عقائد

عقائد
ازاعلیٰ حضرت شمس العلما سید مقبول احمدشاہ قادری کشمیری رضی اللہ عنہ
سب
اعمال کا دارومدار ایمان پر ہے خصوصاً نماز،روزہ وغیر کااگر ایمان نہیں تو
نمازرزہ بیکارہے۔  اسے کہتے ہیں کہ اگرسچے دل سے ان باتوں کی تصدیق کرے
جوضروریات دین میں سے ہیں۔اوراگرکسی ایک ضروریات دین کے انکار کرنے
کوکفرکہتے ہیں۔

اگرچہ
باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتاہو ضروریات دین ومسائل ہیں جن کو ہرخاص
وعام جانتاہو۔جیساکہ اللہ عزوجل کی وحدانیت ،انبیاکی نبوت، جنت
ونار،حشرونشروغیرہ مثلاًیہ اعتقاد کہ حضورﷺخاتم النبین ہیں۔ عوام سے مراد
وہ مسلمان ہیں۔جوطبقہ علمامیں نہ شریک کئے جاتے ہوں۔مگرعلماکی صحبت سے
شرفیاب ہوں۔مسائل علمی سے ذوق رکھتے ہوں۔نہ وہ جنگل اورپہاڑوں کے رہنے والے
ہوں جو کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے ایسے  مسلمانوں کے لئے یہ بات ضروری
ہے کہ ضروریات دین کے منکرنہ ہوں اوریہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ اسلام میں
جوکچھ ہے حق ہے۔ان پراعمالِ بدن اصلاً جزوایمان نہیں ہے۔مسلمان ہونے کے لئے
یہ بھی شرط ہے کہ زبان سے کسی ایسی چیزکاانکارنہ کرے جوضروریات دین ہے

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اگرچہ باقی باتوں کواقرارکرتاہو۔اگرچہ وہ یہ کہے کہ یہ صرف زبان سے انکارہے
دل سے نہیں۔کہ بلااکراح شرعی مسلمان کلمۂ کفرصادرنہیں کرسکتا۔وہی شخص
ایسی بات منہ پرلائے گا جس کے دل میں اتنی ہی وقعت ہے کہ جب چاہاانکارکردیا
۔ ایمان توایسی تصدیق ہے جس کے خلاف اصلاً گنجائش نہیں۔
اعتقاد
کے متعلق چندمسائل مختصراً لکھ دینا مناسب معلوم ہوتاہے۔وہ مندرجہ ذیل
ہیں۔ہرسنی مسلمان کولام ہے ان کوحفظ کرے خواہ مردہو یاعورت۔

عقیدہ1۔اللہ
ایک ہے کوئی اس کاشریک نہیں۔ نہ ذات میں نہ صفات میں،۔نہ افعال میں نہ
احکا م میں نہ اسماع میں۔عدم محال، قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے ازلی کےبھی
یہی معنی ہیں۔ہمیشہ رہے گا ابدی بھی کہتے ہیں۔وہی اس کامستحق ہے کہ اس کی
عبادت اورپرستش کی جائے۔عقیدہ۔ وہ بے پردہ ہے کسی کامحتاج نہیں۔تمام عالم
اس کامحتاج ہے۔عقیدہ۔اس کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر۔یعنی صفات اسی ذات
کانام ہو۔ایسانہیں اورنہ اس سے کسی طرح وجود میں جدا ہوسکیں۔کہ نفس ذات
کامقتضیٰ ہواورعین ذات کولازم ہے۔عقیدہ۔جس طرح سے اس کی ذت قدیم  ازلی،ابدی
ہے۔صفات بھی قدیم ،ازلی ابدی ہیں۔عقیدہ۔اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا
ساراجہاں حادث ہے یعنی پلے نہ تھا پھرموجودہوا۔عقیدہ۔صفاتِ الٰہی کوجومخلوق
کہے یاحادث بتائے وہ گمراہ اوربددین ہے۔عقیدہ جوعالم میں کسی شئے کوقدیم
مانے یااس کی حدوث میں شک کرے کافرہے۔عقیدہ۔وہ ہرکمال وخوبی کاجامع ہے
اورہراس چیزسے جس میں عیب ونقصان ہے پاک ہے۔عقیدہ۔جس بات میں کمال نہ ہووہ
بھی اس کے لئے محال ہے۔مثلاًجھوٹ،دغا،خیانت،ظلم،جہل وغیرہ عیوب سے منزہ
ہے۔مثلاً یہ کہناکہ جھوٹ پرقدرت ہے بایں معنیٰ کہ وہ جھوٹ بول سکتاہے محال
کوممکن ٹھہرانا اورخداکوعیبی بنانابلکہ خداسےانکارکرناہے اور سمجھنا ہ محال
پرقادر نہ ہوگاتوقدرت ناقص ہوجائے گی۔باطل محض کہ اس میںقدرت کاکیا
نقصان؟  نقصان تو  اس محال کاہے کہ تعلق قدرت کی اس میں صلاحیت نہیں۔عقیدہ۔
حیات،قدرت،سننا،دیکھنا،کلام،علم،ارادہ اس کے صفات ذاتیہ ہیں۔مگرکان
،آنکھ، زبان سے اس کاسننا دیکھنا کلام کرنانہیں کہ یہ اجسام ہیں۔اجسام سے
وہ پاک ہے۔عقیدہ ۔مثل صفات کے کلام بھی قدیم ہے۔حادث مخلوق نہیں۔جوقرآن
عظیم کومخلوق بتائے۔ہمارے امام اعظم رضی اللہ عنہ اوردیگرائمہ رضی اللہ
عنہم نے انہیں کافرکہابلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی اس کی تکفیرثابت
ہے۔عقیدہ۔ اس کاکلام آوازسے پاک ہے۔یہ قرآن عظیم جس کی 


تلاوت
کرتے ہیں،جومصاحف میں لکھتے ہیں۔اس کاکلام قدیم بلاصوت ہے۔یہ ہمارا
پڑھنالکھنا اوریہ آوازحادث یعنی ہماراپڑھناحادث اورجوہم نےپڑھا قدیم،
اورہمارالکھنا حادث اورجو لکھاقدیم اورہماراسننا حدث اورسنا قدیم،
عقیدہ۔غیب الشہادت سب کوجانتاہے علم ذاتی اس کاخاصہ ہے۔جوشخص علم ذاتی ،غیب
خواہ شہادت کاغیرخدا کے لئے ثابت کرے کافرہے ۔علم ذاتی یہ ہے کہ بے دیئے
خودحاصل ہو۔

عقیدہ۔ہربھلائی
اوربرئی اس نے اپنے علم ازلی کے موافق مقدرفرمادی ہے ۔جیساہونے والاتھا
اورجیسا کرنے والے تھے اپنے علم سے جانا اوروہی لکھ لیاتویہ نہیں کہ جیسااس
نے لکھ دیا

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ویساہم کوکرناپڑتابلکہ جیساہم کرنے والے تھے۔ویسااس نے لکھ دیا۔زیدکے ذمہ
برائی لکھی۔اس لئے زیدبرائی کرنے والاتھا۔گرزیدبھلائی کرنے والا ہوتاتووہ
اس کے لئے بھلائی لکھتا۔اس کے علم یااس کے لکھ دینے سے کسی کومجبور نہیں
کردیا۔تقدیرکاانکارکرنے والوں کونبی کریمﷺ نے اس امت کامجوس
بتلایا۔عقیدہ۔قضاتین قسم پرہے۔مبرم حقیقی، علم الہٰی میں کسی شئے پر معلق
نہیں۔اورمعلق محض صحف ملائکہ میں کسی شئے پراس کا معلق ہونا
ظاہرفرمادیاگیااورمعلق شبیہ بمبرم صحف ملائکہ میں اس کی تعلیق مذکور نہیں
وہ علم الہٰی میں تعلیق ہے۔وہ جو مبرم حقیقی ہے اس کی تبدیلی ناممکن
ہے۔باقی دوقسموں کی تبدیلی ممکن ہے۔اس مبرم حقیقی کے متعلق نبی کریم ﷺ نے
ارشادفرمایا’’ان الدعا یردالقضا وباہ ماابرم ۔بیشک دعاقضامبرم کوٹال دیتی
ہے۔‘‘
 اسی
قضامبرم غیرحقیقی کے متعلق حضرت سیدناغوث الاعظم فرماتے ہیں۔’’میں قضائے
مبرم کورد کردیتاہوں‘‘اورجوقضامعلق ہے اس تک اکثراولیا کرام کی رسائی ہوتی
ہے۔ان کی دعا سے ان کی ہمت سے ٹل جاتی ہے۔

Exit mobile version