(6) غیر مُسْلِم پر اِنْفِرادی کوشش
حضرت علامہ مولاناسیِّدایوب علی علیہ رحمۃ القوی کابیان ہے کہ”اذانِ ظہر ہوچکی تھی مُفَسِّرِشَہِیرحضرت علامہ مولانا نعیم الدین مرادآبادی علیہ رحمۃاللہ الہادی اور حضرت مولانا رحم الہٰی علیہ رحمۃاللہ القوی، سرکارِ اعلیٰ حضرت ، مجدد دین وملت اِمام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کی خدمتِ بابَرَکت میں حاضرتھے۔ نَماز کی تیاری ہورہی تھی ۔ اتنے میں ایک آرِیہ(یعنی غیرمسلم) آیا اورکہنے لگا:” اگر میرے چند سوالات کے جوابات دے دیئے جائیں تو میں اور میری بیوی بچے سب مسلمان ہوجائيں گے ۔” نامعلوم اُس کے جوابات میں کتنا وقت لگتا ؟ چنانچہ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے فرمایا:”کچھ دیر ٹھہر جاؤ!ابھی نَماز کاوقت ہوگیا ہے، نماز کے بعد اِنْ شا ءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے ہر سوال کا جواب دیاجائے گا۔”
وہ کہنے لگا:” ایک سوال تویہی ہے کہ آپ کے د ین میں عِبادت کے پانچ وقت کیوں مقرر ہیں؟پَرْمِیْشَر( خدا تعالیٰ) کی عبادت جتنی بھی کی جائے اچھی ہی ہے۔” مفسرِشہیر حضرت علامہ مولانا محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ رحمۃاللہ الہادی نے فرمایا:” یہ اعتراض توخود تمہارے اُوپر بھی وارِدہوتاہے ۔”پھر مولانا رحم الہٰی علیہ رحمۃاللہ القوی نے فرمایا: ”تمہارے مذہب کی کتاب” ستیارتھ پرکاش ” میرے مکان پر موجود ہے ابھی منگوا کر دکھا سکتاہوں ۔”الغرض طے پایا کہ پہلے نماز پڑھ لی جائے اتنی دیر میں کتاب بھی آجائے گی پھراِنْ شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس غیر مسلم کے دل سے کُفْرو ضَلَالَت کی گندگی دور کی جائے گی۔ چنانچہ یہ تینوں بُزُرگ حکمِ خداوندی بَجالانے کے لئے مسجد تشریف لے گئے اور وہ غیرمسلم باہر گیٹ کے قریب بیٹھ گیا ۔ نماز کے بعد اس نے یہ سوالات کئے:
(1) اگر قر آن، اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام ہے تو تھوڑا تھوڑا کیوں نازل ہوا ؟ ایک دم کیوں نہ آیا جبکہ خدا تعالیٰ تواسے یکبارگی اتارنے پر قادِر تھا ۔
(2)بقول تمہارے، آپ کے نبی کو معراج کی رات خدا عَزَّوَجَلَّ نے بلایاتھا، اگر وہ واقعی خدا عَزَّوَجَلَّ کے محبوب تھے توپھر دنیا میں واپس کیوں بھیج دیئے گئے؟
(3)عبادت پانچ وقت کے متعلق ستیارتھ پرکاش کی عبارت دیکھنا مشروط ہوئی ۔
اس کے یہ سوال سن کر مبلغِ اسلام اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے
فرمایا:” میں تمہارے سوالوں کے جواب ابھی دیتا ہوں، مگر تم نے جووعدہ کیا ہے اس پر قائم رہنا ۔” کہا: ”ہاں، میں پھر کہتاہوں کہ اگرآپ نے میرے سوالات کے جواب معقول انداز میں دے دئيے تو میں اپنے بیوی بچوں سمیت مسلمان ہو جاؤں گا ۔”یہ سن کر مبلغِ اسلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے : ”تمہارے پہلے سوال کاجواب یہ ہے کہ جو شيئ عین ضرورت کے وقت دستیاب ہوتی ہے ،دل میں اسکی وقعت زیاہ ہوتی ہے اسی لئے کلام پاک کوبتدریج(یعنی درجہ بدرجہ ) نازِل کیاگیا۔ انسان بچے کی صورت میں آتا ہے پھر جوان ہوتا ہے پھر بوڑھا ، اللہ تعالیٰ اسے بوڑھا پیدا کرنے پر بھی قادِرہے پھر بوڑھا پیدا کیوں نہ کیا ؟،انسان کھیتی کرتاہے ،پہلے پودانکلتاہے پھرکچھ عرصہ بعد اس میں بالی آتی ہے اس کے بعد دانہ برآمد ہوتاہے،وہ خدائے بزرگ وبرتر توقادرہے ایکدم غلہ پیدا کر دے پھر ایسا کیوں نہ کرتا؟”اپنے پہلے سوال کا مطمئن کُن جواب سن کر وہ غیرمسلم خاموش ہو گیا۔ مبلغ اسلام کا اندازِ تبلیغ اس کے دل میں گھر کرچکا تھا اسکی دلی کیفیت چہرے سے عیاں تھی۔ پھر کتا ب ” ستیارتھ پرکاش” آگئی جسکے تیسرے باب (تعلیم ) پندرہویں ہیڈنگ میں یہ عبارت موجود تھی :” اگنی ہوتر (یعنی پوجا)صبح شام دوہی وقت کرے ۔”اسی طرح چوتھے باب (خانہ داری ) ہیڈنگ نمبر63میں یہ عبارت موجود تھی ”سندھیا (ہندوؤں کی صبح وشام کی عبادت) دوہی وقت کرنا چاہے ۔”یہ
عبارت سن اور دیکھ کر اسے دوسرے سوال کا جواب بھی مل چکا تھا ۔اب وہ اسلام سے مزید قریب ہورہا تھا لہذا اس نے معراج والے سوال کا جواب چاہا تو مبلغ ِاسلام، عاشقِ خیرالانام اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن کی زبانِ مبارک سے علم و حکمت کے پھول جھڑ نے لگے اور الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے :”معراج والے سوال کے جواب کو یوں سمجھنا چاہے!کہ ایک بادشاہ اپنے ملک کے انتظام کے لئے ایک نائب مُقَرَّرکرتاہے، وہ صوبہ دار یانائب ‘بادشاہ کے حسبِ منشاء خدمات انجام دیتاہے ،بادشاہ اس کی کارگزاریوں سے خوش ہو کر اپنے پاس بلاتاہے اوراِنعام وخِلْعَتِ فاخِرہ عطافرماتا ہے نہ یہ کہ اسے بُلا کر مُعَطَّل کردیتاہے اوراپنے پاس روک لیتا ہے۔” یہ د لنشین کلام سن کر وہ غیر مسلم بے ساختہ پکار اٹھا:” آپ نے مجھے خوب مُطْمَئِن کر دیا، مجھے میرے سب سوالوں کا جواب مل گیا، میں ابھی اپنے بیوی،بچوں کولاتاہوں اورہم سب اپنے باطِل مذہب کو چھوڑ کر دین اسلام میں داخل ہوتے ہیں ۔”
(حیات اعلیٰ حضرت ،ج۱ ،ص۲۸۷، ملخصاَ)
مَدَنی پھول
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے کہ جن مبارک ہستیوں کے سینے خوفِ خدا اور عشقِ مُصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے نُور سے مُنَوَّر ہوتے ہیں اُنکی بارگاہ میں جو بھی آتا ہے خالی ہاتھ نہیں جا تا، گمراہوں کو صراطِ مستقیم کی دولت ملتی
ہے، تشنگانِ علم علومِ نافعہ کے شیریں اورٹھنڈے جاموں سے سیراب ہوتے ہیں، عاشقانِ رسول کا عشق مزید فَروزاں ہوتا ہے،بے عملوں کو اَعمالِ صالحہ کی طرف رغبت ملتی ہے، ناقِص ،کامِل واَکمل بن کر دوسروں کو کامل بنانے میں مصروفِ عمل ہوجاتے ہیں۔
تاریخ کے اَوراق پر مجددِ دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃالرحمن کی سیرت کاباب نہایت درخشاں و تابندہ ہے۔ آپ نے دینِ اسلام کی وہ خدمت کی کہ زمانہ دیکھتاہی رہ گیا۔ آپ کے فُیُوض و بَرَکات سے عرب وعجم مُسْتَفِیْض ہوئے ۔ امام احمد رضا کے نام کے ڈَنکے پوری دنیا میں بجنے لگے۔ یہ اِنہی کا فیض ہے کہ آج کے اس پُرفتن دور میں تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک” دعوت اسلامی” کا مشکبار مدنی ماحول ہر طرف دینِ اسلام کی خوشبو ئیں پھیلارہا ہے۔الحمدللہ عَزَّوَجَلَّ عاشق اعلیٰ حضرت ،شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابو بِلال محمد الیاس عطارقادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کی تعلیمات کے مطابق دینِ مَتِین کی اتنے پیار ے واَحْسَن انداز میں خدمت کر رہے ہیں کہ جس نے بھی اس انداز کو دیکھا وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ” امیر اہلسنّت(دامت برکاتہم العالیہ) واقعی امام اہلسنّت (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)کے عاشقِ صادق ہیں۔” امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی پُرخُلوص، انتھک کوششوں کے نتیجے میں ”دعوتِ اسلامی” بہت کم عرصے میں دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل گئی اور دنیا کے 66سے زائد ممالک میں سنتوں کا پیغام پہنچ
گیا ۔