”بسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم” کے اُنّیس حُرُوف کی نِسبت سی مسجِد کے مُتَعَلّق 19 مَدَنی پھول
مروی ہوا کہ ایک مسجِد اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے حُضُور شکایت کرنے چلی کہ لوگ مجھ میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔ ملائکہ اسے آتے ہوئے ملے اور بولے، ہم ان ( مسجِد میں دنیا کی باتیں کرنے والوں)کے ہَلاک کرنے کو بھیجے گئے ہیں۔ ( فتاویٰ رضویہ ج۱۶ ص۳۱۲)
روایت کیا گیا ہے کہ جو لوگ غیبت کرتے ( جو کہ سخت حرام اور زِنا سے بھی اَشَدّ ہے) اور جو لوگ مسجِد میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ان کے منہ سے گندی بدبو نکلتی ہے جس سے فِرِشتے اللہ عزوجل کے حُضُور ان کی شکایت کرتے ہیں۔” سبحٰنَ اللہ جب مُباح و جائز بات بِلا ضَرورتِ شَرعیّہ کرنے کو مسجِد میں بیٹھنے پر یہ آفَتیں ہیں تو(مسجِد میں) حرام و ناجائز کام کرنے کا کیا حال ہو گا! ( ایضاً )
درزی کواجازت نہیں کہ مسجِد میں بیٹھ کر کپڑے سئیے۔ہاں اگربچّوں کو
روکنے اورمسجِدکی حفاظت کیلئے بیٹھا توحرج نہیں۔اسی طرح کاتِب کو( مسجِد میں ) اُجرت پرکِتابت کرنے کی اجازت نہیں۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۰)
مسجِدکے اندر کسی قسم کاکُوڑاہرگزنہ پھینکیں۔سیِّدُناشیخ عبدُالحق مُحَدِّث دِہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی ”جذبُ الْقُلوب”میں نَقل کرتے ہیں کہ مسجِدمیں اگر خَس (یعنی معمولی سا تنکا یا ذَرّہ) بھی پھینکاجائے تواس سے مسجِدکو اس قَدَرتکلیف پہنچتی ہے جس قَدَر تکلیف انسان کواپنی آنکھ میں خَس (یعنی معمولی ذَرّہ) پڑجانے سے ہوتی ہے۔ (جذبُ الْقُلُوب ص۲۵۷)
مسجِدکی دیوار،اِس کے فَرش،چَٹائی یادَری کے اوپریااس کے نیچے تھوکنا ، ناک سِنکنا،ناک یاکان میں سے مَیل نکال کرلگانا،مسجِدکی دری یا چٹائی سے دھاگہ یا تِنکا وغیرہ نَوچناسب ممنوع ہے۔
ضَرورتاًاپنے رومال وغیرہ سے ناک پُونچھنے میں کوئی مُضایقہ نہیں۔
مسجِد کا کُوڑاجھاڑکرایسی جگہ مت ڈالئے جہاں بے اَدَبی ہو۔
جُوتے اُتارکرمسجِدمیں ساتھ لے جاناچاہیں توگَردوغیرہ باہَر جھاڑ لیں۔ اگر پاؤں کے تَلووں میں گَرد کے ذَرّات لگے ہوں تو اپنے رومال وغیرہ سے پُونچھ کر مسجِد میں داخِل ہوں۔
مسجِد کے وُضو خانے پر وُضو کرنے کے بعدپاؤں وُضوخانے ہی پراچّھی
طرح خشک کر لیجئے۔گیلے پاؤں لیکرچلنے سے مسجدکافرش گندااورد ر یا ں مَیلی اور بدنُما ہوجاتی ہیں۔
اب میرے آقااعلیٰحضرت،امامِ اہلسنّت،مجدّدِ دین وملّت مولٰیناشاہ احمدرضا خان علیہ رحمۃالرحمن کے ملفوظات شریفہ سے بعض آدابِ مسجِد پیش کئے جارہے ہیں:
مسجِد میں دوڑنایازورسے قدم رکھنا،جس سے دَھمک پیداہومنع ہے۔
وُضُوکرنے کے بعد اَعضائے وُضُوسے ایک بھی چِھینٹ پانی فرشِ مسجد پر نہ گرے ۔(یادرکھئے!اعضائے وُضُوسے وُضُوکے پانی کے قطرے فرشِ مسجِدپرگِرانا،ناجائزہے)
مسجِدکے ایک دَرَجے سے دوسرے دَرَجے کے داخِلے کے وَقت(مَثَلًا صحن میں داخل ہوں تب بھی اورصِحن سے اندرونی حصّے میں جائیں جب بھی) سیدھا قدم بڑھایاجائے حَتیّٰ کہ اگر صَف بچھی ہو اس پربھی سیدھاقدم رکھیں اور جب وہاں سے ہٹیں تب بھی سیدھا قدم فرشِ مسجد پر رکھیں(یعنی آتے جاتے ہر بچھی ہوئی صَف پر پہلے سیدھا قدم رکھیں) یا خَطِیب جب مِنبرپر جانے کاارداہ کرے، پہلے سیدھاقدم رکھے اور جب اُترے تو(بھی) سیدھاقدم اُتارے۔
مسجِدمیں اگرچِھینک آئے توکوشِش کریں آہِستہ آوازنکلے اسی طرح
کھانسی ۔ سرکارِمدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسجِدمیں زورکی چھینک کو نا پسند فرماتے۔اِسی طرح ڈَکارکوضَبط کرناچاہیے اورنہ ہو توحَتَّی الْاِمکان آواز دبائی جائے اگرچِہ غیرمسجِدمیں ہو۔خُصُوصاًمجلس میں یاکسی معظَّم ( یعنی بزر گ ) کے سامنے بے تَہْذِیبی ہے۔حدیث میں ہے ،”ایک شخص نے دربارِ اقدس صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ڈَکارلی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”ہم سے اپنی ڈکار دُور رکھ کہ دنیامیں جوزیادہ مدَّت تک پیٹ بھرتے تھے وہ قِیامت کے دن زیادہ مدّت تک بھوکے رہیں گے ۔ ” (شَرحُ السُّنّۃ ج ۷ص۲۹۴حدیث۲۹۴۴) اورجَماہی میں آوازکہیں بھی نہیں نکالنی چاہئے۔اگرچِہ مسجِدسے باہَر تنہا ہو کیونکہ یہ شیَطان کا قَہقَہہ ہے۔ جَماہی جب آئے حَتَّی الاِمْکان منہ بند رکھیں منہ کھولنے سے شیطان منہ میں تھوک دیتاہے ۔ اگر یوں نہ رُکے تو اُوپرکے دانتوں سے نیچے کاہونٹ دبالیں۔اوراس طرح بھی نہ رُکے توحَتَّی الاِمْکان منہ کم کھولیں اور اُلٹا ہاتھ اُلٹی طرف سے منہ پر رکھ لیں ۔چُونکہ جَماہی شیطان کی طرف سے ہے اورانبِیاءِ کرام علیھم الصلٰوۃ والسلام اس سے محفوظ ہیں۔ لہٰذ ا جماہی آئے تویہ تصوُّرکریں کہ ”انبِیاء کرام علیھم الصلٰوۃ والسلام کو جماہی نہیں آتی ۔”اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ فو راً رُک جائیگی۔ (رَدُّالْمُحتار ج۲ ص ۴۱۳)
تَمَسْخُر(مَسخرہ پن) ویسے ہی ممنوع ہے اور مسجِدمیں سخت ناجائز۔
مسجِدمیں ہنسنامَن:ع ہے کہ قبرمیں تاریکی(یعنی اندھیرا)لاتاہے۔موقع کے لحاظ سے تَبَسُّم میں حَرَج نہیں۔
مسجِدکے فرش پرکوئی چیزپھینکی نہ جائے بلکہ آہِستہ سے رکھ دی جائے۔ موسِمِ گرما میں لوگ پنکھاجَھلتے جَھلتے پھینک دیتے ہیں(مسجِدمیں ٹوپی ، چادر وغیرہ بھی نہ پھینکیں اسی طرح چادریا رومال سے فرش اس طرح نہ جھاڑیں کہ آواز پیداہو) یا لکڑی،چَھتری وغیرہ رکھتے وقت دُورسے چھوڑ دیا کرتے ہیں ۔ اِس کی مُمَانَعَت ہے۔غَرَض مسجدکااِحتِرام ہرمسلمان پر فرض ہے۔
مسجِدمیں حَدَث( یعنی رِیح خارِج کرنا)مَنْع ہے ضَرورت ہو تو(جو اعتِکاف میں نہیں ہیں وہ ) باہَرچلے جائیں۔لہٰذامُعتکِف کوچاہیے کہ ایّامِ اعتِکاف میں تھوڑا کھائے، پیٹ ہلکارکھے کہ قَضائے حاجت کے وَقت کے سوا کسی وَقت اِخراجِ رِیح کی حاجت نہ ہو۔وہ اس کے لئے باہَر نہ جاسکے گا۔(البتّہ اِحاطہ مسجِد میں موجود بیتُ الْخَلاء میں رِیح خارِج کرنے کیلئے جاسکتا ہے )
قِبلہ کی طرف پاؤں پھیلاناتوہرجگہ َمن:ع ہے۔مسجِدمیں کسی طرف نہ پھیلائے کہ یہ خِلافِ آدابِ دربار ہے۔حضرتِ ابراہیم بن اَدھم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسجِد میں تَنہابیٹھے تھے ،پاؤں پھیلالیا،گوشہ مسجِدسے ہاتِف نے
آواز دی،”ابراہیم ! بادشاہوں کے حُضُورمیں یوں ہی بیٹھتے ہیں؟ ” مَعاً (یعنی فوراً )پاؤں سمیٹے اورایسے سَمیٹے کہ وَقتِ انتقِال ہی پھیلے۔ (چھوٹے بچوں کوبھی پیار کرتے،اُٹھاتے ،لِٹاتے وقت احتیاط کریں کہ ان کے پاؤں قِبلہ کی طرف نہ ہوں اور مُتاتے(پوٹی کرواتے)وقت بھی ضروری ہے کہ اُس کا رُخ قبلہ کی طرف نہ ہو)
استِعمال شُدہ جُوتا مسجِد میں پہن کرجانا گستاخی وبے ادبی ہے۔ (مُلَخَصًاازالملفوظ حصہ دُوُم ص۳۷۷)