” یا غوثَ الْا عظم ” کے گیارہ حُرُوف کی نِسبت سے افطار کے 11 فضائل
حضرتِ سَیِّدُنا سَہْل بِن سَعْدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایَت ہے کہ بحرو بر
کے بادشاہ ، دو عالم کے شَہَنْشاہ ، اُمّت کے خیر خواہ، آمِنہ کے مہر و ماہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم و رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں،”ہمیشہ لوگ خَیر کے ساتھ رہیں گے جب تک اِفْطَار میں جلدی کرینگے۔”
(صحیح بُخاری ج۱ص۶۴۵حدیث۱۹۵۷)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جیسے ہی غُروبِ آفتاب کا یقین ہوجائے بِلاتاخِیرکَھجوریا پانی وغیرہ سے روزہ کھول لیں اور دُعاء بھی اب روزہ کھول کر مانگیں تاکہ اِفطَار میں کِسی قسم کی تاخِیر نہ ہو ۔
سرکارِ نامدار، دو عالم کے مالِک و مختار ،شَہَنْشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِ مشکبار ہے : ”میری اُمَّت میری سُنَّت پر رہے گی جب تک اِفْطَار میں سِتاروں کا اِنتِظارنہ کرے۔” (الاحسان بترتیب صحیح اِبْنِ حِبان ج ۵ ص ۲۰۹ حدیث ۳۵۰۱)
حضرتِ سَیِّدُنا ابُوہُرَیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایَت ہے،سلطانِ دوجہان، مدینے کے سلطان،رحمتِ عالمیان ، سرورِذیشان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا:”میرے بندوں میں مجھے زیادہ پیارا وہ ہے جو اِفْطَار میں جلدی کرتا ہے۔” ( ترمذی ج۲ص۱۶۴حدیث۷۰۰)
سُبْحٰنَ اللہ ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کاپیارا بننا ہے تو اِفطار کے وَقت کِسی قسم کی مشغُولِیت مت رکھئے ،بس فوراً اِفطَار کرلیجئے۔
حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں،میں نے اللہ کے مَحبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کبھی اس طرح نہیں دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِفْطار سے پہلے نَمازِ مغرِب ادا فرمائی ہو، چاہے ایک گُھونٹ پانی ہی ہوتا۔ (آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس سے اِفْطار فرماتے)۔ (الترغیب والترہیب ج۲ ص۹۱حدیث۹۱)
حضرتِ سَیِّدُنا ابُوہُرَیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایَت ہے کہ سرکارِ والا تبار، بِاِذنِپروردگار دو جہاں کے مالِک ومختار، شَہَنشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:” یہ دِین ہمیشہ غالِب رہے گاجب تک لوگ اِفْطَار میں جلدی کرتے رہیں گے کہ یَہُود و نَصاریٰ تاخِیر کرتے ہیں۔” (سنن ابوداو،دج۲ ص۴۴۶حدیث۲۳۵۳)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!اس حدیثِ پاک میں بھی اِفْطَار میں تاخِیر کرنے پر ناپسند یدَگی کا اِظہار کیا گیا ہے۔اور اِفْطَار میں تاخِیر کرنا
چُونکہ یَہُودو نَصاریٰ کا فِعل ہے اِس لئے اِن کی مُشابَہَت (یعنی نَقْل) سے روکا گیا ہے۔
حضرتِ سَیِّدُنا زَید بِن خالدجُھَنِی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایَت ہے کہ تاجدارِ مدینہ منوّرہ، سلطانِ مکّہ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
مَنْ جَھَّزَ غَازِیاً اَوْحَاجًّا اَوْ خَلَفَہ ٗ فِیْ اَھْلِہٖ اَوْ فَطَّرَصَائِماً کَانَ لَہ ٗ مِثْلُ اَجْرِہِ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّنْقُصَ مِنْ اُجُوْ رِھِمْ شَیْئٌ
ترجَمہ:جس نے کِسی غازی یا حاجی کو سامان (زادِ راہ )دیا یا اسکے پیچھے اسکے گھر والوں کی دیکھ بھال کی یا کسی روزہ دار کا روزہ افْطَار کروایاتو اُسے بھی انہی کی مِثْل اجْر ملے گا بِغیر اس کے کہ اُن کے اجْر میں کچھ کمی ہو۔
(السُنَن الکبریٰ للنَسائی ج۲ ص ۲۵۶ حدیث ۳۳۳۰)
سبحٰنَ اللہ عزوجل !کتنی پیاری بِشارت ہے کہ غازی کو سامانِ جہاد فَراہم کرنے والے کو غازی جیسا، حج پر جانے والے کی مالی مدد کرنے پرحاجی جیسا او راِفطار کروانے والے کو روزہ دار جیسا ثواب دیا جائے گا اور کرم بالائے کرم یہ کہ اُن لوگوں کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ ذَالِکَ فَضْلُ اللہ عزوجل ۔ مگر یہ حکمِ شریعت یاد رکھئے کہ حج و عمرہ
کیلئے سُوال کرنا حرام ہے اور اِس سُوال کرنے والے کو دینا بھی گناہ ہے۔