھاتا ہے

Exit mobile version