حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوفہ کوروانگی

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوفہ کوروانگی

    حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاخط آنے کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفیوں کی درخواست قبول فرمانے میں کوئی وجہ تامل وجائے عذرباقی نہیں رہتی تھی، ظاہری شکل تویہ تھی اور حقیقت میں قضاوقدر کے فرمان نافذ ہوچکے تھے شہادت کا وقت نزدیک آچکاتھا، جذبۂ شوق دل کوکھینچ رہا تھا، فدا کاری کے ولولوں نے دل کو بیتاب کردیاتھا، حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سفر عراق کا ارادہ فرمایا اور اسباب سفر درست ہونے لگا، نیاز مندان صادق العقیدت کو اطلاع ہوئی۔ اگرچہ ظاہر میں کوئی مُخَوِّف صورت پیش نظر نہ تھی اور حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خط سے کوفیوں کی عقیدت وارادت اور ہزار ہاآدمیوں کے حلقۂ بیعت میں داخل ہونے کی اطلاع مل چکی، غَدَر اورجنگ کا بظاہر کوئی قرینہ نہ تھالیکن صحابہ کے دل اس وقت حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سفر کو کسی طرح
گوارانہ کرتے تھے اوروہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اصرار کررہے تھے کہ آپ اس سفر کو ملتوی فرمائیں مگر حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی یہ استدعا قبول فرمانے سے مجبور تھے کیونکہ آپ کو خیال تھاکہ کوفیوں کی اتنی بڑی جماعت کا اس قدر اصرار اور ایسی التجاؤں کے ساتھ عرضداشتیں پذیرا، نہ فرماناا ہلِ بیت کے اَخلاق کے شایاں نہیں۔ اس کے علاوہ حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہنچنے پر اہل کوفہ کی طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہونا اور امام کی بیعت کے لئے شوق سے ہاتھ پھیلادینا اور ہزاروں کوفیوں کا داخلِ حلقۂ غلامی ہوجانا، اس پر بھی حضرت امام کا ان کی طرف سے اِغْماض فرمانا اور ان کی ایسی التجاؤں کو جو محض دینی پاسداری کے لیے ہیں، ٹھکرا دینا اور اس مسلمان قوم کی دل شکنی کرنا حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسی طرح گوارانہ ہوا۔ ادھر حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے صفا کِیْش کی استدعا کو بے التفاتی کی نظرسے دیکھنا اور ان کی درخواستِ تشریف آوری کوردفرمادینا بھی حضرت امام پر بہت شاق تھا۔ یہ وجوہ تھے جنہوں نے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سفرِ عراق پر مجبور کیااور آپ کو اپنے حجازی عقیدت مندوں سے معذرت کرنا پڑی۔(1)
    حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر ، حضرت جابر، حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو واقدلیثی اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روکنے میں بہت مصر تھے اور آخر تک وہ یہی کوشش کرتے رہے کہ آپ مکہ مکرمہ سے تشریف نہ لے جائیں لیکن یہ کوششیں کار آمد نہ ہوئیں اورحضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 3ذی الحجہ 60ھ ؁ کواپنے اہل بیت موالی وخدام کل بیاسی (82)نفوس کو ہمراہ
لے کر راہِ عراق اختیارکی۔ مکہ مکرمہ سے اہل بیت رسالت کا یہ چھوٹا سا قافلہ روانہ ہوتا ہے اور دنیا سے سفر کرنے والے بیت اللہ الحرام کا آخری طواف کرکے خانہ کعبہ کے پردوں سے لپٹ لپٹ کرروتے ہیں، ان کی گرم آہوں اور دل ہلادینے والے نالوں نے مکہ مکرمہ کے باشندوں کو مغموم کردیا، مکہ مکرمہ کا بچہ بچہ اہل بیت کے اس قافلہ کو حرم شریف سے رخصت ہوتا دیکھ کر آبدیدہ اور مغموم ہورہاتھا مگر وہ جانبازوں کے میرِ لشکر اور فداکاروں کے قافلہ سالار مردانہ ہمت کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اَثنائے راہ میں ذاتِ عرق کے مقام پر بشیر ابن غالب اسدی بعَزْمِ مکہ مکرمہ کوفہ سے آتے ملے۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے اہل عراق کا حال دریافت کیا، عرض کیا کہ انکے قلوب آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنی امیہ کے ساتھ اورخدا جو چاہتا ہے کرتاہے۔ وَ یَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَآءُ ﴿٪۲۷﴾
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا سچ ہے۔ ایسی ہی گفتگو فرزدق شاعر سے ہوئی۔ بطن ذی الرمہ (نام مقامے) سے روانہ ہونے کے بعد عبداللہ بن مطیع سے ملاقات ہوئی۔ وہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہت درپے ہوئے کہ آپ اس سفر کوترک فرمائیں اور اس میں انہوں نے اندیشے ظاہر کیے۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہُ  لَنَا ۚ
(2) ہمیں وہی مصیبت پہنچ سکتی ہے جو خداوند عالم نے ہمارے لئے مقرر فرمادی۔(3)
   راہ میں حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفیوں کی بد عہدی اورحضرت مسلم کی شہادت کی خبرمل گئی۔ اس وقت آپ کی جماعت میں مختلف رائیں ہوئیں اور ایک مرتبہ آپ نے بھی واپسی کا قصد ظاہر فرمایا لیکن بہت گفتگویوں کے بعد رائے یہی قرار پائی کہ سفر جاری رکھا جائے اور واپسی کا خیال ترک کیاجائے۔
    حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس مشورہ سے اتفاق کیاا ور قافلہ ا ۤگے چل دیا یہاں تک کہ جب کوفہ دو منزل رہ گیا تب آپ کو حربن یزید ریاحی ملا، حر کے ساتھ ابن زیاد کے ایک ہزارہتھیار بند سوار تھے، حرنے حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جناب میں عرض کیا کہ اس کو ابن زیاد نے آپ کی طرف بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ آپ کو اس کے پاس لے چلے، حر نے یہ بھی ظاہر کیا کہ وہ مجبورانہ بادلِ نخواستہ آیاہے اور اس کو آپ کی خمت میں جرأت بہت ناپسند و ناگوار ہے۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حر سے فرمایا کہ میں اس شہر میں خودبخودنہ آیا بلکہ مجھے بلانے کے لئے اہل کوفہ کے متواتر پیام گئے اور لگاتار نامے پہونچتے رہے۔ اے اہل کوفہ! اگر تم اپنے عہد وبیعت پر قائم ہواور تمہیں اپنی زبانوں کا کچھ پاس ہو تو تمہارے شہر میں داخل ہوں ورنہ یہیں سے واپس چلا جاؤں۔حر نے قسم کھا کر کہا کہ ہم کو اس کا کچھ علم نہیں کہ آپ کے پاس التجا نامے اور قاصد بھیجے گئے اور میں نہ آپ کو چھوڑسکتا ہوں اور نہ واپس ہوسکتا ہوں۔
    حر کے دل میں خاندان نبوت اوراہل بیت کی عظمت ضرور تھی اور اس نے نمازوں میں حضرت اما م رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی اقتدا کی لیکن وہ ابن زیاد کے حکم سے مجبور تھااور اس کو یہ اندیشہ بھی تھا کہ وہ اگر حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کوئی مراعات کرے تو ابن زیادپر یہ بات ظاہر ہوکررہے گی کہ ہزار سوار ساتھ ہیں،ایسی صورت میں
 کسی بات کا چھپانا ممکن نہیں اور اگر ابن زیاد کو معلوم ہوا کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ذرا بھی فَرُوْگُذاشْت کی گئی ہے تووہ نہایت سختی کے ساتھ پیش آئے گا۔ اس اندیشہ اورخیال سے حر اپنی بات پراڑارہا یہاں تک کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفہ کی راہ سے ہٹ کر کربلامیں نزول فرمانا پڑا۔
    یہ محرم 61ھ؁ کی دوسری تاریخ تھی۔ آپ نے اس مقام کا نام دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس جگہ کو کربلا کہتے ہیں۔ حضرت امام کربلا سے واقف تھے اور آپ کو معلوم تھا کہ کربلا ہی وہ جگہ ہے جہاں اہلِ بیتِ رسالت کوراہِ حق میں اپنے خون کی ندیاں بہانی ہوں گی۔(1) آپ کو انہیں دنوں میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی، حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات نے آپ کوشہادت کی خبردی اور آپ کے سینۂ مبارک پر دست اقدس رکھ کر دعا فرمائی:  اَللّٰھُمَّ اَعْطِ الْحُسَیْنَ صَبْرًا وَاَجْرًا عجیب وقت ہے کہ سلطان دارین کے نور نظر کو صدہاتمناؤں سے مہمان بناکر بلایاہے، عرضیوں اور درخواستوں کے طومارلگا دئیے ہیں، قاصدوں اور پیاموں کی روز مرہ ڈاک لگ گئی ہے۔ اہل کوفہ راتوں کواپنے مکانوں میں امام کی تشریف آوری خواب میں دیکھتے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے، جماعتیں مدتوں تک صبح سے شام تک حجاز کی سڑک پر بیٹھ کر امام کی آمد کا انتظار کیاکرتی ہیں اور شام کو بادِلِ مَغْموم واپس جاتی ہیں لیکن جب وہ کریم مہمان… اپنے کرم سے ان کی زمین میں ورودفرماتا ہے تو ان ہی کوفیوں کا مسلح لشکر سامنے آتاہے اور نہ شہر میں داخل ہونے دیتا ہے نہ اپنے وطن ہی کو واپس تشریف لے جانے پر راضی ہوتا
ہے۔ یہاں تک کہ اس معز ز مہمان کو مع اپنے اہل بیت کے کھلے میدان میں رختِ اقامت ڈالنا پڑتا ہے اور دشمنان حیا کو غیرت نہیں آتی۔ دنیامیں ایسے معزز مہمان کے ساتھ ایسی بے حمیتی کا سلوک کبھی نہ ہواہوگا جو کوفیوں نے حضرت امام کے ساتھ کیا۔
    یہاں تو ان مسافر انِ بے وطن کا سامان بے ترتیب پڑاہے اور ادھر ہزار سوار کا مسلح لشکر مقابل خیمہ زن ہے جواپنے مہمانوں کو نیزوں کی نوکیں اور تلواروں کی دھاریں دکھا رہاہے اور بجائے آداب میزبانی کے خونخواری پر تلاہواہے۔ دریائے فرات کے قریب دونوں لشکر تھے اور دریائے فرات کا پانی دونوں لشکر وں میں سے کسی کو سیراب نہ کرسکا۔ امام کے لشکر کو تو اس کا ایک قطرہ پہنچنا ہی مشکل ہوگیا اور یزیدی لشکر جتنے آتے گئے ان سب کواہل بیت رسالت کے بے گناہ خون کی پیاس بڑھتی گئی۔ آب فرات سے ان کی تشنگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ ابھی اطمینان سے بیٹھنے اور تکان دورکرنے کی صورت بھی نظرنہ آئی تھی کہ حضرت امام کی خدمت میں ابن زیاد کا ایک مکتوب پہنچا جس میں اس نے حضرت امام سے یزید ناپاک کی بیعت طلب کی تھی۔ حضرت امام نے وہ خط پڑھ کر ڈال دیا اورقاصد سے کہا میرے پاس اس کا کچھ جواب نہیں۔
    ستم ہے ، بلایا تو جاتاہے خود بیعت ہونے کے لئے اور جب وہ کریم بادیہ پیمائی کی مشقتیں برداشت فرماکر تشریف لے آتے ہیں تو ان کو یزید جیسے عیب مجسم شخص کی بیعت پر مجبور کیاجاتاہے جس کی بیعت کو کوئی بھی واقف حال دیندار آدمی گوارا نہیں کرسکتاتھا نہ وہ بیعت کسی طرح جائز تھی۔ امام کوا ن بے حیاؤں کی اس جرأت پر حیرت تھی اور اسی لئے آپ نے فرمایا کہ میرے پاس اس کا کچھ جواب نہیں ہے۔ اس سے ابن زیاد کا طیش اور زیاد ہ ہوگیا اور اس نے مزید عسا کر وافواج ترتیب دئیے اور ان لشکر وں کا
سپہ سالار عمربن سعد کو بنایا جو اس زمانے میں ملک رے کاوالی (گورنر) تھا۔ رے خراسان کا ایک شہر ہے جو آج کل ایران کادارالسلطنت ہے اور اس کوطہران کہتے ہیں۔
    ستم شعار محار بین سب کے سب حضرت امام کی عظمت و فضیلت کو خوب جانتے پہچانتے تھے اور آپ کی جلالت ومرتبت کا ہردل مُعْتَرِف تھا۔ اس وجہ سے ابن سعد نے حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقاتلہ سے گریز کرنی چاہی اور پہلوتہی کی وہ چاہتا تھا کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کے الزام سے وہ بچارہے مگر ابن زیاد نے اسے مجبور کیا کہ اب دوہی صورتیں ہیں یا تورے کی حکومت سے دست بردارہوورنہ امام سے مقابلہ کیاجائے۔ دنیوی حکومت کے لالچ نے اس کو اس جنگ پر آمادہ کردیا جس کو اس وقت وہ ناگوار سمجھتا تھا اور جس کے تصور سے اس کا دل کانپتا تھا۔ آخر کار ابن سعد وہ تمام عساکر وافواج لے کر حضرت امام کے مقابلہ کے لئے روانہ ہوا اور ابن زیاد بد نہاد پیہم و متواتر کُمَک پر کُمَک بھیجتا رہایہاں تک کہ عمرو بن سعد کے پاس بائیس ہزار سوار وپیادہ جمع ہوگئے اور اس نے اس جمعیت کے ساتھ کربلا میں پہونچ کر فرات کے کنارے پڑاؤ کیا اور اپنا مرکز قائم کیا۔(1)
    حیرت ناک بات ہے اور دنیاکی کسی جنگ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ کُل بیاسی تو آدمی ، ان میں بیبیاں بھی، بچے بھی، بیمار بھی ، پھر وہ بھی بارادۂ جنگ نہیں آئے تھے اور انتظام حرب کافی نہ رکھتے تھے۔ ان کے لئے بائیس ہزار کی جرار فوج بھیجی جائے۔ آخر وہ ان بیاسی نفوس مقدسہ کواپنے خیال میں کیا سمجھتے تھے اور ان کی شجاعت وبسالت
کے کیسے کیسے مناظر ان کی آنکھوں نے دیکھے تھے کہ اس چھوٹی سی جماعت کے لئے دوگنی چوگنی دس گنی تو کیا سوگنی تعداد کو بھی کافی نہ سمجھا،بے اندازہ لشکر بھیج دئیے، فوجوں کے پہاڑ لگاڈالے، اس پر بھی دل خوف زدہ ہیں اور جنگ آزماؤں، دلاوروں کے حوصلے پست ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ شیرانِ حق کے حملے کی تاب لانا مشکل ہے مجبوراً یہ تدبیر کرنا پڑی کہ لشکر امام پر پانی بند کیا جائے، پیاس کی شدت اور گرمی کی حدّت سے قُویٰ مضمحل ہوجائیں، ضُعْف انتہا کو پہنچ چکے تب جنگ شروع کی جائے۔ ؎
وہ ریگِ گرم اور وہ دھوپ اور وہ پیاس کی شدت
کریں صبر و تحمل میرِ کوثر ایسے ہوتے ہیں
    اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پانی بند کرنے اور ان کے خونوں کے دریا بہانے کیلئے بے غیرتی سے سامنے آنے والوں میں زیادہ تعدادانھیں بے حیاؤں کی تھی جنہوں نے حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صدہادرخواستیں بھیج کر بلایا تھا اور مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر حضرت امام کی بیعت کی تھی مگر آج دشمنان حمیت و غیرت کو نہ اپنے عہد و بیعت کا پاس تھا نہ اپنی دعوت ومیزبانی کالحاظ۔ فرات کا بے حساب پانی ان سیاہ باطنوں نے خاندانِ رسالت پر بند کردیاتھا۔ اہل بیت کے چھوٹے چھوٹے خورْد سال فاطمی چمن کے نونہال خشک لب، تشنہ َدہان تھے، نادان بچے ایک ایک قطرہ کے لئے تڑپ رہے تھے، نور کی تصویریں پیاس کی شدت میں دم توڑرہی تھیں، بیماروں کے لئے دریاکا کنارا بیابان بنا ہواتھا، آل رسول کولبِ آب پانی میسر نہ آتاتھا، سرِچشمہ تیمم سے نمازیں پڑھنی پڑتی تھیں، اس طرح بے آب ودانہ تین دن گذر گئے، چھوٹے چھوٹے بچے اور بیبیاں سب بھوک و پیاس سے بیتاب و تواں ہوگئے۔
  اس معرکہ ظلم و ستم میں اگرر ستم بھی ہوتا تو اس کے حوصلے پست ہوجاتے اور سرِ نیاز جھکادیتا مگر فرزند ِرسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کو مصائب کا ہجوم جگہ سے نہ ہٹا سکا اور ان کے عزم و استقلال میں فرق نہ آیا، حق وصداقت کا حامی مصیبتوں کی بھیانک گھٹاؤں سے نہ ڈرا اور طوفانِ بلا کے سیلاب سے اس کے پائے ثبات میں جنبش بھی نہ ہوئی، دین کا شیدائی دنیا کی آفتوں کو خیال میں نہ لایا، دس محرم تک یہی بحث رہی کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ یزید کی بیعت کرلیں۔ اگر آپ یزید کی بیعت کرتے تووہ تمام لشکر آپ کے جِلَو میں ہوتا، آپ کا کمال اکرام و احترام کیا جاتا، خزانوں کے منہ کھول دئیے جاتے اور دولت دنیا قدموں پر لٹا دی جاتی مگر جس کا دل حُبِّ دنیاسے خالی ہو اور دنیا کی بے ثباتی کا راز جس پر منکشف ہو وہ اس طلسم پر کب مفتوں ہوتا ہے، جس آنکھ نے حقیقی حسن کے جلوے دیکھے ہوں وہ نمائشی رنگ وروپ پر کیا نظر ڈالے۔
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے راحتِ دنیا کے منہ پر ٹھوکر ماردی اور راہِ حق میں پہونچنے والی مصیبتوں کاخوش دلی سے خیر مقدم کیا اور باوجود اس قدر آفتوں اور بلاؤں کے ناجائز بیعت کاخیال اپنے قلب مبارک میں نہ آنے دیا اور مسلمانوں کی تباہی و بربادی گوارانہ فرمائی، اپنا گھر لٹانا اور اپنے خون بہانا منظور کیا مگر اسلام کی عزت میں فرق آنا برداشت نہ ہوسکا۔(1)
1۔۔۔۔۔۔البدایۃ والنہایۃ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ، صفۃ مخرج الحسین الی العراق،ج۵،
ص۶۶۴۔۶۶۵
1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان:اللہ جو چاہے کرے۔(۱۳، ابرٰہیم:۲۷)
2۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنزالایمان: ہمیں نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دیا۔(پ۱۰،التوبۃ:۵۱)
3۔۔۔۔۔۔البدایۃ والنہایۃ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ، صفۃ مخرج الحسین الی العراق،ج۵،
ص۶۶۸۔۶۷۴ملتقطاً و ملخصاً
والکامل فی التاریخ،سنۃ ستین،ذکر الخبر عن مراسلۃ…الخ، ج۳،ص۳۸۱
1۔۔۔۔۔۔البدایۃ والنہایۃ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ، صفۃ مخرج الحسین الی العراق،ج۵،
ص۶۷۵۔۶۷۷ملتقطاً
والکامل فی التاریخ،سنۃ احدی وستین،ذکر مقتل الحسین ،ج۳،ص۴۰۷۔۴۱۱
۔۔۔۔۔۔البدایۃ والنہایۃ، سنۃ احدی وستین،ج۵، ص۶۷۸۔۶۸۲ملخصاً
والکامل فی التاریخ، سنۃ احدی وستین،ذکر مقتل الحسین،ج۳،ص۴۱۲۔۴۱۶ملخصاً
Exit mobile version