اچھے برے نام

اچھے برے نام

(۱)’’عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَحَبَّ أَسْمَائِکُمْ إِلَی اللَّہِ عَبْدُ اللَّہِ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ‘‘۔ (1)
حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ما نے کہا کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ خدائے تعالی کے نزدیک تمہارے ناموں میں بہترین نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہے ۔ (مسلم)
(۲)’’ عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَسْمَائِکُمْ وَأَسْمَائِ آبَائِکُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَائَکُمْ‘‘۔ (2)
حضرت ابودرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ قیامت کے دن تم کو تمہارے نام اور تمہارے باپوں کے نام سے پکاراجائے گا۔ لہذا اپنے نام اچھے رکھو۔ (احمد، ابوداود)
(۳)’’ عَنْ أَبِی وَہْبِنِ الْجُشَمِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَسَمَّوْا بِأَسْمَاء الْأَنْبِیَاء ‘‘۔ (3)
حضرت ابووہب جشمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا کہ انبیاء کے ناموں پر نام رکھو۔ (ابوداود)
(۴)’’عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمُّوْا بِاِسْمِیْ‘‘۔ (4)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ سرکار ِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میرے نام پر نام رکھو۔
(بخاری، مسلم)

(۵)’’عَن عَبْدِ اللَّہِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ وُلِدَ لَہُ ثَلاثَۃُ أَوْلَادٍ فَلَمْ یُسَمِّ أَحَدًا مِنْہُمْ مُحَمَّدًا فَقَدْ جَہلَ‘‘۔ (1)
حضرت عبداﷲ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ما نے کہا کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا کہ جس شخص کے تین بیٹے پیدا ہوں اور وہ ان میں سے کسی کا نام بھی محمد نہ رکھے تو وہ بالیقین ( ایمان و عشق) کے تقاضے سے جاہل ہے ۔ (طبرانی کبیر)
(۶)’’ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُغَیِّرُ الاسْمَ الْقَبِیحَ‘‘۔ (2)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ انے فرمایا کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم برے نام کو ( اچھے نام سے ) بدل دیا کرتے تھے ۔ (ترمذی)
(۷)’’عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ بِنْتًا لِعُمَرَ یُقَالُ لَہُ عَاصِیَۃُ فَسَمَّاہَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمِیلَۃَ‘‘۔ (3)
حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ما سے روایت ہے کہ حضرت فاروق اعظم کی ایک صاحبز ادی تھیں جن کا نام عاصیہ تھا رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے ان کا نام بدل کر جمیلہ رکھ دیا۔ (مسلم)

اِنتباہ :

(۱)…جس کا نام عبدالرحمن ، عبدالخالق ، عبدالمعبود ، عبدالقدوس ، یا عبدالقیوم ہو اسے رحمن ، خالق ، معبود، قدوس، قیوم کہنا حرام ہے اس لیے کہ ان کا اطلاق غیر اللہ پر ناجائز ہے ۔ ہاں اگر عبدالرحیم ، عبدالکریم ، عبدالعزیز کے قسم کا نام ہو تو رحیم، کریم اور عزیز کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ ان کا اطلاق غیر اللہ پر جائز ہے ۔
(۲)…عبدا لمصطفیٰ ، عبدالرسول ، عبدالنبی نام رکھنا جائز ہے کہ اس نسبت کی شرافت مقصود ہے اور عبودیت کے حقیقی معنی یہاں مقصود نہیں ہیں۔ رہی عبد کی اضافت غیر اﷲ کی طرف تو یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ (4) (بہار شریعت)

(۳)…غلام محمد، غلام علی، غلام حسن ، غلام حسین وغیرہ جن میں انبیاء ، صحابہ یا اولیائے کرام کے نام کی طرف غلام کی اضافت کرکے نام رکھا جائے جائز ہے ۔ اسی طرح محمد بخش ، نبی بخش، پیر بخش ، علی بخش، حسین بخش وغیرہ جن میں کسی نبی یا ولی کے نام کے ساتھ بخش کا لفظ ملایا گیا ہو جائز ہے ۔ (1) (بہار شریعت)
(۴)…محمدنبی، احمد نبی، محمد رسول ، رسول اللہ، نبی اللہ یا نبی الزمان نام رکھنا حرام ہے کہ ان میں حقیقۃً ادعائے نبوت نہ ہونا مسلّم ورنہ خالص کفر ہوتا ۔ مگرصورتِ ادّعا ضرور ہے اور وہ یقیناً حرام ہے ۔ (2)
(احکام شریعت، بہار شریعت)
(۵)…انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور اولیائے عظام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی بیویوں اور لڑکیوں نیز صحابیات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ن کا مبارک سنجیدہ اور پروقار نام چھوڑ کر آج کل لوگوں نے بازاری عورتوں کے بھڑک دار نام پر اپنی لڑکیوں کا نام رکھنا اختیار کر لیا ہے ۔ جیسے نجمہ، ثریا ، مشتری اور پروین وغیرہ ۔ ایسا ہر گز نہ چاہیے ۔
٭…٭…٭…٭

Exit mobile version